Sunday, April 10, 2016

مغرب اور مشرقی سکول

مغرب کے اچھے سکولوں میں چھوٹے بچے جب پڑھنے جاتے ہیں تو ایک ماہر نفسیات کو ان کا مزاج دیکھنے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے وہ بچے جس مزاج کے ہوتے ہیں ان کو اس کے مطابق سبجیکٹ دیا جاتا ہے یہ ایک اصول کی بات ہے انسان کو جس کام میں دلچسپی ہوتی ہے وہ شوق سے کرتا ہے تو جب بچہ اپنے پسند کا سبجیکٹ پڑھتا ہے تو اس کے دل میں آگے بڑھنے کا شوق اور زیادہ ہوتا ہے اور یوں جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے اس سبجیکٹ کے مطابق ایک ماہر بن چکا ہوتا ہے لیکن اگر پاکستان کو دیکھیں تو یہاں تو سکولوں میں ایسا کوئی سسٹم نہیں اوپر سے بچہ ابھی پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ میں تو اپنے بیٹے کو انجینیئر ، ڈاکٹر وغیرہ جو بھی وہ چاہتی ہے بنانے کا سوچ لیتی ہے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے مزاج اور پسند کے مطابق نہیں پڑھاتے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق پڑھاتے ہین جس سے بچا پڑھ تو جاتا ہے لیکن اس میں وہ خوبیاں پیدا نہیں ہوتیں جو اس سبجیکٹ کو پسند کرنے والے میں ہوتی ہیں ، فرض کریں ایک لڑکا ٹیچر بننا چاہتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈاکٹر بنا دیتے ہیں تو وہ دل سے کام نہیں کرے گا اور اس وجہ سے وہ مریض کی صحیح تشخیص بھی نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کا دل ہی نہیں کرتا اور ایک لڑکا جس کو بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے لوگوں کی تکلیف دور کرنے کا شوق تھا جب وہ ڈاکتر بنتا ہے تو اس کی تشخیص پہلے والے لڑکے سے بہت اچھی ہوگی، اس لئے ماں باپ جب تک اپنے بچوں کی نفسیات نہیں سمجھیں گے تب تک پاکستان ترقی نہیں کرے گی اور ایک ذہنی بیمار نسل ہی پروان چڑھے گی

No comments:

Post a Comment