کبھی یوں ہو کہ بس تم ہو اور میں ہوں ،،، درختوں کی چھاؤں میں ٹھنڈی ہواؤں میں ہلکی ہلکی دھوپ میں ہلکی ہلکی بارش میں بس تمھیں دیکھتا رہوں ، تمھاری زلفیں جب ہوا سے ماتھے پر آئیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں ہٹاؤں تم تھوڑا سا شرماؤ تھوڑا سا مسکراؤ اور بس وہ پل جیسے تھم سا جائے، ننگے پاؤں ہم دونوں گھاس پر ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے یوں ہی چلتے رہیں تم میرے کندھے پر سر رکھ کر میٹھی میٹھی باتیں کرو، جب آسمان پر قوس قزاح بنے تو کتنا اچھا لگے گا ، میں اپنے ہاتھوں سے تمھارے بالوں میں گلاب کا پھول سجاؤں، ہاتھوں میں گجرا پہناؤں ، پرندے بھی تم کو دیکھ کر چہچہائیں، درخت بھی گنگنائیں، تیری میری یہ محبت کبھی ختم نہ ہو، جب بھی صبح آنکھ کھلے تو تمھارا کھلتے گلاب جیسا چہرہ دیکھوں اور جب بھی آنکھیں بند کروں تمھارے عکس کو آنکھوں میں بسا کر سو جاؤں ، میری حقیقت بھی تم ہو اور میرے خوابوں میں بھی تم ہو ،،، سنو مجھے تم سے بے انتہا محبت ہے ، ایک پل بھی تمھارے بغیر اب جینا مشکل ہے ، بس یوں ہی ساتھ ساتھ رہنا، میرے پاس رہنا ، بن تیرے اب جی نہ پائیں گے
۔
زریابیاں
۔
زریابیاں
No comments:
Post a Comment