مغرب کے اچھے سکولوں میں چھوٹے بچے جب پڑھنے جاتے ہیں تو ایک ماہر نفسیات کو ان کا مزاج دیکھنے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے وہ بچے جس مزاج کے ہوتے ہیں ان کو اس کے مطابق سبجیکٹ دیا جاتا ہے یہ ایک اصول کی بات ہے انسان کو جس کام میں دلچسپی ہوتی ہے وہ شوق سے کرتا ہے تو جب بچہ اپنے پسند کا سبجیکٹ پڑھتا ہے تو اس کے دل میں آگے بڑھنے کا شوق اور زیادہ ہوتا ہے اور یوں جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے اس سبجیکٹ کے مطابق ایک ماہر بن چکا ہوتا ہے لیکن اگر پاکستان کو دیکھیں تو یہاں تو سکولوں میں ایسا کوئی سسٹم نہیں اوپر سے بچہ ابھی پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ میں تو اپنے بیٹے کو انجینیئر ، ڈاکٹر وغیرہ جو بھی وہ چاہتی ہے بنانے کا سوچ لیتی ہے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے مزاج اور پسند کے مطابق نہیں پڑھاتے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق پڑھاتے ہین جس سے بچا پڑھ تو جاتا ہے لیکن اس میں وہ خوبیاں پیدا نہیں ہوتیں جو اس سبجیکٹ کو پسند کرنے والے میں ہوتی ہیں ، فرض کریں ایک لڑکا ٹیچر بننا چاہتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈاکٹر بنا دیتے ہیں تو وہ دل سے کام نہیں کرے گا اور اس وجہ سے وہ مریض کی صحیح تشخیص بھی نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کا دل ہی نہیں کرتا اور ایک لڑکا جس کو بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے لوگوں کی تکلیف دور کرنے کا شوق تھا جب وہ ڈاکتر بنتا ہے تو اس کی تشخیص پہلے والے لڑکے سے بہت اچھی ہوگی، اس لئے ماں باپ جب تک اپنے بچوں کی نفسیات نہیں سمجھیں گے تب تک پاکستان ترقی نہیں کرے گی اور ایک ذہنی بیمار نسل ہی پروان چڑھے گی
No comments:
Post a Comment