Wednesday, January 27, 2016

نیک اور "یک" مسلمان ،،،،،،

۔
پاکستان میں دو قسم کے لوگ ہیں ایک جن کا ظاہر نیک لگتا ہے اور ایک "یک" یعنی کھوچل یا شرارتی قسم کے لوگ ہوتے ہیں پاکستان میں یہ مشہور ہے کہ علماء خراب ہیں اس قوم کی حالت ان کی ہی وجہ سے خراب ہوئی ہے لیکن اگر آپ مساجد جا کر دیکھیں تو نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے فجر کے وقت تو اس قوم سے ویسے ہی نہیں اٹھا جاتا کیونکہ رات بھر فون پر محبت کرنے کے بعد آنکھ کہاں کھلتی ہے جب مساجد میں لوگ آئیں گے ہی نہیں تو بے چارے علماء ان کو خراب کیسے کریں گے ایک وقت تھا مفتی حضرات فتوی دیا کرتے تھے لیکن اب ان کو بھی کوئی نہیں پوچھتا تو پھر اصل خرابی کہاں ہے تو جناب اصل خرابی یہ "یک"لوگ ہیں ایک شخص کو اللہ نے توقیق دی اور اس نے داڑھی رکھ لی اب اگر وہ کسی سینما میں چلا گیا کسی ڈانس پارٹی میں چلا گیا تو بس اس کا جینا حرام ہوگیا، ان "یک"لوگوں نے سب سے پہلے فتوی لگانا ہے کہ جناب داڑھی کا احترام کرنا چاہیئے آپ کا یہاں کیا کام ہے، ارے سینما دیکھنا تو آپ کیلئے حرام ہے گویا داڑھی رکھنا ایک جرم بن گیا ہے جب ایک بندہ داڑھی رکھتا ہے تو ہر کوئی اس پر نظر رکھتا ہے اس نے جہاں کوئی غلط کام کیا اور بس اس کی عزت کا فالودہ بنا دیا اسے پھر عام انسان سمجھا ہی نہیں جاتا ، یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مسلمانوں نے ہی اپنا دین خراب کیا ، پاکستان میں دو قسم کے باریش ہیں ایک وہ جنہوں نے دین کی تعلیم حاصل کی اور ایک وہ جنہوں نے عام تعلیم حاصل کی لیکن داڑھی رکھ لی مگر پاکستان میں ہر داڑھی والے کو مولوی ہی سمجھا جاتا ہے اور اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اچھا ہی ہونا چاہیئے اور خود بھلے شراب پیتے ہوں زنا کرتے ہوں سود کھاتے ہوں لیکن یہ ہی کام کوئی داڑھی والا کرے تو اس کو جہنم تک چھوڑ کر آئیں گے ، اس ملک میں کلین شیو افراد کی تعداد باریش سے بہت زیادہ ہے اور ظاہر ہے برے کام بھی کلین شیو ہی زیادہ کرتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ کلین شیو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو برا کام کرنے کی اجازت ہے اور ان سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ کوئی باریش غلط کام کرے ، ایک کلین شیو گالی دے کوئی اتنی توجہ بھی نہیں دیتا لیکن ایک داڑھی والا دیدے تو بس سارے اسلام کی ایسی تیسی کردی جاتی ہے، سینکڑون کلین شیو حضرات ہیں جن کا پیٹ باہر نکلا ہوتا ہے لیکن ہمیں مولوی کا پیٹ ہی نظر آتا ہے ، میں دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس ملک کی اکثریت کسی مولوی کی نہیں سنتی لیکن برا بھلا اسی کو کہتی ہے ، اسلام کو باریش مسلمان نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کلین شیو مسلمان نے پہنچایا ہے اللہ نے ہر انسان کو عقل دی ہے آنکھیں دی ہیں زبان دی ہے اور ہر ایک سے اس کے اعمال کے بارے میں ہوچھا جائے گا لیکن یہ "یک "لوگ سمجھتے نہیں اور شاید کبھی نہیں سمجھیں گے
،
زریابیاں

انٹرنیٹ اور نئی نسل

اکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ گندی ویب سائیٹس دیکھنے والا ملک ہے اس کی شاید ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم ان ملکوں سے بہت بہتر ہے جو دیکھنے کی بجائے اپنی نفسانی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل پھر بھی اتنی اچھی ہے کہ صرف دیکھ کر ہی اپنی صحت اور دماغ خراب کرتی رہتی ہے کچھ تو اللہ کا خوف اور کچھ پکڑے جانے کا خوف ابھی بھی ہماری نوجوان نسل کو بچا رہا ہے، انسان کی ایک فطرت ہے وہ ایک چیز دیکھ دیکھ کر اکتا جاتا ہے پاکستان میں پہلے لوگ چھپ چھپ کر غلط فلمیں دیکھتے تھے پھر ڈش آگئی اس کے بعد انٹرنیت اور اب موبائل نے ہر نوجوان کو یہ سہولت با آسانی میسر کردی ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ نئی نسل جوان ہوتے ہی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے اور لڑکا ہو یا لڑکی بس سب کچھ لٹانے کے درپے ہوتے ہیں، بچوں سے جنسی زیادتی کی ایک بڑی وجہ یہ فلمیں ہی ہیں کیونکہ باہر کہ ملکوں میں سب سے زیادہ برا حال ہے وہاں پر سخت قانون ہونے کے باوجود اس کام کو روکا نہیں جاسکا پچھلے دنوں بچوں سے زیادتی کی دنیا کی سب سے بڑی ویب سائیٹ کے خلاف کارروائی کی گئی سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا لیکن یہ کام ایسا ہے جو کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے ، ہمارے والدین اتفاق سے اپنے بچوں کا کمپیوٹر ہو موبائل ہو دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے ایک تو ویسے ہی ان کو ٹیکنالوجی کا علم نہیں اور دوسرا جب کچھ برا ہو جائے تو حکومت کو ہی کوستے ہیں لیکن اپنی ذمہ داری کا بالکل بھی احساس نہیں کرتے، چھوٹے چھوٹے بچوں کے چہروں سے معصومیت ختم ہوتی جا رہی ہے چھوٹی چھوٹی بچیاں وقت سے پہلے ہی جوان ہو رہی ہیں جو کسی خطرے سے کم نہیں لیکن باپ کہتا ہے کہ ماں کا کام ہے اور ماں کی ویسے ہی اولاد نہین سنتی ، والدین کی نااہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں بھی بارہ سے تیرہ سال کی لڑکیاں ماں بن رہی ہیں، ہم سب کو مل کر اس بارے میں سوچنا ہوگا اپنے ارد گرد بچوں پر نظر رکھنی ہوگی اس ملک کے بچے اس ملک کا مستقبل ہیں اور اپنے مستقبل کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے آگر آج ہم نے کچھ نہ کیا تو اس ملک کی تباہی میں ہمارا بھی ہاتھ ہوگا
۔
زریابیاں

صبر اور وقت کی پابندی

صبر اور وقت کی پابندی کسی بھی قوم کی زندگی بدل سکتی ہے اور اگر یہ دونوں چیزیں نہ ہوں تو وہ قوم پیچھے رہ جاتی ہے اور کرپش کی سب سے بڑی وجہ بھی یہ دونوں ہی ہیں ، پاکستانی قوم میں صبر بالکل بھی نہیں اگر آپ اشارے پر ہی کھڑے ہو جائیں تو بے ہنگم صورتحال دیکھ کر قوم کی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے لوگوں کو اتنی جلدی ہوتی ہے کہ اس چکر میں روز درجنوں افراد اللہ کے پاس چلے جاتے ہیں لیکن ان حادثات سے ہم کچھ بھی نہیں سیکھتے فرض کریں اگر سورج کو یہ آزادی دیدی جائے کہ وہ اپنی مرضی سے طلوع ہو اور غروب ہو تو دنیا کا سارا سسٹم ہی تباہ ہو کر رہ جائے گا صرف ایک سورج سے یہ حال ہو سکتا ہے تو سوچیں آپ کے وقت کی پابندی نہ کرنے سے معاشرے پر کتنا برا اثر ہوتا ہے ایک شخص وقت پر سوئے وقت پر نماز پڑھے وقت پر کھائے ہر کام کو وقت پر کرے اس کی زندگی اس شخص سے ہزار گنا بہتر ہوگی جو ہر کام ہی بے وقت کرنے کا عادی ہے ہمارے اندر وقت کی قدر نہ ہونے کے باعث سرکاری اداروں کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے ایک تو وقت پر پہنچنا نہیں اور دوسرا کوئی کام بھی وقت پر نہیں کرنا اور تیسرا یہ کے وقت سے پہلے ہی دفتر سے نکل جانا ،، جس کے باعث پورا سسٹم ہی خراب ہو کر رہ گیا ہے نادرا شناختی کارڈ کا سسٹم شروع ہوا تو ایمرجنسی کارڈ بنانے کیلئے علیحدہ کاؤنٹر بنایا گیا جس کی فیس عام کارڈ سے زیادہ رکھی گئی لیکن پاکستانی قوم میں صبر ہی نہیں اور حکومت نے اس بے صبری سے خوب کمایا اور ابھی بھی کما رہی ہے کسی سرکاری دفتر میں کوئی کام ہو لوگ صرف چند دن صبر نہ کرنے کی خاطر پیسہ دیتے ہیں اور کام کروالیتے ہیں اسی بے صبری کا نتیجہ یہ نکلا کے اب ہر سرکاری دفتر میں رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا لوگ جب یہ سوچتے ہیں کہ خوار ہونا پڑے گا تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا بہتر ہے مٹھی گرم کردیں تو وہ خود ہی کرپشن کے ذمہ دار بنتے ہیں ، سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ رشوت دے کر کام کرانے کے بعد اس پر فخر بھی کیا جاتا ہے اور جو بے چارا رشوت سے نفرت کرتا ہے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، یہ برائی اب معاشرے میں اس قدر سرایت کرچکی ہے کہ اس سے پیچھا چھڑانے میں بہت وقت لگے گا جب حکمران سختی کرتے ہیں تو اس پر خوب واویلا مچایا جاتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قوم ٹھیک ہی نہیں ہونا چاہتی اس قوم کو نہ تو ڈسپلن پسند ہے نہ انتظار پسند ہے اور نہ ہی وقت کی پابندی کا شوق ہے یہ قوم بس صرف اپنی مرضی کرنا جانتی ہے اور پھر اللہ ایسے حکمران مسلط کرتا جو ایسی قوم کی بینڈ بجاتا ہے
۔
زریابیاں

Tuesday, January 26, 2016

لبرل مسلمان

پاکستان میں لبرل مسلمانوں کی دو قسمیں ہیں ایک لبرل جب کسی لڑکی کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے ماشاء اللہ اور دوسرا لبرل جب کسی خوبصورت لڑکی کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے استغفراللہ ، ایک لبرل کلین شیو ہو کر شراب پیتا ہے اور ایک لبرل باریش ہوکر شراب پیتا ہے ایک لبرل لڑکیوں کے جینز اور پینٹ شرٹ کی حمایت کرتا ہے جبکہ دوسرا لبرل چست برقع پہننے کو ترجیح دیتا ہے ایک لبرل لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ ملنے کی حمایت کرتا ہے اور دوسرا چھپ کر ملنے کو ترجیح دیتا ہے ایک لبرل کہتا ہے کہ دین سیکھنے کیلئے کسی استاد کی ضرورت نہیں ہے دین تو ویسے ہی بہت آسان ہے جبکہ دوسرا کہتا ہے دین سیکھنے کیلئے استاد کی ضرورت ہے لیکن وہ لبرل ہونا چاہیئے :D
.
زریابیاں

بس کر ماما ............... زریاب شیخ

ایک وقت تھا ماما والدہ کے بھائی کو کہا جاتا تھا پھر محبوبہ کی شادی ہو جاۓ تو اس کے بچے بھی ماما کہنے لگ جاتے ہیں اب یہ حال ہے کہ ہر کوئی ماما بن چکا ہے آپ کوئی کام کریں ایک نہ ایک ماما آپ کو مل جاۓ گا جو آپ کی مرضی میں اپنی ٹانگ گھساۓ گا جیسے اگر کسی نے غلطی سے داڑھی رکھ لی تو ایسے ماموؤں کی طرح طرح کی باتیں سننے کو ملیں گی یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کے نام نہاد اسلامی کلچر میں داڑھی رکھنا اکژیت کی نظر میں ایک غلطی سمجھا جاتا کیونکہ جیسے ہی آپ رکھیں گے تو پہلا ماما یہ کہے گا ارے مولوی بن گۓ لوگ کیا کہیں گے اور پھر پتہ نہیں کہاں کہاں سے مامے نکل آئیں گے بندہ سوچتا رہ جاتا ہے کہ میں نے ایسا کیا کردیا مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مامے خود جو مرضی کریں لیکن جیسے ہی آپ اپنی مرضی کریں گے ان کے دماغ میں گھنٹی بجنے لگے گی آج کل لوگوں کے پاس عشق کے علاوہ کرنے کیلۓ کچھ نہیں اگر کوئی لڑکی بے چاری شادی کیلۓ اپنی مرضی کرے اور گھر والے غلطی سے راضی بھی ہو جائیں تو یہ مامے خوشیوں پر پانی پھیر دیں گے اف خدایا تمھاری بیٹی ایسی نکلے گی کبھی سوچا بھی نہ تھا ارے وہ تو بہت اچھی تھی ہاۓ اللہ یہ کس کی نظر لگ گئی ماں باپ اس وقت یہ سوچتے ہی نہیں کہ بیٹی ہماری ہے اور رو یہ مامے رہے ہیں ہمارے محلے میں ایک پچاس سالہ کنوارہ رہتا تھا بہنوں کو بیاہتے بیاہتے بال سفید ہوۓ تو شادی کا ارادہ ترک کر بیٹھا سب کہتے تھے ہاۓ بے چارا بہنوں کا سوچتے سوچتے خود رہ گیا اس کو کسی بھلے مانس نے رشتہ بتایا اور بات پکی ہوگئی لیکن بجاۓ خوش ہونے کے مامے ایک دم لوٹا بن گۓ اور کہنے لگے ارے دیکھو اس عمر میں لوگ پوتے پوتیوں سے کھیلتے ہیں اس کو جوانی چڑھی ہوئی ہے وہ بے چارا ان ماموؤں کے چکر میں آج بھی ترسی ہوئی زندگی گزار رہا ہے اگر آپ ارد گرد کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ لوگ ان ماموؤں کی وجہ سے پریشان نظر آئیں گے ایک محلے دار نے ایک بار کہا تھا کہ بیٹا تم ایسا کرلو ویسا کرلو تو میں نے بس ایک بات کہی ، تُسی میرے مامے لگدے او ، اگر آپ جینا چاہتے ہیں خوش رہنا چاہتے ہیں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو بے فکر ہو کر کریں ان ماموؤں کی فکر نہ کریں کیونکہ یہ معاشرے کے وہ فضول لوگ ہوتے ہیں جن پاس کرنے کیلۓ کچھ نہیں 
۔
زریابیاں

میک اپ اور اقدام قتل

ایسی خواتین جن کا میک اپ اترنے کے بعد مرد کو ہارٹ اٹیک ہو جاۓ ان کے خلاف اقدام قتل اور دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کیا جاۓ ،حکومت کی پولیس کو ہدایت
۔
زریابیاں

سپرمین

صبح کے 8 بجے ہیں 
اسلم تیز رفتاری سے کار چلا رہا تھا، اسے آج میٹنگ میں وقت پر پہنچنا تھا ایک دم فون کی گھنٹی کی بجتی ہے وہ فون اٹھا کر جیسے ہی کان سے لگاتا ہے سامنے ایک لڑکی اور دو بچے سڑک کراس کرنے کیلئے زیبرا کراسنگ پر چڑھتے ہیں اشارہ لال ہو چکا تھا وہ بوکھلا جاتا ہے اس کا موبائل ہاتھ سے گر جاتا ہے بریک پر پیر رکھتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح کے 8 بج کر 2 منٹ ہوئے ہیں 
بیٹا جلدی کرو ہر روز دیر سے جاتے ہو ارے سلمہ بیٹی جلدی ناشتا کرو سکول سے دیر ہو رہی ہے آج لیٹ ہوئے تو مس نے پھر پھر ڈانٹنا ہے، چلو چلو نکلو،، روبینہ اپنے بچوں کے ساتھ گھر سے نکل کر مین سڑک پر آتی ہے جیسے ہی اس کی طرف کا اشارہ سبز ہوتا ہے وہ سڑک کراس کرنے لگتی ہے جوں ہی سڑک کے درمیان پہنچتی ہے کار کی بریک کی آواز سن کر ڈر جاتی ہے بائیں طرف سے ایک کار اس کے قریب پہنچ چکی تھی بچے ماں سے لپٹ جاتے ہیں آنکھیں بند کرلیتے ہیں
صبح کے 8 بج کر 3 منٹ ہوئے ہیں
ماں میں ناشتہ نہیں کر رہا مجھے دیر ہورہی ہے میں کالج جا کر کرلوں گا میں آج گاڑی پر جاؤں گا موٹر سائیکل پنکچر ہے وہ بہت خوش تھا کافی دنوں بعد گاڑی میں جا رہا تھا، نعیم گھر سے کالج کا بول کر نکلا تھا لیکن آج تو اس کا دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پلان تھا وہ گاڑی کی رفتار تیز کرتا ہے ساتھ میں اونچی آواز میں گانے لگا دیتا ہے اچانک ایک دھماکہ سے اس کا ٹائر پھٹتا ہے،گاڑی کا توازن خراب ہو جاتا ہے وہ بریک پر پاؤں رکھتا ہے ، گاڑی ایک دم ہچکولا کھاتی ہے اس کے نظر سامنے پڑتی ہے ایک لڑکی بچوں کے ساتھ سڑک پار کر رہی ہے وہ گھبرا کا اس کی طرف دیکھتی ہے اور پھر ،،،،،،
صبح کے 8 بج کر3 منٹ اور 15 سیکنڈ ہوئے ہیں
اچانک سپرمین آتا ہے اور ماں اور بچوں کو سائیڈ پر کر دیتا ہے ایک ہاتھ سے اسلم کی کار کو روکتا ہے اور تیزی سے نعیم کی کار کو الٹنے سے بچا لیتا ہے grin emoticon
۔
زریابیاں

شیر اک واری فیر

کل صبح دفتر سے گھر آیا تو معمول کے مطابق دایاں قدم اندر رکھا اللہ کا نام لیا اور سلام کیا کپڑے چینج کرکے امپورٹڈڈ لکس سے منہ دھویا فرانس سے درآمد شدہ ٹوتھ پیسٹ کی اور پھر جنوبی افریقہ کا سکرب چہرے پر لگایا اور اورنج ٹرین کی دھول صاف کی، ناشتہ بنانے کیلۓ کچن میں چولہا جلایا تو گیس غائب تھی ایک دم منہ سے نکلا شیر آگے بولنے ہی والا تھا کہ گیس آگئی بڑا حیران ہوا فرنچ آملیٹ بنایا اور لاٹے کافی پی کر میں کمپیوٹر پر بیٹھ گیا جیسے ہی آن کرنے لگا لائٹ چلی گئ بے اختیار منہ سے نکلا شیر اور ایک دم لائٹ آگئ بڑا خوش ہوا انجلینا جولی کی فلم دیکھی اس کے بعد دو تین بیوہ خواتین سے انباکس میں چیٹ کی بات کرتے کرتے سگریٹ کی طلب ہوئی تو یاد آیا کہ لانا بھول گیا ہوں باہر نکلا موٹر سائیکل موڑتے ہوۓ میرے دل میں خیال آیا کہ گلی بہت خراب ہوچکی ہے کاش نئی بن جاتی اسی نیت سے میں نے آواز لگائی شیر اور سیگریٹ لینے چلا گیا واپسی پر دیکھا کہ بلڈوزر آ گۓ ہیں بڑا خوش ہوا اور نعرہ مارا شیر اک واری فیر جب گھر کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ آدھا گھر بلڈوزر مار کر زمین بوس کردیا گیا ہے میں نے چلانا شروع کردیا یہ کیأکر رہے ہو تو ایک سرکاری ملازم بولا سڑکٔ کھلی کرنے کیلۓ توڑ رہے ہیں میرا ہمسایہ بولا جب شیر شیر کرو گے تو یہ ہی حال ہوگا
۔
زریابیاں

تجھ سے پپو کی مونث چاہتا ہوں

تجھ سے پپو کی مونث چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
۔
شاعر مغرب
زریابیاں

ماں باپ اور بچے

ماں باپ سے زیادہ اولاد سے کوئی محبت نہیں کرتا اور اگر وہ ہی توجہ دینا چھوڑ دیں تو بہت نقصان ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی جو ہم سوچتے ہیں ویسا ہوتا نہیں ہوا یوں کہ کل شام کو دہی خریدنے نکلا اور معدے کی تڑپ نے سوپ کی دکان پر پہنچا دیا پیٹ کی آگ بجھائی اور گھر جانے لگا پاس سے ایک 8سال کا بچہ موٹر سائیکل پر گزرا اس نے پیچھے اپنے چھوٹے بھائی کو بٹھا رکھا تھا یہ منظر دیکھ کر دل ہی دھل گیا جلدی بائیک سٹارٹ کی اور ان کے پیچھے چل دیا اور کچھ دور جا کر روک لیا ان کو سمجھایا کہ بیٹا اتنی سی عمر میں بائیک چلانا جان کیلۓ نقصان دہ ہے پولیس بھی پکڑ سکتی ہے تم کو اپنے والدین کی عزت کا خیال نہیں وہ تم کو کچھ نہیں کہتے وہ بچہ بولا کہ انکل میرے بابا نے خود مجھے موٹر سائیکل دی اور سیر کیلۓ بھیجا ہے میں حیران رہ گیا وہ بولا میرے بابا کافی مہینوں بعد آج ایک دن کیلۓ گھر آۓ ہیں رات کو واپس چلے جائیں گے انہوں نے پانی گرم کرنے کیلۓ رکھا اور ہمیں کہا کہ جاؤ بیٹا بازار سے کچھ لے آؤ بھائی کو بھی گھما آؤ ,اس بچے کی بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگۓ اور میں بائیک پر بیٹھ کر گھر روانہ ہوگیا
۔
زریابیاں

تنقید اور ہم

پاکستان میں تنقید کا معیار بہت کمال ہے اگر ایک جگہ 50 افراد ایک لڑکی کو چھیڑ رہے ہوں اور ان میں ایک باریش بھی ہو تو باہر سے آنے والا بندہ باقی سب کو چھوڑ کر اس کو برا بھلا کہنا شروع کردے گا اس کو یہ فکر ہی نہیں کہ باقی 49 بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ان کا بھی کردار ہے کوئی پردہ دار خاتون فلم دیکھنے سینما چلی جاۓ تو باقی 200 افراد کو لوگ نہیں دیکھتے اس خاتون کے بارے میں چہ مگوئیاں کرتے رہیں گے گویا باقی تو سب دودھ کے دھلے ہیں قصور میں سینکڑوں بچوں کے ساتھ برا ہوا لیکن امام مسجد پر شیطان آ جاۓ تو پاکستان کے ہر امام مسجد کو ننگا کردیا جاتا ہے ایک طاہر اشرفی غلط ہے تو سب علماء کے پیٹ کا مذاق بن جاتا ہے گویا جیسے حلوہ صرف مولوی کھاتے ہیں مولوی اس معاشرے کا چند فیصد ہیں جن میں سے چند فیصد خراب ہیں اور کلین شیو 90 فیصد ہیں جن کی اکثریت مولویوں سے بھی زیادہ خراب ہے اللہ کا عذاب صرف مولویوں کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ اکژیت کی کالی کرتوتوں کی وجہ سے آتا ہے اس ملک کا وزیراعظم بھی باریش نہیں زرداری بھی باریش نہیں عمران بھی باریش نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جو چاہے کرتے پھریں اور کہا یہ جاۓ کہ جی جب مولوی ہی خراب ہوں گے تو معاشرہ کیسے ٹھیک ہوگا معاشرہ اچھی سوچ سے اچھا ہوتا ہے اپنی سوچ کو اچھا کریں پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں پھر دوسروں کا گریبان پھاڑیں
۔
زریابیاں

مسلم لیگ

مسلم لیگ ن وہ واحد جماعت ہے جس میں شامل ہونے کیلئے انسان کو اپنی غیرت کی بھی مارنی پڑتی ہے

دولت

دولت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے بھلے آپ کے دوست ہی کیوں نہ ہوں ماتھے پر آنکھ رکھ لیتے ہیں اور ایسے انجان بن جاتے ہیں جیسے کبھی ملے ہی نہ ہوں، یہ دولت تو آنی جانی چیز ہے آج ہے کل نہیں ، مجھے بہت خوشی ہوتی ہے جب کسی کے پاس چار پیسے آ جاتے ہیں کیونکہ اس کی اصلیت کا پتہ چل جاتا ہے 
۔
زریاب شیخ

حکومت اور عوام

لوگ کہتے ہیں حکومت صحت پر توجہ نہیں دیتی لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ خود اپنی صحت پر کتنی توجہ دیتے ہیں معلوم ہے شراب حرام ہے لیکن پیتے ہیں سگریٹ نقصان دہ ہے لیکن چھوڑتے نہیں ہم میں سے کتنے ہیں جو صبح منہ دھوتے ہیں دانت صاف کرتے ہیں یا ہاتھ دھو کر کھانا کھاتے ہیں پرانے وقتوں میں لوگ گھر کا کھانا کھاتے تھے اب گھر میں کھانا کم بنتا ہے اصلی چیزیں ملتی تھیں لیکن اب ہم خود ہی ملاوٹ کرتے ہیں ڈاکٹر کہہ کہہ کر تھک گۓ کہ ڈرنکس نقصان دہ ہیں لیکن کسی پر اثر نہیں ہوتا، جب انسان خود پر توجہ نہیں دے گا تو بیمار ہی ہوگا اور جب تعداد زیادہ ہوگی تو مسائل بڑھیں گے حکمرانوں پر انگلیاں اٹھانا تو بہت آسان ہے جب چاہا گالی دے دی برا بھلا کہہ دیا لیکن کبھی کسی نے اپنے آپ کو گالی نہیں دی جب حکومت کچھ غلط کرتی ہے سب شروع ہوجاتے ہیں لیکن جب ہم کچھ غلط کریں تو کہتےہیں انسان ہیں غلطی ہو ہی جاتی ہے آج ہم دنیا میں اس لۓ پیچھے ہیں کیونکہ ہم نے خود شرمندہ ہونا چھوڑ دیاہے اور دوسروں کو شرمندہ کرنا اپنا مشن بنا لیا ہے صفائی نصف ایمان ہے اور اس پر عمل نہ کرکے ہمارا ستیا ناس ہوگیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ابھی بھی اندھے ہیں اور اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی بجاۓ مزید بگاڑ رہے ہیں
۔
زریابیاں

مرد اور جانور

یں کوئی نیک یا فرشتہ صفت انسان نہیں ایک عام سا مرد ہوں لیکن اپنے ارد گرد جانور نما مرد دیکھتا ہوں تو خود کے مرد ہونے پر شرمندگی ہوتی ہے ایک لڑکی اگر تھوڑا چست لباس پہن لے تو ہم مرد ایسی ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ شیطان بھی کانپ جاۓ ایسی زبان کو تیزاب سے دھویا جاۓ شاید تب بھی صاف نہ ہو میری اپنی دو بہنیں ہیں اور میں سمجھتا تھا جن کی بہنیں ہوتی ہیں وہ شاید عورت کی عزت ان لوگوں سے زیادہ کرتے ہیں جن کی بہنیں نہیں ہوتیں لیکن میری یہ سوچ غلط ثابت ہوئی، ایک عورت کو ہم نے طوائف، کنجری، بے حیا ، کام والی ، بستر گرم کرنے والی، کپڑے دھونے کی مشین اور پتہ نہیں کن کن ناموں جانوروں سے تشبیہ دی ہے کہ شرم آتی ہے بتا بھی نہیں سکتا لیکن افسوس ہم نے آج بھی عورت کو عزت دی اور نہ ہی عزت کرنا سیکھی،جہاں موقع ملا ہم نے مریم نواز کی آڑ میں اس کے کپڑے پھاڑے، جہاں موقع ملا ہم نے ریحام خان کے نام پر خوب گندا کیا جہاں موقع ملا آیان خان نام پر اس کے جسم کے چیتھڑے اڑا دیۓ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے میں سب سے زیادہ خراب مرد ہیں کسی بھی فیلڈ میں عورت چلی جاۓ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مجبوری کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود ہی عزت لوٹ کر کہتے ہیں یہ تو ہے ہی بے غیرت اگر اچھی ہوتی تو ایسا کام ہی نہ کرواتی واہ صاحب کیا بات کی ہے بھوکے کو کھانا بھی کھلایا اور جوتے بھی مارے اگر اگر بے چاری کوئی مطلقہ ہے تو بس اس کی خیر نہیں معاشرے میں استعمال شدہ مال کی طرح ہم نے بیوہ اور مطلقہ کو بھی لنڈے کا مال ہی سمجھا ہے انہیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے اب وہ بیوی نہیں بس رکھیل ہی بن سکتی ہیں اللہ نے جسے رحمت قرار دیا وہ بیٹی ہو بہن ہو ماں ہو بیوی ہو چاہے اس سے کوئی رشتہ نہ بھی ہو تب بھی رحمت ہی رہتی ہے طوائف اگر ماں ہے تب بھی اللہ نے اس کے قدموں سے جنت نہیں چھینی مردوں کی اکژیت نے عورت کو ہمیشہ گندی نظر سے ہی دیکھا ہے شایداس لۓ کیونکہ ان کے اپنے گھر میں بھی عورت کی قدر نہیں ایک مرد کیلۓ عورت بس جسم کی تسکین کیلۓ پیدا ہوئی ایک مرد کو دنیا کی ساری عورتیں بھی دیدی جائیں تو شاید اس کے اندر کی ہوس ختم نہ ہو ایک مرد ہوکر مجھے اپنی ہی جنس کا احتساب کرنا پڑ رہا ہے مجھے میرے ایک دوست کی وہ بات یاد آگئی جب اس نے ایک لڑکی کو چھیڑا تھا اور میں نے کہا تھا کہ کیا تمھاری کوئی بہن نہیں تو وہ ہنس کر بولا میری واقعی کوئی بہن نہیں تو میں نے کہا کہ ماں تو ہے اور اس نے میرے گال پر ایک تھپڑ مار دیا وہ تھپڑ میں آج تک نہیں بھولا سوچتا ہوں کہ ہماری نظر میں بس اپنی ماں بہن کی عزت ہے باقی سب ہمارے لۓ ایک جیسی ہیں
۔
زریابیاں

میٹر بس پل

میٹرو پل کا سب سے زیادہ فائدہ غریبوں کو ہوا ہے پہلے وہ لوگ کھلے آسمان تلے سوتے تھے اب پل کے نیچے سوتے ہیں grin emoticon
.
زریابیاں

ایک دن پیٹ کے ساتھ ...... زریاب شیخ

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
جو اتنا کھاتا ہوں کہاں چلا جاتا ہے
زریاب شیخ کا پیٹ ہے یا پھر کنؤاں
کسی کی سجھ میں کچھ نہیں آتا ہے
۔
یہ پیٹ بھی بڑا عجیب ہے شادی سے پہلے نکل آۓ تو باپ بیٹی کو مار دیتا ہے شادی کے بعد نکلے تو غربت مار دیتی ہے اور اگر نہ نکلے تو دنیا افسوس کر کر کے ہی پاگل کر دیتی ہے اور اگر ہر سال نکلے تو حیران ہو ہو کر پاگل ہو جاتی ہے اگر مرد کا شادی سےپہلے نکلے دنیا تب بھی مذاق اڑاتی ہے بعد میں نکلے تب بھی اڑاتی ہے پیٹ کیلۓ ایک مجبور عورت اپنا جسم بھی بیچ دیتی ہے ارے کیا کرے گھر والوں کا پیٹ بھی تو پالنا ہے بچے کا پیٹ خالی ہو تو نہ دن کو چین آتا ہے نہ رات کو نیند آتی ہے کچھ لوگ پیٹ کو رشوت اور سود کی آگ سے بھرتے ہیں شاید اسی لۓ ان کو گیس کا مسلہ رہتا ہے آگ ہوگی تو دھواں تو نکلے گا عورت ماں بنے تو پیٹ پر ہاتھ رکھ رکھ کر دیکھتی ہے بچہ ٹھیک ہے اور بندے کا پیٹ بڑھے تو ہاتھ رکھ رکھ کر دیکھتا ہے کہاں کہاں جگہ خالی ہے یہ پیٹ ہی ہے جس نے اتنے فرقے بنا ڈالے کسی نے اپنی مسجد بنا ڈالی تو کسی نے مزار بنا ڈالے لٰیکن پیٹ ہے کہ بھرتا ہی نہیں اور اگر خالی ہو تو دماغ کام کرتا ہی نہیں کمال ہے پیٹ خالی ہو تو بندہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے اور بھرا ہو تو مزید بھرنے کی تڑپ مار دیتی ہے جان لیجیئے صاحب یہ پیٹ تب تک نہیں بھرے گا جب تک تو اپنے نفس کی پوجا کرے گا
۔
زریابیاں

بھوک

پہلے صرف خالی پیٹ انسان کو بھوکا کہا جاتا تھا لیکن اب جسم کی بھوک ، شہرت کی بھوک اور دولت کی بھوک نے انسان کو انسان ہی نہیں رہنے دیا
۔
زریابیاں

ملاوٹ

جس ملک میں ہر چیز ملاوٹ شدہ ہو اس ملک میں نہ عورت شریف رہ سکتی ہے نہ مرد باحیاء ہو سکتا ہے 
۔
زریابیاں

چہرہ اور آئینہ

اگر آئینہ انسان کو اس کا اصل چہرہ دکھانے لگ جاۓ تو لوگ آئینہ دیکھنا چھوڑ دیں 
۔
زریابیاں

مردانہ بے وقوفی

مرد بھی کتنا بے وقوف ہے عورت کو بے وقوف سمجھتا ہے اور دل کی سب باتیں بھی اسی کو بتاتا ہے ۔
۔
زریابیاں

مسلمان اور قبرستان

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے اور آج کے دور میں ایسا انسان صرف قبرستان میں ہی مل سکتا ہے
۔
زریابیان

لیڈیز فرسٹ

دوزخ میں خواتین کیوں زیادہ ہوں گی اب سمجھ آیا وہاں بھی ہر کوئی کہے گا لیڈیز فرسٹ ، لیڈیز فرسٹ ...
۔
زریابیاں

وردی اور شہید

کتنے افسوس کی بات ہے کوئی غریب یا ننگا انسان مر جاۓ تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ہی اسے شہید کا خطاب ملتا ہے لیکن اگر وہ ہی انسان وردی پہن لے بھلے نامہ اعمال میں کتنے ہی خون کا حساب لکھا ہو مرتے ہی شہید کا درجہ ملتا ہے اگر آپ چاہتے ہیں کہ مرنے کے بعد لوگ آپ کی پوجا کریں تو براۓ مہربانی آج سے بازار سے جا کر اپنی پسند کی وردی خرید لیں یہ آفر قیامت تک کیلۓ ہے 
۔
زریابیاں

Monday, January 11, 2016

چوڑا ، طوائف اور ہم

۔
پاکستان میں گند صاف کرنے والوں کو "چوڑا" کہا جاتا ہے تعجب کی بات ہے جو گند ڈالتے ہیں وہ تو مہذب کہلاتے ہیں اور جو ہمارا ہی گند صاف کرتے ہیں وہ "چوڑے" کہلاتے ہیں 
ان کو دیکھ کر ہم کو حقارت سی محسوس ہوتی ہے اور بندہ ان سے تھوڑا دور ہی رہتا ہے یہ اگر پانی مانگیں یا کچھ کھانے کو مانگیں تو ہم اپنے صاف برتنوں میں کبھی نہیں دیتے اور اگر دے دیں تو ہمیشہ کیلئے ان کو الگ رکھ دیتے ہیں 
اب چلتے ہیں دوسری جانب 
جو عورت آپ کو اپنا ضمیر اپنی غیرت مار کر جسم سے کھیلنے کی اجازت دے اور آپ کے جسم کی گندگی سے اپنے جسم کو گندہ ہونے کے پیسے وصول کرے اس کو ہم طوائف کہتے ہیں، معاشرے میں چوڑے کی طرح طوائف کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ایسی عورت کے پاس وہ لوگ جاتے ہیں جن کا زہن گندہ ہوتا ہے
اب پھر آتے ہیں واپس
اگر چوڑے نہ ہوں تو پاکستان میں ہر طرف گندگی ہی گندگی نظر آئے گی اس لئے ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیئے لیکن چونکہ ہم پڑھے لکھے لوگ ہیں اس لئے ہم شکریہ ادا کرنے کی بجائے ان سے ہاتھ ملانا بھی گنوارہ نہیں کرتے حالانکہ ہم خود اپنی گندگی صاف کرکے ہاتھ دھو کر ایک دوسرے کا ہاتھ چومتے رہتے ہیں، شاید ہی مجھ سمیت کوئی ایسا ہو جس نے ان کو کبھی گلے ہی لگایا ہو
واپس چلتے ہیں
طوائف کا وجود شاید صدیوں سے ہے ملک کے مختلف شہروں میں ریڈ لائٹ ایریئے بنائے گئے تاکہ گندے لوگ بجائے معاشرے کی اچھی اچھی لڑکیوں کی عزت سے کھیلیں وہ یہاں آکر اپنا جی بہلا سکتے ہیں لیکن پھر وقت گزرا اور یہ لوگ پورے پاکستان میں پھیل گئے ، وقت کے ساتھ تبدیلی ایسی آئی کہ پڑھی لکھی ماڈلز، طالبات اور دیگر شعبہ جات کی خواتین بھی اس کام کا حصہ بن گئیں اور اب یہ حال ہے کہ مرد ہو یا عورت شادی سے پہلے شادی شدہ ہو چکے ہوتے ہیں
اصل بات یہ ہے کہ
آج کے معاشرے کافی برا حال ہو چکا ہے ، لڑکیوں کو لڑکے ایسے دیکھتے ہیں جیسے کھانے کی ڈش ہو اور لڑکیاں بھی بے تاب نظر آتی ہیں ، پہلے جوڑے کو ملنا مشکل ہوتا تھا اب موبائل نے سب کام آسان کردیا ہے ویڈیو چیٹنگ کریں اور مزے بھی کریں گھر والے بے فکر ہو کر سو رہے ہوتے ہیں گویا معاشرے کی اکثریت زہنی طور پر گندی ہو چکی ہے اس کو صاف کرنے کیلئے ہمارے پاس کوئی چوڑا نہیں اگر سوچ کی بھی بو ہوتی تو شاید ہر انسان سے ہی بدبو آتی لیکن اللہ نے پردہ کر رکھا ہے
اور اس سے بھی گہری بات یہ کہ
اب طوائف بھی ہر گلی محلے میں مل جائے گی جو کام پہلے پیسے لے کر کیا جاتا تھا اب محبت کے نام پر مفت ہی ہو جاتا ہے ، لڑکے لڑکیوں کی دوستیاں ہوتی ہیں اور دوستی دوستی میں دو جسم ایک جان ہو جاتے ہیں جو طوائف معاشرے کے صرف گندے لوگوں کی پسند تھی وقت بدلنے کے ساتھ اب اچھے اچھے لوگ بھی اس کی نظر ہو چکے ہیں یہ طوائفیں پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں
تو جناب حل یہ ہے کہ
ہمیں اپنے بچوں پر نظر رکھنا ہوگی ان کے ذہن کو گندہ ہونے سے بچانا ہوگا اچھا رشتہ دیکھ کر بچیوں کی جلدی شادی کرنا ہوگی اگر اب بھی ہم نے نہ سوچا تو معاشرہ تباہ ہو جائے گا اور ہم ہاتھ پر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے
۔
زریابیاں

عورت ، مرد اور ہمارا معاشرہ

مرد نے عورت کو ایک عرصے تک اپنی جسمانی خواہش پوری کرنے کا زریعہ ہی سمجھا اسے پیروں کی جوتی کی طرح استعمال کیا اس کی شرم اور حیاء کو ہی جلا کر راکھ کردیا ایسا وقت بھی آیا بیٹی کو زندہ درگورکرنا اچھا سمجھا جاتا تھا لیکن پھر اللہ کی لاٹھی حرکت میں آئی اور اسلام نے اس معصوم کو عزت کی چادر پہنائی بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا جس عورت کو اس کے خاص ایام میں بھی یہودو نصاری اپنی درندگی کا نشانہ بناتے تھے اور ہندو پلید سمجھ کر کمرے میں بند کردیتے تھے اسلام نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور بتایا کہ خبرداران دنوں میں عورت کے پاس نہ جاؤ کیونکہ وہ تکلیف میں ہوتی ہے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ اچھوت نہیں سب کے ساتھ مل جل کر رہے گی گھر کے کام بھی کرے گی یہ ہی اسلام ہے جس نے عورت کے جسم پر غیر کی نظر پڑنے پر تنبیہ کی اور مرد کو کہا نظریں نیچی کرو ساتھ عورت کو بھی کہا تم تو امانت ہو خود بھی پردہ کرکے گھر سے نکلو یہ ہی اسلام ہے کہ مرد کو کہا کہ تم حق حلال کماؤ اور اپنی بیوی کو کھلاؤ اس کا خیال رکھو اس کی آنکھ میں آنسو نہ آنے دو سب حقوق پورے کرو اسلام ہی ہے جس نے عورت کو تنبیہ کی کہ تمھارا جسم اپنے شوہر کی امانت ہے اس میں خیانت نہ کرنا خود کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی کو مت دکھانا اور سب سے بڑھ کر اسلام نے عورت کے قدموں میں جنت رکھ دی بیٹی کو رحمت قرار دیدیا، ، عورت کو بلا ضرورت گھر سے نکلنے سے منع کیا نا محرم سے لہجے میں سختی رکھ کر بات کرنے کی تلقین کی، بیٹی کو اجازت دی کہ وہ پسند سے شادی کرے اگر رشتہ نہیں پسند تو انکار کردے 
..
وقت گزرتا گیا جب تک مرد عورت کے حقوق پورے کرتا رہا عورت بھی ایمانداری کا مطاہرہ دکھاتی رہی جب مرد نے ڈنڈی مارنا شروع کی تو عورت بھی باغی ہونے لگی، یہاں تک کہ مرد نے عورت کو شادی کے بعد اپنی جسمانی خواہش ، بچے پیدا کرنے کی مشین اور گھر میں کام کرنے والی ایک نوکرانی سمجھنا شروع کردیا، شادی کے وقت سب سے پہلا سوال یہ ہی پوچھا جاتا ہے کہ بیٹی کو کھانا بنانا آتا ہے گھرسنبھالنا آتا ہے جبکہ کوئی مرد سے یہ نہیں پوچھتا کہ مرد کو بھی عزت کرنی آتی ہے حقوق پورے کرنے آتے ہیں یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور پھر یہ وقت آ گیا کہ عورت ڈپریشن کا شکار ہونے لگی اس کا شوہر اسے وقت ہی نہیں دیتا تھا مرد نے بس یہ ہی سمجھ لیا کہ اس کیلئے کمانا اور بیوی کو پیسے دے دینا یہ ہی کافی ہے اور جب اپنا دل کیا حاجت پوری کرلی اور جب بیوی کو ضرورت ہو تب شوہر کے پاس وقت ہی نہیں اگر بیوی کچھ کہے تو شوہر کا ایک جملہ ہوتا تھا بیوی کو شوہر کا فرمانبردار ہونا چاہیئے شوہر کو ناراض کرو گی تو اللہ ناراض ہوگا اور طلاق کی دھمکی دی جانے لگی بیوی بے چاری دب دب کر زنگی گزارنے کی عادی ہوتی چلی گئی جس سے برداشت نہ ہوا اس نے خود کشی کرلی ، کسی نے ہمت کی تو طلاق لے اور کوئی کسی سے ناجائز تعلق بنا بیٹھی اور تب بھی سکون نہ ملا اور غیرت کے نام پر قتل کردی گئی، بیٹی کو اپنی مرضی کی شادی کی اجازت نہ مل سکی بس جہاں ماں باپ نے کہہ دیا سر جھکا کر چلی گئی
۔
اسلام نے تو مرد کو بھی یہ ہی سکھایا کہ بیوی کی عزت کرو اس کی ہر جائز خواہش کا خیال رکھو لیکن مرد نے حقوق کو صرف اپنی زات تک محدود کردیا اور بیوی کے حققوق کو کہیں دفن کرکے رکھ دیا، اسلام نے جو شان اور مرتبہ عورت کو دیا وہ مرتبہ ایک بار پھر مرد نے چھین لیا، مرد نے خود کو اتنا آزاد کرلیا کہ جب چاہا کسی لڑکی سے تعلق بنا لیا عیاشی بھی کرلی اور زندگی کے مزے لیتا رہا لیکن دوسری جانب عورت گھر میں کڑھتی رہی اس کے دل بہلانے کیلئے بچے تو تھے لیکن بچے شوہر کا نعم البدل تو نہیں تھے جن کے ہاں بچے نہیں تھے وہ کچھ کہنے سے ڈرتی تھیں کہ کہیں طلاق ہی نہ ہو جائے ، عورت نے پھر سے ڈر ڈر کر جینا شروع کردیا جس بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا اسی کو پھر سے زحمت قرار دیدیا گیا ، بیٹیاں پیدا ہونے پرعورت کو طعنے دے دے کر جینا مشکل بنا دیا گیا، عورت پھر سے مرد کی راہ تکنے لگی کہ شاید اسے دوبارہ وہ مقام ملے جو اللہ نے دیا تھا 
۔
جب یہ سلسلہ یوں ہی چلا تو آزادی نسواں کے علمبرداروں نے اسلام کو تنگ نظر مذہب قرار دیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ اسلام نے تو عورت کو قید کر رکھا ہے بے جا سختیاں کر رکھی ہیں اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتی کسی سے بات نہیں کر سکتی یوں عورت کے اندر ایک باغی تحریک کا آغاز ہوا جو عورت گھر میں پیسوں اور محبت کیلئے ترس رہی تھی اس نے گھر سے باہر قدم رکھنے کی ٹھانی ، اپنی مرضی سے جینے کی کوشش شروع کردی، لڑکیوں نے نوکریاں شروع کردیں یوں ایک وقت ایسا آیا کہ میاں بیوی دونوں ہی کمانے لگے ، کچھ کو تو مہنگائی نے کمانے پر مجبور کیا کچھ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی خواہش میں گھر سے نکلیں اور اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان جو توازن رکھا تھا وہ بگڑ گیا، بیویوں کا رویہ بھی شوہروں کے رویے جیسا ہوگیا، گھر میں کام کیلئے نوکرانی رکھ لی گئی اور بچوں کو ماں کی شفقت سے بھی محروم ہونا پڑا اور ایک ایسا معاشرہ بن گیا جس کو حقوق کا بالکل بھی علم نہیں تھا اسلام نے خوبصورت گھرانے کا جو تصور دیا تھا وہ پوری طرح بکھر گیا، طلاقیں بڑھنے لگیں ، لڑکیاں گھروں سے بھاگنے لگیں، شادی سے پہلے لڑکیاں عزت گنوانے لگیں، جو عزت کی چادر اسلام نے عورت کے سر پر ڈالی تھی وہ مرد کی غلطیوں سے تار تار ہو کر رہ گئی 
۔
عجیب بات ہے اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود مرد عورت کو ہی ذمہ دار ٹھراتا ہے خود تو جس لڑکی سے بھی چاہے بات کرلے لیکن بیوی پر پابندیاں لگاتا ہے اس نے عورت کو نہ تو ابھی تک اعتبار کے قابل سمجھا نہ ہی اسے قابل سمجھا اسے یہ لگتا ہے کہ عورت ایک بے وقوف سی مخلوق ہے جس کا کام بس اپنے مرد کے آگے جی حضؤر کرنا ہے ، آج معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ مرد اپنی حیثیت کھوتا جا رہا ہے مرد اپنا وہ مقام کھوتا جا رہا ہے جو اللہ نے اسے دیا جس مرد نے عورت کو بے مقام کیا آج خود بھی کہیں کھو کر رہ گیا ہے، مرد کو اپنا مقام پانے کیلئے عورت کو وہ ہی مقام دینا ہوگا جو اللہ نے دینے کا حکم دیا ہے، ایک مرد کیلئے اس کی بیوی سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دنیا کی ساری عورتیں بھلے کتنی ہی اچھی ہوں لیکن شوہر کیلئے اس کی بیوی ہی اچھی ہے خدارا عورت کو اس کا حق دیں یہ نہ ہو کہ مرد بھی عورت کیلئے بس جسم کی ضرورت بن جائے 
۔
زریاب شیخ 

حقوق العباد نہیں معمولی

حقوق العباد کو آج کے دور میں لوگوں نے اتنا ہی معمولی سمجھ لیا ہے جتنا حقوق اللہ کو سمجھتے ہیں کمال لوگ ہیں سود کو برا کہتے ہیں لیکن جھوٹ کو معمولی سمجھتے ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا اب خود ہی ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں کہ ہم کتنا جھوٹ بولتے ہیں علماء کو تو ایسے برا بھلا کہتے ہیں جیس خود پتہ نہیں کتنے تہجد گزار ہیں ایک شخص بھلے کتنا نیک کام کرتا ہو لیکن اگر حسد کرتا ہے تو سب نیکیاں ضائع ہو جائیں گی ھم حکمرانوں کو برا بھلا کہتے ہیں ان پر تہمت لگاتے ہیں ان کی غیبت کرتے ہیں لیکن بجاۓ شرم کرنے کے ہم فخر کرتے ہیں حکمرانوں کو گالیاں دے کر خوش ہوتے ہیں جبکہ گالی دینا کبیرہ گناہ ہے مگر کسی کو پروا ہی نہیں ہے حکمرانوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ حقوق پورے کریں اور گھر میں والدین بیوی بچوں اور رشتہ داروں کے حقوق کی زرا بھی فکر نہیں کرتے یہ تو چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ حکمران ہمارا حق مار رہے ہیں لیکن جائیداد میں بہن بیٹی کا حق دیتے وقت جان نکلتی ہے اگر اس ملک کا ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے اور غور کرے تو وہ خود کو حکمرانوں جیسا ہی پاۓ گا لیکن اپنے گریبان میں کوئی بھی نہیں جھانکتا ہر انسان کو دوسرے میں برائی نظر آتی ہے خود کو فرشتہ ہی سمجھتا ہےاب معاشرے کی حالت یہ ہوچکی ہے کہ برائی کا بھی دفاع کیا جاتا ہے جس معاشرے کی حالت اتنی ابتر ہو جاۓ تو پھر اللہ ایسے ہی حکمران مسلط کرتا ہے جو ظلم کرتے ہیں قتال کرتے ہیں آپ جتنا مرضی حکمرانوں کو برا بھلا کہتے رہیں جب تک اللہ نہیں چاہے گا اچھے حکمران کبھی نہیں آئیں گے
۔
زریابیاں

میرے بابا کب آئیں گے

بابا آپ کب آئیں گے آج رزلٹ نکلا میری پہلی پوزیشن آئی ہے سب کے بابا وہاں تھے آپ نہیں تھے میں آپ کو بہت یاد کر رہی تھی بس آپ جلدی آ جائیں مجھے کھلونے نہیں چاہئیں میرا کھلونا آپ ہیں بابا ، جب آپ مجھے گود میں لیتے ہیں پیار کرتے ہیں مجھے بڑا اچھا لگتا ہے میں جب آپ کے گالوں پر پیار کرتی ہوں مجھے بڑا اچھا لگتا ہے جب آپ میرا ہاتھ پکڑ کر سیر کراتے ہیں تو دل کرتا ہے میں آپ کا ہاتھ یوں ہی پکڑے رکھوں بابا آپ جب آئیں گے تو میں آپ سے ڈھیر ساری باتیں کروں گی ہم خوب کھیلیں گے شور مچائیں گے بس آپ جلدی سے آ جائیں وہ ننھی پری اپنے بابا کی تصویر کے سامنے بیٹھی دل کی باتیں کۓ جا رہی تھی اور دوسری طرف اس کا باپ سیاچن گلیشیئر پر شدید ٹھنڈ میں اپنے گرم بستر اور بیوی بچوں سے دور اس ملک کی حفاظت کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس کی اپنی بچی بھلے اس کیلۓ ترس رہی ہے لیکن کتنے ہی بچے اپنے والدین کے ساتھ مزے کر رہے ہیں وہ اپنی آنکھ سے بہتے آنسو پونچھتا ہے اور دشمن کی سرحد کی طرف چوکنا ہو کر بیٹھ جاتا ہے
۔
زریابیاں

میری زندگی کا اصول

ندگی میں ایک اصول اپنایا اور ہمیشہ اس سے فائدہ ہوا اللہ والوں سے ایک بات سیکھی کہ بیٹا کبھی کسی شخص کی شہرت سے متاثر نہیں ہونابلکہ پہلے یہ دیکھنا کہ وہ ظاہری طور پر سنت پر عمل کرنے والا ہے یا نہیں ظاہر کا مطلب صرف داڑھی نہیں بلکہ زندگی بھی سنت پر عمل کرکے گزانے والا ہے جب کسی مشہور دینی شخصیت یا سکالر کو دیکھتا ہوں تو پہلے انہیں اسی اصول پر پرکھتا ہوں جس کی داڑھی نہیں یا داڑھی سنت کے مطابق نہیں اسے تو پہلے ہی مرحلے میں فارغ کر دیتا ہوں بھلے وہ کتنی ہی میٹھی باتیں کرتا ہو کوئی کتنا ہی اسے پسند کرتا ہو میرے لۓ وہ بالکل بے کار ہے ایسا شخص تو دھوکے باز ہے اور اگر کوئی باریش ہے تو یہ دیکھتا ہوں کہ وہ نبی کریم کی بات پر کتنا عمل کرتا ہے صحابہ کی بات پر کتنا عمل کرتا ہے اللہ کا شکر ہے میرا یہ اصول ہمیشہ ٹھیک رہا ہے اور اللہ کا شکر ہے اس سے ہمیشہ فائدہ ہوا جو سکالر یا عالم سنت پر عمل نہیں کرتا وہ کبھی اچھا ہو ہی نہیں سکتا اس سے متاثر صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود بھی سنت سے دور ہوتے ہیں ۔
۔
زریابیاں

مرد کی بھی عزت ہے جی

مرد کی بھی عزت ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ معاشرہ عورت کی عزت پر زیادہ توجہ دیتا ہے آج ایک خبر نظر سے گزری کے گجرات کے ایک لڑکے کی فیس بک پر ایک شخص سے دوستی ہوئی اس نے نوکری دلوانے کا وعدہ کیا اور اسے دبئی کا ویزہ بھیج دیا اور جب وہ وہاں پہنچا تو اس کی عزت لوٹ لی، اسے کتنے دن تشدد کا ناشانہ بناتا رہا ، مرد اور عورت کا تعلق فطرت پر مبنی ہوتا ہے چاہے نکاح کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں لیکن اللہ جتنا ناراض غیر فطری عمل پر ہوتا ہے اسکا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا، پاکستان میں ہم جنس پرستی پہلے بھی تھی لیکن اب بہت بڑھتی جا رہی ہے لڑکیوں کے ہوسٹلز ہوں یا مردوں کے ہوسٹلز ہوں ہر جگہ یہ کام ہو رہا ہے ہمارے معاشرے میں لڑکا اگر لڑکی سے ملے تو ہی اس کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے لیکن ہم جنس پرستی کو پکڑنا بہت مشکل ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ اس بندے اور بندی کے چہرے پر لعنت اتنی پڑ جاتی ہے کہ دنیا کو ایک دن پتہ لگ ہی جاتا ہے اس لئے والدین کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہیئے ان کے دوستوں کو بھی دیکھنا چاہیئے اب جو دور آیا ہے وہ بہت خطرناک ہے،،،،، اور آخر میں کہنا تھا کہ میں نے بھی دبئی جانے کا ارادہ ترک کردیا ہے مجھے بھی کسی نے ویزہ دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اللہ نے بچا لیا
۔
زریابیاں

اپنے گھر سے اپنے گھر تک ۔۔۔۔۔۔

یہ میرا گھر ہے آج اپنے کمرے میں اپنے بستر پر گلاب کے پھولوں کی سیج پر عروسی لباس میں بیٹھی ہوں، جب میں پیدا ہوئی تو بہت ناز سے میرے والد نے مجھے پالا ، جب میں بڑی ہوئی تو ماں میری بہت فکر اور دعائیں کیا کرتی تھیں کہ اللہ مجھے اپنے حفظ و امان میں رکھنا جب میں جوان ہوئی تو سب دعا کرتے تھے کہ اللہ میرا نصیب اچھا کرے آج میں بیاہ کر اپنے گھر آ گئی ہوں ، جی ہاں یہ ہی میرا گھر ہے بیٹیوں کا گھر تو پرایا ہوتا ہے ، آج میں اللہ کے حکم پر اپنا سب کچھ اپنے شوہر کے حوالے کردوں گی، مجھے امید ہے کہ جس طرح باپ نے مجھے بیٹی جس طرح ماں نے مجھے لاڈلی جس طرح بھائی نے مجھے پیاری بہن کی طرح رکھا میرا شوہر بھی مجھے ایک اچھی بیوی کی طرح رکھے گا، میں ایک نئی زندگی کا آغاز کر رہی ہوں ، ایک لمبے سفر کا آغاز کر رہی ہوں ، میں کوئی فرشتہ نہیں ایک عام سی لڑکی ہوں میرے شوہر نے مجھے خاص بنانا ہے
.
زرہابیاں

باب رے قادیانی

غریب آدمی ہوں اپنا مکان کوئی نہیں تو جب مالک مکان کہے جانا پڑتا ہے ایک بار سر کیلۓ چھت دیکھ رہے تھے شادمان میں ایک گھر دیکھا ہر کمرہ سادہ تھا لیکن جب باتھ روم دیکھے تو حیران رہ گیا کہ دو باتھ روم ہیں اور دونوں ہی کمال ہیں بندے کا دل ہی وہاں سے نکلنے کو نہیں کرتا اسی حیرانی میں ڈوبا ہوا تھا میں نے پراپرٹی ڈیلر سے پوچھا کہ گھر تو سارا سادہ ہے لیکن باتھ لگژری بناۓ ہیں کہنے لگا کہ جناب اس گھر کا مالک قادیانی ہے مجھے یہ سن کر شدید چھینکیں آنے لگٰیں اور جلدی جلدی وہاں سے نکل گیا 
۔
زریابیاں

ایک تھا ملحد

کل ایک ملحد سے ملاقات ہوئی اس نے بڑی کوشش کی کہ میں مان جاؤں انسان پہلے بندر تھا میں نے اپنا بیگ کھولا اور ایک کیلا نکالا اور اس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا کہ مجھے نہیں پسند تو میں بولا تم جھوٹے ہو بندر تو کیلا شوق سے کھاتا ہے اگر تم بندر سے انسان بنے ہوتے تو پتہ چل جاتا پھر میں نے روسٹ چکن لیگ پیس نکالا اور اس کے سامنے کھا کر ہڈی نیچے پھینک دی تو وہ ایک دم جھپٹا میں نے کہا اوۓ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ جلدی سے ہڈی منہ میں دبا کر بھاگ گیا 

جاہل ہی جاہل

جاہل کسے کہتے ہیں چلیں آپ کو میں ایک مثال دے کر سمجھاتا ہوں ایک ارب پتی شخص ہے وہ زکواۃ بھی دیتا ہے اس پر حج ایک فرض ہوا تو حج بھی ادا کرلیا جب دل کیا صدقہ خیرات بھی کر دیتا ہے اس کے پاس ایک گاڑی ہے جو کروڑ روپے سے زیادہ کی ہے اس کا گھر بھی چار کنال سے کم نہیں گھر میں نوکر ہیں اللہ کا دیا سب کچھ ہے وہ مہنگے کپڑے پہنتا ہے یعنی کہ اپنا بہت خیال رکھتا ہے اس کی فیملی بھی ایسی ہی ہے اب کچھ لوگ اسے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کیسا شخص ہے اتنی مہنگی گاڑی رکھی ہے ، ارے اتنے مہنگے کپڑے پہنتا ہے سادگی اختیار کرنی چاہیے اس کو تو مرنے کی فکر ہی کتنے بڑے گھر میں رہتا ہے ایسے لوگ اس معاشرے میں بھرے پڑے ہیں جو خود تو کچھ بن نہیں سکے لیکن جب کسی کے پاس پیسا دیکھتے ہیں تو شروع ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو ہم عرف عام میں جاہل کہتے ہیں اور ایسے جاہلوں سے بچ کر رہنا چاہیئے اور ہمیں کوشش کرنی چاہیئے کہ ہم بھی ایسے جاہل نہ بنیں
۔
زریابیاں

اشتہار اور آج کا انسان

ٹی وی پر اشتہار دیکھا کہ ایک مرد شیو کرتا ہے اور ساتھ ہی دکھاتے ہیں کہ لڑکیاں اس کی طرف مائل ہوتی ہیں سوچا کیوں نہ ایسا کرکے دیکھیں میں بھی شیو کرکے لڑکیوں کے کالج کے باہر کھڑا ہوگیا مجال ہے جو کسی نے مجھے دیکھا ہو بہت شرمندہ ہوا اور گھر آگیا اس کمپنی کے اشتہار پر بڑا ہی غصہ آیا پھر دیکھا کہ لڑکا خوشبو لگاتا ہے اور لڑکیاں اس سے دور ہی نہیں جاتیں ، میں بھی خوشبو لگا کر ایک شاپنگ مال میں گھس گیا کسی نے دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا اب تو بہت ہی غصہ چڑھا کہ کتنے جھوٹے لوگ ہیں کس طرح اشتہار بنا کر لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں پھر دیکھا کہ بہترین شیمپو لگا کر جب مرد باہر نکلتا ہے تو لڑکیاں دیکھتی رہ جاتی ہیں میں نے بھی شیمپو سے اچھی طرح سر دھویا اور گھر سے نکل پڑا افسوس اس بات کا ہے کہ کسی نے بھی نہیں دیکھا الٹا ہیلمٹ نہ پہننے پر میرا چالان ہوگیا اب تو میری غصے کی انتہاء نہیں تھی پھر دیکھا کہ چاکلیٹ دینے سے محبت بڑھتی ہے میں نے بھی چاکلیٹ رکھی اور نکل پڑا راستے میں ایک لمبے بالوں والی لڑکی کو دیکھ کر اسے چاکلیٹ دی تو بولی ہائے ہائے بے شرم مجھے ایسا سمجھ رکھا ہے تب سے میں نے فیصلہ کیا کہ پاکستانی چینلز نہیں دیکھوں گا اب میں صرف پوگو ہی دیکھتا ہوں
۔
زریابیاں
زریاب شیخ

عورت ہی عورت کی دشمن

کہتے ہیں عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے لیکن ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ عورت ہی عورت کی بہترین دوست بھی ہوتی ہے ہم یہ تو کہتے ہیں کہ عورت ہی گھر کو جہنم بناتی ہے لیکن ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ عورت ہی تو گھر کو جنت بھی بناتی ہے اس وقت معاشرہ تیزی سے برائی کی طرف جا رہا ہے جس کی ایک وجہ لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونا ہے لیکن دوسری بڑی وجہ لڑکیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہے اگر آج پاکستان کی عورت نے اپنی زات کی بجائے اس معاشرے کا سوچا تو ہی وہ ملک کو مستقبل میں برائی سے بچا سکتی ہے ورنہ وہ دن دور نہین جب گھر گھر میں زنا عام ہوگا اور کوئی روک نہیں سکے گا، آج کی عورت کو اپنا دل بڑا کرنا پڑے گا اور مرد کو دوسری شادی کی اجازت دینا ہوگی لیکن دوسری طرف نئی آنے والی عورت کو زیادہ محنت کرنا ہوگی اور پہلی بیوی کے دل سے اس خوف کو ختم کرنا ہوگا کہ کہین شوہر اسے بھول ہی نہ جائے ، عورت ہی مرد کو سمجھا سکتی ہے دوسری بیوی اگر چاہے تو اپنے اور پہلی بیوی کے حقوق میں توازن رکھ سکتی ہے اس معاشرے کو ایسی عورتوں کی ضرورت ہے زنا ختم کرنے کیلئے عورت کو ہی آگے بڑھنا ہوگا ہمارے معاشرے میں ایسی بے تحاشا خواتین ہیں جو جوانی میں ہی بیوہ ہوگئیں جن کو سہاروں کی ضرورت ہے اللہ کی رضا اور خوشنودی کیلئے اور اس معاشرے کی بہتری کیلئے انہیں ہی کچھ کرنا ہوگا وہ دن دور نہیں جب ہر گھر میں لڑکیوں کے بال سفید ہونے لگیں گے اور ایسے وقت میں برائی اتنی بڑھ جائے گی کہ پھر ہر کوئی پچھتائے گا، دوزخ میں سب سے زیادہ عورتیں ہی ہوں گی لیکن اگر مسلمان عورتیں متحد ہوجائیں تو جنت ان کے قدموں میں ہوگی معاشرے کو سدھارنا بہت بڑی نیکی ہے
۔
زریاب شیخ

مولی اور انسان

کبھی کبھی میں جب اپنے دماغ پر زور ڈالتا ہوں تو کائنات کے عجیب و غریب رازوں سے پردہ اٹھتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے میں نے ایسے ہی سبزیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو مجھے مولی کے بارے میں ایسے ایسے راز معلوم ہوئے کہ پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے، اس میں کوئی شک نہیں کہ مولی ایک کمال سبزی ہے اس کو دیکھ کر ہی بندے کو کچھ کچھ ہونے لگتا ہے یہ سردیوں کی سوغات ہے اور زیادہ تر ان علاقوں میں کھائی جاتی ہے جہاں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو، مولی کے پراٹھے اور مولی پالک لوگ بہت ہی شوق سے کھاتے ہیں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مولی کو نوش کرنے کے بعد آپ تنہا ایک کمرے میں کچھ گھنٹے قیام کریں تاکہ اس کی برکات کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں، یہ سبزی رشتے توڑنے کیلئے بھی استعمال ہوتی ہے آپ کو اگر کسی رشتہ دار سے بہت تکلیف ہے تو دو چار مولیاں کچی کھا کر چلے جائیں بس پھر ساری زندگی کیلئے آپ کو اس رشتے دار سے نجات مل جائے گی ایسے لوگ جو پیٹ کے ہلکے ہوتے ہین مولی ان کی پسندیدہ سبزی ہوتی ہے ایک بہت بڑے اللہ کے نیک بندے کا کہنا ہے کہ مولی کھانے والے کے پاس شیطان نہیں آتا grin emoticon
۔
زریابیاں

Sunday, January 3, 2016

قبرستان اور میں

میں قبرستان میں ایک لاوارث قبر پر فاتحہ خوانی کیلۓ کھڑا تھا دعا کے بعد وہاں سے نکلا تو گورکن نے کہا کہ کیا آپ اس قبر میں دفن لڑکی کو جانتے ہیں میں بولا ہاں جانتا ہوں یہ میری ایک مسلمان بہن تھی وہ بولا کہ ایسا کیا ہوا جو اسے لاوارث قرار دے کر دفنا دیا گیا ، میں نے کہا کہ یہ بہت بھولی تھی بس اکیڈمی میں ایک لڑکے سے محبت کر بیٹھی اس نے میٹھے لفظوں کے جال میں پھنسایا اور ایک دن ملنے کیلۓ گھر بلایا شیطان نے محبت پر اعتبار کروایا اور بے چاری ملنے چلی گئی وہاں اس کے محبوب نے دوستوں سے ملکر اس کی عزت لوٹ لی جس کو کبھی باپ نے تھپٍڑ بھی نہ مارا تھا جس کو ماں نے کبھی ڈانٹا بھی نہیں تھا ان ظالموں نے اس کے جسم کو نوچ ڈالا اور وہ چیخ چیخ کر مر گئ ، میں نے بولا گورکن سے کبھی زندہ بکرے کی کھال اترتے دیکھی ہے تو بولا زندہ بکرے کی کھال کون اتارتا ہے صاحب اسے تو بہت تکلیف ہوتی ہے میں بولا جب کسی لڑکی کی عزت لوٹی جاتی ہے نہ تو اسے ایسے ہی تکلیف ہوتی ہے اس بے چاری کے گھر والوں نے بھی اپنا ماننے سے انکار کردیا اور یہاں لاوارث قرار دے کر دفن کردیا گیا، میں نے اسے کہا کہ اس قبرستان میں کتنے لاوارث دفن ہیں لیکن ہم نے کبھی کسی کیلۓ فاتحہ نہیں کی کیا ہم اتنے خود غرض ہیں
۔
زریابیاں

آپ کے گھر مہمان

آپ کے گھر مہمان آ جائیں منہ دھلا نہ ہو کپڑے استری شدہ نہ ہوں تو آپ سامنے نہیں جائیں گے اس کو کہتے ہیں شرم،، اگر اسی حالت میں اللہ کے سامنے حاضر ہوں اور زرا سا بھی احساس نہ ہو تو اس کو کہتے ہیں بے شرمی،، آپ شیشہ پی رہے ہوں اور اچانک والد صاحب کو دیکھ لیں تو چھپ جاتے ہیں اس کو کہتے ہیں شرم،، اور اگر کوئی بھی نہ ہو اور یہ جانتے ہوئے کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے مگر پی رہے ہیں تو اس کو کہتے ہیں بے شرمی، موبائل کی گھنٹی بجتی ہے تو بھاگے چلے جاتے ہیں تاکہ کال کرنے والے کو انتظار کی زحمت نہ ہو تو اس کو کہتے ہیں شرم ،، مگر جب والدہ آواز دے اور ہم سکون سے بیٹھے رہتے ہیں کہ ابھی اٹھتا ہوں تو اس کو کہتے ہیں بے شرمی،،، ہم اس بات پر تو بہت گور کرتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے لیکن اس بات پر بالکل بھی توجہ نہین دیتے کہ اللہ کیا کہے گا ، یہ شرم اور بے شرمی کا فرق بہت نازک سا ہوتا ہے اگر انسان کو یہ سمجھ آ جائے تو وہ ہیرہ بن سکتا ہے ۔
۔
زریابیاں

جب گھر سے باہر نکلتا ہوں

میں جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو ہر طرح کے لوگ نظر آتے ہیں جب کسی بے پردہ عورت کو دیکھتا ہوں تو یہ نہیں کہتا کہ یہ اللہ کی نافرمان ہے بلکہ نظر جھکا لیتا ہوں کیونکہ مجھ سے میرے عمل کے بارے میں پوچھ گچھ ہونی ہے ، مجھے جب کوئی گالی دیتا ہے تو میں اس کو گالی نہیں دیتا کیونکہ اگر ایسا کروں گا تو اس میں اور مجھ میں کیا فرق رہ گیا ، میں اللہ کی رضا کیلئے اس کو معاف کر دیتا ہوں خاموش رہتا ہوں کیونکہ اللہ کہتا ہے معاف کرنا بدلہ لینے سے زیادہ بہتر ہے، میں جب کسی غریب کو دیکھتا ہوں تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے محتاج نہیں بنایا وہ چاہتا تو مجھے کسی جھونپڑی میں بھی پیدا کر سکتا تھا میں جب کسی امیر کو دیکھتا ہوں تو دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس کو اور دے اور مجھے بھی دے کیونکہ اللہ کے خزانوں میں تو کوئی کمی نہیں، میں ہمیشہ ڈرتا ہوں کہ میرے لفظوں سے کسی کی دل آزاری نہ ہو کسی سے نفرت دل میں نہیں رکھتا بلکہ دل میں اتنا ظرف رکھا ہوں کہ دوسروں کو معاف کر سکوں کیونکہ میرے نبی ﷺ نے اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی وہ تو محبت کرنے والے تھے تو میں کیوں اپنے دل میں نفرت پالوں، رات کو سونے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرتا ہوں کسی کا دل تو نہیں دکھایا کیا پتہ میں کل زندہ نہ رہوں، اللہ کہتا ہے تم میرے بندوں سے محبت کرو میں تم سے محبت کروں گا ، تم میرے بندوں کے عیب چھپاؤ میں قیامت والے دن تمھارے چھپاؤں گا
۔
زریاب شیخ

کھانے اور مصالحے کی زندگی

آپ کھانا بناتے ہیں اس میں سارے مصالحے ڈالتے ہیں تو ذائقہ کمال ہو جاتا ہے لوگ انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں اور ہر کوئی تعریف کرتا ہے یہ آپ کی محنت کا پھل ہے جو آپ نے محبت سے کھانا بنایا آپ گھر بناتے ہیں اس میں بہترین مٹیریل کا استعمال کرتے ہیں ہر کام نفاست سے ہوتا ہے اور جب وہ بن جاتا ہے تو ہر انسان اس کی تعریف کرتا ہے کیونکہ آپ نے محنت سے محبت سے بنوایا ہے آپ کپڑے خریدتے ہیں بہترین درزی کا انتخابات کرتے ہیں وہ اس خوبصورتی سے کپڑے سلائی کرتا ہے جب آپ زیب تن کرتے ہیں تو آپ کی شخصیت نکھر جاتی ہے آپ کو اپنا آپ بہت اچھا لگنے لگتا ہے جب آپ کا اخلاق اچھا ہو ، آپ کا رویہ بہترین ہو نہ دل میں حسد ہو نہ دل میں تکبر ہو بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت کرتے ہوں رشتوں کے تقدس کا خیال کرتے ہوں آپ کی آنکھوں میں حیاء ہو تو آپ بھی ایک بہترین انسان بن جائیں گے یاد رکھیں ہر چیز تب ہی خوبصورت ہوتی ہے جب اس کے لوازمات پورے اور معیاری ہوں ، اللہ کہتا ہے میں خوبصورت ہوں اور مجھے خوبصورت لوگ پسند ہیں اس لئے اپنے ظاہر اور باطن کو خوبصورت بنائیں دوسروں کیلئے مثال بن جائیں کون کیسا ہے یہ بھول جائیں آپ خود کیا ہیں بس اس پر نظر رکھیں جس طرح صاف پانی گندگی کو صاف کر دیتا ہے جب آپ صاف ستھرے ہوں خود بہ خود آپ کے ارد گرد لوگ بھی صاف ہونے لگ جائیں گے تو آج ہی خود سے وعدہ کریں میں بھی اپنے آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اپنے اخلاق کو اپنے کردار کو خوبصورت بناؤں گا ہم مسلمان جب اچھے ہو جائیں گے تو سب ہمارے نبی ﷺ پر رشک کریں گے سب کہیں گے کہ واقعی محمدﷺ کے امتی سب سے بہترین ہیں قیامت والے دن نبی کریم ﷺ جب ہمیں دیکھ کر فخر کریں گے تو کتنی خوشی ملے گا ، مجھے آپ سب سے محبت ہے اور میں چاہتا ہوں ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر جنت میں جائیں ہم ایک جسم ایک جان ہیں
۔
زریاب شیخ

ایک مذہبی ماحول بنا لوگوں کی ذہن سازی کی گئی مسالک کا اختلاف پہلے سے زیادہ بڑھا ایسے علماء کو آگے لایا گیا جن کا اسلام داڑھی اور سر ڈھانپنے تک محدود رہا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعتدال پسند رویہ ختم ہونے لگا اور انتہا پسندی پروان چڑھنے لگی جس سے بہت نقصان ہوا اس کے بعد مشرف کا دور آیا اس نے الٹا کام کردیا لبرل ازم کو فروغ دیا الیکٹرانکٔ میڈیا کو عروج دیا اور غامدی اور ان جیسے علماء کو آگے لایا گیا جنہوں نے اعتدال پسندی کی بجاۓ اصل دین کا معیار ہی بدل کر رکھ دیا نائین الیون کے واقعے کے بعد پاکستان ہی بدل گیا دہشتگردی بڑھی مسلکی اختلاف مزید عروج پر پہنچے ان برسوں میں بہت کم ایسے علماء تھے جنہوں نے اعتدال پسندی کو فروغ دینے کی کوشش کی پہلے تو سب مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اور اب یہ حال ہے کہ کعبہ کے سامنے بھی الگ الگ جماعتیں بننے لگی ہیں اللہ کے نبی نے جس دین کو پھیلایا وہ نہ تو تنگ نظر ہے نہ ہی لبرل ہے اس میں اعتدال پسندی ہے اب نہ تو لوگوں کے پاس علم ہے اور نہ وہ علماء ہیں اکثریت خود گمراہ ہے اور لوگوں کو بھی گمراہ کر رہی ہے ہم ابھی تک داڑھی اور ڈوپٹے کو ہی اسلام سمجھتے ہیں پہلے تو یہ ملک دو قومی نظریہ پر بنا تھا لیکن لگتا ہے کہ اس کے ٹکڑے اب مسلکی بنیادوں پر ہوں گے ایک بریلوستان ہوگا دوسرا دیوبندستان ہوگا تیسرا وہابستان ہوگا چوتھا شیعستان ہوگا اور پھر دشمن باری باری سب کو مار کر یہاں قبرستان بنا دے گا جس میں سب دفن ہو جائیں گے
۔
زریابستان
زریاب شیخ
ہم پاکستانیوں کو یہ شبہ ہوگیا ہے کہ دنیا کی سب سے اچھی قوم ہیں اتنی اچھی قوم ہیں کہ ہر کوئی جوتے مار کر نکل جاتا ہے اور ہم بے چارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ، پاکستانی عوام ابھی تک خود کو بدل نہیں سکی جب یہ ملک بنا تھا اس وقت کے لوگوں کا علم اور ذہن بہت اچھا تھا لیکن وقت کے ساتھ عروج کی بجائے زوال آگیا ، یہاں پر لڑکیاں پینٹ شرٹ پہن لیں تو ان کو پتہ نہیں کیا کیا لقب دیا جاتا ہے لیکن کمال ہے عرب ممالک میں لڑکیاں پینٹ بھی پہنتی ہیں سکارف بھی لیتی ہیں لوگ آزادای سے پھرتے بھی ہیں لیکن وہاں کوئی کسی کو بے حیا یا فرنگی کا خطاب نہیں دیتا اور پاکستان کے عوام پر اسلام نازل ہو جاتا ہے ، یہاں کا مسلمان سمجھتا ہے کہ بس ان جیسا کوئی نہیں اتفاق سے یہ ہی بات یہودی بھی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے پسندیدہ ہیں ان سے اچھا کوئی نہیں لیکن ان کی ایک خوبی ہے کہ انہوں نے ترقی کی اور آج دنیا کی ساری میعشت ان کے کنٹرول میں ہے اور پاکستان کے نوجوانوں نے بس صرف جھک ماری اور دنیا میں ایک مذاق بن چکے ہیں، اس لئے میری گزارش ہے کہ تنگ نظری کو رویہ ختم کریں اور انسان بنیں پھر ہی اچھے مسلمان بن سکتے ہیں ورنہ کھوتے ہی کھاتے رہیں گے
۔
زریابیاں
ایک صاحب کی نئی نئی شادی ہوئی موصوف جمعہ کا خطبہ سن رہے تھے مولانا صاحب نے امت میں اضافہ کی حدیث اس جوش سے بیان کی کہ ان کے 8 سال میں 6 بچے ہوگئے رزق کی تنگی ہوگئی تنخواہ پہلے ہی کم تھی لڑائی جھگڑے ہوتے رہے ایک دن بیگم نے بچوں سمیت خودکشی کرلی بے چارے گھر کے باہر بیٹھے رو رہے تھے میں وہاں سے گزرا اور بولا جناب کیا ہوا تو سارا ماجرا سنایا ،، میں نے کہا کہ جناب آپ کے بچوں کا قاتل تو امام مسجد ہے کیونکہ اس نے آپ کو ساتھ میں یہ حدیث نہیں بتائی کہ اولاد اور مال کو فتنہ قرار دیا گیا ہے کیا انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جہنم میں سب سے زیادہ عورتیں ہوں گی جو مردوں کو بھی ساتھ لے کر جائیں گی وہ جہنم میں کیوں جائیں گی ، ظاہر ہے آبادی زیادہ ہوگی تو غربت میں اضافہ ہوگا لوگ حرام کی طرف جائیں گےاور زنا پھر عام ہوگاپھر میں بولا کہ کیا امام مسجد نے یہ حدیث نہیں بتائی کہ اگر کسی کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے تو جنت مین سونے کا تاج ہنایا جائے گا ، میں نے کہا کہ امت میں اضٖافہ کا مطلب صرف بچے پیدا کرنا نہیں غیر مسلموں کو اسلام کے دائرے میں داخل کرنا بھی ہے امتی وہ ہے جو دین پر اور سنت پر عمل بھی کرے جس پر اللہ کے نبی ﷺ فخر بھی کریں ایک گندے اور سود خور مسلمان پر اللہ کے نبی ﷺ کبھی فخر نہیں کریں گے ، ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ عورت ہی نسل کو سنوارتی ہے تو جب بچوں کی فوج ہوگی تو وہ کیسے سنوارے گی کہاں سے تربیت کرے گی کیسے اخلاقیات سکھائے گی ، میں بولا کہ اسلام تو ایک بہترین مذہب ہے لیکن اس کو سمجھنے کیلئے عقل کی ضرورت ہے اور اتفاق سے مسلمانوں کی اکثریت عقل سے پیدل ہے اس لئے لچے لفنگے نوجوانوں کی کثرت ہو رہی ہے
۔
زریابیاں
نیا سال شروع ہوا تو ایک خوبصورت مسلمان بھائی لیکچر دینے لگ گئے کہ ہمیں غیر مسلموں کی مشابہت نہیں کرنی چاہیئے بات کرتے کرتے ان کے پیٹ میں درد ہوا تو میں نے ان کو باتھ روم جانے سے روک دیا اور کہا کہ آپ کھیتوں میں جائیں اور جب حاجت پوری ہو جائے تو پتھر کا استعمال کیجئے گا اس پر غصے ہوگئے کہ آپ ہمارا مذاق بنا رہے ہیں میں نے کہا کہ جناب مذاق تو آپ دین کا بنا رہے ہیں اگر غیر مسلم لباس پہنتے ہیں تو ہم بھی پہنتے ہیں تو یہ بھی تو مشابہت ہی ہے پھر کیا ننگے پھرنا شروع کردیں ، ایک لمبی سانس لے کر میں بولا کہ اسلام نے دوسروں کے مذہبی تہوار منانے سے منع کیا ہے جیسے ہولی ہندوؤں کا مذہبی تہوار ہے لیکن پوری دنیا اگر نیا سال پر اینجوائے کر رہی ہے تو یہ کوئی بری بات نہیں لیکن خوشی کو اخلاقی طریقے سے منانا یا غیر اخلاقی طریقے سے منانا یہ انسان کا انفرادی فعل ہے ہر کام میں مذہب کو نہیں لانا چاہیئے ہمارا مذہب اتنا گیا گزرا نہیں اور یہ تنگ نظری ہی اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہے اور ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہوگا ویسے دین پر عمل نہیں کرتے لیکن جہاں دیکھا کہ لوگ خوش ہو رہے ہیں اسلام کے بیچ میں لے آتے ہیں ایک بندہ اگر نئے سال کی خوشی میں دو چار پٹاخے چلا دے گا تو کون سا گناہ ہے جو گناہ ہیں ان کی تو کسی کو فکر نہیں ، جھوٹ بولنا گناہ ہے کسی کی دل آزاری گناہ ہے تہمت لگانا گنا ہے ، تنخواہ مزدور کو نہ دینا گناہ ہے کام کیلئے لوگوں کے چکر لگوانا گناہ ہے لیکن یہ گناہ سب کرتے ہیں اور جہاں نیا سال آئے وہاں اسلام یاد آ جاتا ہے
۔
زریابیاں
کیا زمانہ آگیا ہے کوئی مریم صفدر کی تصویریں لگا کر مذاق اڑا رہا ہے کوئی ریحام خان کو دیکھ دیکھ کر مزے لے رہا ہے تعلیم نے انسان کو ابھی تک انسان نہیں بنایا ، کیسے مسلمان ہیں جو دوسروں کا مذاق اڑا کر خوش ہوتے ہیں اور دوسری طرف سب کے سب خود کو عاشق رسول بھی کہتے ہیں میلاد تو ایسے مناتے ہیں جیسے صبح سے شام تک بس اپنے نبی ﷺ کی ہی مانتے ہیں حکمرانوں کی کرپشن پر تو ایسے آواز اٹھاتے ہیں جیسے خود کبھی جھوٹ بھی زندگی میں نہیں بولا ، شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو جس نے کبیرہ گناہ نہ کئے ہوں لیکن مولویوں کو ایسے برا بھلا کہتے ہیں جیسے ساری رات تہجد کی نمازیں پڑھتے ہیں ، کمال ہے اپنا گریبان کوئی دیکھتا نہیں اور دوسروں کا گریبان پھاڑنے کو دوڑتے ہیں ہم سب ایک ہی تھالی کے بیگن ہیں جس کو جب موقع ملتا ہے فائدہ اٹھا لیتا ہے خود بھلے ہر روز لڑکیوں کے ساتھ لطف اندوز ہوتے ہوں لیکن کوئی بے پردہ مل جائے تو دودھ کے دھلے بن جاتے ہیں ہر کوئی اللہ کو دھوکہ دے رہا ہے لیکن خود کو فرشتہ ہی سمجھتا ہے اور حیرت کی بات ہے جنت کا ٹھیکہ بھی لے رکھا ہے جس کو چاہا جنت بھیج دیا اور جس کو چاپا جہنم میں پھینک دیا ، بھائی زلزلے اسی لئے تو آتے ہیں کیونکہ حکمران تو ہیں ہی خراب عوام اس سے بھی زیادہ خراب ہے پتہ نہیں ہم کب سدھریں گے یا شاید اللہ تہس نہس کرے گا تب ہی عقل آئے گی پھر کوئی داتا نہیں ہوگا بچانے والا
۔
زریابیاں
 نازوں اور لاڈ پیار میں پلنے والی ایک لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر جب اپنے شوہر کے پاس آتی ہے تو اس کو بڑا مان ہوتا ہے کہ جس کو اس نے صرف تین لفظوں میں اپنی عزت اور اپنا سب کچھ سونپ دیا ہے وہ اس کے ناز نخرے اٹھائے گا لیکن بے چاری بھول جاتی ہے کہ وہ بیوی نہیں نوکرانی بن چکی ہے، بیوی صبح اٹھے آپ کو ناشتہ دے دوپہر کا کھانا بنائے رات کا کھانا بنائے گھر کو دیکھے بچوں کو دیکھے اور رات کو جب شوہر آئے تو اس کی خدمت کرے اور جب تھک جائے اور اس کا دل چاہے کوئی اس کی بھی خدمت کرے تو صرف دل میں ہائے ہائے کرنے کے اور وہ کر بھی کیا سکتی ہے، شوہر بیمار ہو تو بیوی اس کا بچوں کی طرح خیال کرتی ہے سر درد ہے تو سر دباتی ہے لیک جب وہ بیمار ہوجائے تو بندہ پرواہ ہی نہیں کرتا ، ہم میں سے کتنے مرد ہیں جنہوں نے کبھی اپنی بیوی کو چائے ہی بنا کر دی ہو، یا اس کو کھانا بنا کر دیا ہو اس کے کاموں میں ہاتھ بٹایا ہو ، کیا بیوی کا سر دبانا یا پیر دبانا گناہ ہے ، کیا اپنی بیوی سے محبت گناہ ہے ، ہم تو مرد ہیں مرد بس یہ چاہتا ہے کہ بیوی غلاموں کی طرح آگے پیچھے، حیرت ہے ایسے مردوں پر جو اپنی بیوی کو چھوڑ کر جو ان کیلئے حلال ہے دوسروں کے ساتھ ٹائم پاس کرتے رہتے ہیں یہ وہ ناشکرے ہیں جو اپنی بیوی کو دال برابر سمجھتے ہیں ، یقین کریں پاکستان میں 90 فیصد مرد غیر عورتوں ، لڑکیوں سے ٹھرک کرتے ہوں گے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر عمل کا رد عمل بھی ہوتا ہے۔
۔
زریاب شیخ
ڈرامے کا نام ، میرے صنم کی جھاڑ اور جھاڑو  :p
۔
فلم کی عکسبندی کی تاریخ یکم دسمبر 2015ء
دوپہر ایک بجے سے ڈیڑھ بجے کے درمیان 
۔
جھاڑو لانے سے پہلے 
۔

صبح سے کہہ رہی ہوں جھاڑو لا دو جھاڑو لا دو لیکن آپ ہیں کہ سنتے ہی نہیں ، بس کمپیوٹر پر بیٹھے رہتے ہیں جب تک آپ کو جھاڑو نہیں آپ نے جھاڑو لا کر نہیں دینا۔۔
۔
جھاڑو لے کر آنے کے بعد 
۔
یہ جھاڑو ہے سمجھایا بھی تھا کہ جھاڑو دیکھ کر لانا اس سے تو صحیح طرح صفائی بھی نہیں ہوگی ایک تو سمجھاتی کچھ ہوں سمجھتے کچھ ہیں 
۔
جھاڑو پھیرتے ہوئے 
۔
دماغ خراب کردیا ہے اس جھاڑو نے، صفائی ہی نہیں ہورہی دل کر رہا ہے توڑ ڈالوں اس جھاڑو کو ، کمر درد ہوگئی ہے اس جھاڑو سے 
۔
اور میں فیس بک پر بیٹھا سوچ رہا ہوں :D 
۔
.
میری ساری محنت پر جھاڑو پھر گیا :D
.
.
زریابیاں
زریاب شیخ
کبھی یوں ہو کہ بس تم ہو اور میں ہوں ،،، درختوں کی چھاؤں میں ٹھنڈی ہواؤں میں ہلکی ہلکی دھوپ میں ہلکی ہلکی بارش میں بس تمھیں دیکھتا رہوں ، تمھاری زلفیں جب ہوا سے ماتھے پر آئیں تو اپنے ہاتھوں سے انہیں ہٹاؤں تم تھوڑا سا شرماؤ تھوڑا سا مسکراؤ اور بس وہ پل جیسے تھم سا جائے، ننگے پاؤں ہم دونوں گھاس پر ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے یوں ہی چلتے رہیں تم میرے کندھے پر سر رکھ کر میٹھی میٹھی باتیں کرو، جب آسمان پر قوس قزاح بنے تو کتنا اچھا لگے گا ، میں اپنے ہاتھوں سے تمھارے بالوں میں گلاب کا پھول سجاؤں، ہاتھوں میں گجرا پہناؤں ، پرندے بھی تم کو دیکھ کر چہچہائیں، درخت بھی گنگنائیں، تیری میری یہ محبت کبھی ختم نہ ہو، جب بھی صبح آنکھ کھلے تو تمھارا کھلتے گلاب جیسا چہرہ دیکھوں اور جب بھی آنکھیں بند کروں تمھارے عکس کو آنکھوں میں بسا کر سو جاؤں ، میری حقیقت بھی تم ہو اور میرے خوابوں میں بھی تم ہو ،،، سنو مجھے تم سے بے انتہا محبت ہے ، ایک پل بھی تمھارے بغیر اب جینا مشکل ہے ، بس یوں ہی ساتھ ساتھ رہنا، میرے پاس رہنا ، بن تیرے اب جی نہ پائیں گے
۔
زریابیاں