Tuesday, January 26, 2016

بس کر ماما ............... زریاب شیخ

ایک وقت تھا ماما والدہ کے بھائی کو کہا جاتا تھا پھر محبوبہ کی شادی ہو جاۓ تو اس کے بچے بھی ماما کہنے لگ جاتے ہیں اب یہ حال ہے کہ ہر کوئی ماما بن چکا ہے آپ کوئی کام کریں ایک نہ ایک ماما آپ کو مل جاۓ گا جو آپ کی مرضی میں اپنی ٹانگ گھساۓ گا جیسے اگر کسی نے غلطی سے داڑھی رکھ لی تو ایسے ماموؤں کی طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کے نام نہاد اسلامی کلچر میں داڑھی رکھنا اکژیت کی نظر میں ایک غلطی سمجھا جاتا کیونکہ جیسے ہی آپ رکھیں گے تو پہلا ماما یہ کہے گا ارے مولوی بن گۓ لوگ کیا کہیں گے اور پھر پتہ نہیں کہاں کہاں سے مامے نکل آئیں گے بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ میں نے ایسا کیا کردیا مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مامے خود جو مرضی کریں لیکن جیسے ہی آپ اپنی مرضی کریں گے ان کے دماغ میں گھنٹی بجنے لگے گی آج کل لوگوں کے پاس عشق کے علاوہ کرنے کیلۓ کچھ نہیں اگر کوئی لڑکی بے چاری شادی کیلۓ اپنی مرضی کرے اور گھر والے غلطی سے راضی بھی ہو جائیں تو یہ مامے خوشیوں پر پانی پھیر دیں گے اف خدایا تمھاری بیٹی ایسی نکلے گی کبھی سوچا بھی نہ تھا ارے وہ تو بہت اچھی تھی ہاۓ اللہ یہ کس کی نظر لگ گئی ماں باپ اس وقت یہ سوچتے ہی نہیں کہ بیٹی ہماری ہے اور رو یہ مامے رہے ہیں ہمارے محلے میں ایک پچاس سالہ کنوارہ رہتا تھا بہنوں کو بیاہتے بیاہتے بال سفید ہوۓ تو شادی کا ارادہ ترک کر بیٹھا سب کہتے تھے ہاۓ بے چارا بہنوں کا سوچتے سوچتے خود رہ گیا اس کو کسی بھلے مانس نے رشتہ بتایا اور بات پکی ہوگئی لیکن بجاۓ خوش ہونے کے مامے ایک دم لوٹا بن گۓ اور کہنے لگے ارے دیکھو اس عمر میں لوگ پوتے پوتیوں سے کھیلتے ہیں اس کو جوانی چڑھی ہوئی ہے وہ بے چارا ان ماموؤں کے چکر میں آج بھی ترسی ہوئی زندگی گزار رہا ہے اگر آپ ارد گرد کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ لوگ ان ماموؤں کی وجہ سے پریشان نظر آئیں گے ایک محلے دار نے ایک بار کہا تھا کہ بیٹا تم ایسا کرلو ویسا کرلو تو میں نے بس ایک بات کہی ، تُسی میرے مامے لگدے او ، اگر آپ جینا چاہتے ہیں خوش رہنا چاہتے ہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بے فکر ہو کر کریں ان ماموؤں کی فکر نہ کریں کیونکہ یہ معاشرے کے وہ فضول لوگ ہوتے ہیں جن پاس کرنے کیلۓ کچھ نہیں 
۔
زریابیاں

No comments:

Post a Comment