Tuesday, January 26, 2016

تنقید اور ہم

پاکستان میں تنقید کا معیار بہت کمال ہے اگر ایک جگہ 50 افراد ایک لڑکی کو چھیڑ رہے ہوں اور ان میں ایک باریش بھی ہو تو باہر سے آنے والا بندہ باقی سب کو چھوڑ کر اس کو برا بھلا کہنا شروع کردے گا اس کو یہ فکر ہی نہیں کہ باقی 49 بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ان کا بھی کردار ہے کوئی پردہ دار خاتون فلم دیکھنے سینما چلی جاۓ تو باقی 200 افراد کو لوگ نہیں دیکھتے اس خاتون کے بارے میں چہ مگوئیاں کرتے رہیں گے گویا باقی تو سب دودھ کے دھلے ہیں قصور میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ برا ہوا لیکن امام مسجد پر شیطان آ جاۓ تو پاکستان کے ہر امام مسجد کو ننگا کردیا جاتا ہے ایک طاہر اشرفی غلط ہے تو سب علماء کے پیٹ کا مذاق بن جاتا ہے گویا جیسے حلوہ صرف مولوی کھاتے ہیں مولوی اس معاشرے کا چند فیصد ہیں جن میں سے چند فیصد خراب ہیں اور کلین شیو 90 فیصد ہیں جن کی اکثریت مولویوں سے بھی زیادہ خراب ہے اللہ کا عذاب صرف مولویوں کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ اکژیت کی کالی کرتوتوں کی وجہ سے آتا ہے اس ملک کا وزیراعظم بھی باریش نہیں زرداری بھی باریش نہیں عمران بھی باریش نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو چاہے کرتے پھریں اور کہا یہ جاۓ کہ جی جب مولوی ہی خراب ہوں گے تو معاشرہ کیسے ٹھیک ہوگا معاشرہ اچھی سوچ سے اچھا ہوتا ہے اپنی سوچ کو اچھا کریں پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں پھر دوسروں کا گریبان پھاڑیں
۔
زریابیاں

No comments:

Post a Comment