دنیا کا بھی کیسا نظام ہے بندے مرتے ہیں گورکن کماتا ہے کفن والا کماتا ہے پھول والا کماتا ہے دہشتگردوں نے بندے مارنے ہیں ان کیلۓ جو اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد بنتا ہے اس سے کمپنیاں اربوں روپے کماتی ہیں پھر سیکیورٹی کا مسلہ ہے چیکنگ کے آلات بکیں گے تو وارے نیارے ہو جائیں گے پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈ بھرتی ہوں گے روزگار کے مواقع ملیں گے سکولوں کالجوں کی سیکیورٹی کے نام پر فیسیں بڑھیں گی دہشتگردی تو ایک کاروبار ہےانسان جتنا زیادہ مریں گے اتنا خوف بڑھے گا اور اتنا ہی ایک مخصوص طبقہ دولت مند ہوتا چلا جاۓ گ
Sunday, April 10, 2016
زندگی 100 لفظوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے ، دکھ تو اس کا حصہ ہیں انہیں روگ مت بناؤ جینا سیکھو کیونکہ یہ ایک بار ملتی ہے دوبارہ دنیا میں نہیں آؤ گے ،یہ مت سوچو اللہ نے کیا نہیں دیا بلکہ اس پر شکر کرو کہ کیا کیا دیا ہے ، ہمیشہ اوقات میں رہو نہ اتنا غرور کرو کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے اور نہ اتنا غم کرو کہ اپنی آواز کے سوا کچھ سنائی نہ دے ، خوشیاں بانٹنا سیکھو ، ہر پل ہر لمحہ جیو یہ وقت بہت قیمتی ہے پھر لوٹ کر نہیں آئے گا
عورت 100 لفظون میں
۔
عورت کے معنی ہے چھپا ہوا ، مسکراہٹ میں جس کے زندگی چھپی ہے ، آنسوؤں میں جس کے پیار چھپا ہے ، شرم میں جس کے حیاء چھپی ہے ، اگر نہ ہوتی عورت تو دنیا کو حسین کون کہتا ، چہرے کو گلاب کون کہنا، نشیلی آنکھوں کو شراب کون کہتا ،جس کے ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں ، نینوں پر عاشق مرتے ہیں جسے اللہ نے رحمت کہا جسے شاعر نے محبت کہا ، جسے محبوب نے دل کی دھڑکن کہا ، جس کی عزت میں ہی اپنی عزت ہے جس کے قدموں میں ہی جنت ہے
عورت کے معنی ہے چھپا ہوا ، مسکراہٹ میں جس کے زندگی چھپی ہے ، آنسوؤں میں جس کے پیار چھپا ہے ، شرم میں جس کے حیاء چھپی ہے ، اگر نہ ہوتی عورت تو دنیا کو حسین کون کہتا ، چہرے کو گلاب کون کہنا، نشیلی آنکھوں کو شراب کون کہتا ،جس کے ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں ، نینوں پر عاشق مرتے ہیں جسے اللہ نے رحمت کہا جسے شاعر نے محبت کہا ، جسے محبوب نے دل کی دھڑکن کہا ، جس کی عزت میں ہی اپنی عزت ہے جس کے قدموں میں ہی جنت ہے
گندہ باتھ روم
کچھ دن پہلے ایک انٹرنیٹ کلب جانا ہوا اچانک حاجت ہوئی باتھ روم میں داخل ہواتو اتنا گندہ اور بدبودار تھا اسی وقت واپس گیا اور کلب کے مالک کو چار سنائیں تو وہ بولا جناب آپ بہت پارسا بنتے ہیں خود جا کر صاف کرلیں اس پر مجھے غصہ نہیں آیا اور مسکرا کر دوبارہ باتھ روم گیا اور جھاڑو لے کر سرف سے اچھی طرح پورا باتھ روم چمکا دیا اور اینجواۓ کرتا واپس آگیا آپ سوچ رہے ہوں گے کتنا بے وقوف انسان ہوں باتھ روم اس کا ہے اور صاف میں نے کیا ، کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ گندگی آپ پھیلاتے ہیں اور صاف ایک ایسا انسان کرتا ہے جسے آپ چوڑا کہتے ہیں جس کا ہاتھ آپ کے گلاس کو لگ جاۓ تو وہ نجس ہو جاتا ہے جس کے ساتھ کھانا تو دور کی بات ہاتھ ملانا بھی آپ حرام سمجھتے ہیں ہم کیسے مسلمان ہیں اپنی ہی گندگی صاف کرنے والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ اخلاق تو نبی کریم جیسا ہونا چاہیئے جو کوڑا پھینکنے والی بڑھیا سے بھی اخلاق سے پیش آتے تھے ہمارے اپنے رویوں کی وجہ سے مسلمان دنیا میں بدنام ہوۓ اور ہو رہے ہیں جو لوگ آپ کی گندگی صاف کرکے معاشرے کا ماحول خوبصورت بناتے ہیں کبھی ان سے بھی پیار سے بات کرلیا کریں ۔۔ اپنا خیال رکھیئے گا
جھوٹ سب جھوٹ
پاکستان میں سب سے زیادہ کیا بکتا ہے سب سے زیادہ کس چیز کی ویلیو ہے سب سے زیادہ لوگوں کو کیا پسند ہے ،،، تو یہ جان کر بالکل بھی حیرانی نہیں ہوگی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب سے زیادہ جھوٹ کو پسند کیا جاتا ہے ، ہم سب ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ، حکمران جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں بولتے چلے جاتے ہیں اور عوام سنتے چلے جاتے ہیں اور سوائے چیخنے چلانے کے کچھ بھی نہیں کرتے اور پھر ایک وقت آتا ہے آرام سے ایک کونے میں بیٹھ کر تماشا دیکھنے لگ جاتے ہیں ، بجلی کا مسلہ ہو گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسلہ ہو ، لاء اینڈ آرڈر کا مسلہ ہو ہر معاملے میں بس صرف جھوٹ بولا جاتا ہے، پولیس کا محکمہ بھی جھوٹ پر ہی قائم ہے ہر سرکاری محکمے میں جھوٹ کو پذیرائی ملتی ہے ، ہر گھر میں جھوٹ بولا جاتا ہے ماں باپ بچوں سے جھوٹ بولتے ہیں بچے والدین سے جھوٹ بولتے ہیں عاشق اپنے محبوب سے جھوٹ بولتا ہے گویا جھوٹ بولنا اب ایک کھیل بن گیا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔
مسلمان اور اسلام ۔۔۔۔
پہلا گھر
۔
بابا میں نے اس لڑکے سے شادی نہیں کرنی وہ مجھے نہیں پسند ۔۔۔ بیٹی وہ ہماری برادری کا ہے اس کا باپ بڑا آدمی ہے ۔۔ بابا اللہ نے مجھے آختیار دیا ہے میں انکار کرسکتی ہوں یہ میری زندگی کا سوال ہے ۔ بدتمیز باپ کے آگے زبان چلاتی ہے تیری شادی وہیں ہوگی جہاں میں کہوں گا اپنا اسلام اپنے پاس رکھ
۔
دوسرا گھر
۔
سنیۓ آپ جب بھی گھر آتے ہیں بہت غصے میں ہوتے ہیں ۔۔ ہاں تو کیا کروں دفتر میں ٹینشن ہوتی ہیں تھکا ہوتا ہوں دیکھیں جی میں بھی کام کرتی ہوں تھکی ہوتی ہوں آپ پیار سے بات کریں تو اچھا لگتا ہے اسلام بھی تو کہتا ہے بیوی سے پیار سے بات کرو ۔۔ بند کر اپنی بکواس اور جا کر کھانا لگا مجھے سب پتہ ہے اسلام کیا کہتا ہے سمجھی
۔
تیسرا گھر
۔
امی میں نے بھی آگے پڑھنا ہے کالج جانا ہے ۔ کوئی ضرورت نہیں بس میٹرک کافی ہے ہمارے خاندان کی لڑکیاں کالج نہیں جاتیں ۔ لیکن امی اسلام تو تعلیم پر زور دیتا ہے ۔۔ میری ماں نہ بن مجھے نہیں پتہ اسلام کیا کہتا ہے بس ہمارے خاندان میں یہ ہی رواج ہے چل جا کچن میں ہانڈی دیکھ
۔
چوتھا گھر
۔
بیگم تنخواہ مل گئی مجھے دیدو ۔۔ آپ کو کیوں دوں یہ میری کمائی ہے، آپ کی بیوی ہوں اسلام نے آپ کو میرے نان و نفقہ کا ذمہ دار بنایا ہے ۔۔ زیادہ بک بک نہ کر ۔ شوہر کا حکم ماننا فرض ہے تو میری پراپرٹی ہے تیری کمائی پر میرا حق ہے مجھے زیادہ اسلام نہ سکھا ورنہ تجھے تیرے ماں باپ کے گھر بھیج دوں گا چل دے پیسے ۔
۔
پانچواں گھر
۔
۔
بابا میں نے اس لڑکے سے شادی نہیں کرنی وہ مجھے نہیں پسند ۔۔۔ بیٹی وہ ہماری برادری کا ہے اس کا باپ بڑا آدمی ہے ۔۔ بابا اللہ نے مجھے آختیار دیا ہے میں انکار کرسکتی ہوں یہ میری زندگی کا سوال ہے ۔ بدتمیز باپ کے آگے زبان چلاتی ہے تیری شادی وہیں ہوگی جہاں میں کہوں گا اپنا اسلام اپنے پاس رکھ
۔
دوسرا گھر
۔
سنیۓ آپ جب بھی گھر آتے ہیں بہت غصے میں ہوتے ہیں ۔۔ ہاں تو کیا کروں دفتر میں ٹینشن ہوتی ہیں تھکا ہوتا ہوں دیکھیں جی میں بھی کام کرتی ہوں تھکی ہوتی ہوں آپ پیار سے بات کریں تو اچھا لگتا ہے اسلام بھی تو کہتا ہے بیوی سے پیار سے بات کرو ۔۔ بند کر اپنی بکواس اور جا کر کھانا لگا مجھے سب پتہ ہے اسلام کیا کہتا ہے سمجھی
۔
تیسرا گھر
۔
امی میں نے بھی آگے پڑھنا ہے کالج جانا ہے ۔ کوئی ضرورت نہیں بس میٹرک کافی ہے ہمارے خاندان کی لڑکیاں کالج نہیں جاتیں ۔ لیکن امی اسلام تو تعلیم پر زور دیتا ہے ۔۔ میری ماں نہ بن مجھے نہیں پتہ اسلام کیا کہتا ہے بس ہمارے خاندان میں یہ ہی رواج ہے چل جا کچن میں ہانڈی دیکھ
۔
چوتھا گھر
۔
بیگم تنخواہ مل گئی مجھے دیدو ۔۔ آپ کو کیوں دوں یہ میری کمائی ہے، آپ کی بیوی ہوں اسلام نے آپ کو میرے نان و نفقہ کا ذمہ دار بنایا ہے ۔۔ زیادہ بک بک نہ کر ۔ شوہر کا حکم ماننا فرض ہے تو میری پراپرٹی ہے تیری کمائی پر میرا حق ہے مجھے زیادہ اسلام نہ سکھا ورنہ تجھے تیرے ماں باپ کے گھر بھیج دوں گا چل دے پیسے ۔
۔
پانچواں گھر
۔
شام کو شوہر کام کاج کرکے گھر آتا ہے مسکرا کر بیوی سے بات کرتا ہے اس کا حال چال پوچھتا ہے فریش ہوکر کچن میں جاتا ہے بیوی کا ہاتھ بٹاتا ہے دونوں چاۓ پیتے ہیں ہنسی مذاق کرتے ہیں پھر رات کا کھانا کھاتے ہیں تھوڑی چہل قدمی کرتے ہیں شوہر بیوی سے مشورہ لیتا ہے اس کے حقوق کا خیال رکھتا ہے
۔
نوٹ :- یہ پانچواں گھر خوابوں میں ہی ہے
۔
نوٹ :- یہ پانچواں گھر خوابوں میں ہی ہے
نیک اور اچھے
نیک اور اچھے لوگوں کی صحبت ایک مسلمان کیلۓ بہت فائدہ مند ہوتی ہے ، جب بھی میں کسی بات پر تذبذب کا شکار ہوتا ہوں تو اللہ سے رہنمائی اور ہدایت کی دعا کرتا ہوں اور سیدھے راستے کی طلب کرتا ہوں ممتاز قادری ہو یا ویلنٹائن ڈے کا معاملہ ہو میں غلط سمت کی طرف جا رہا تھا لیکن اللہ سے مدد مانگنے کی بدولت مجھ پر سب واضح ہوگیا ہے میرا دل سکون میں ہے پہلے میں سمجھتا تھا کہ ویلنٹائن ڈے بھلے اچھے طریقے سے منا لیں فرق نہیں پڑتا لیکن میری یہ سوچ غلط تھی اور اسی طرح ممتاز قادری کو میں غلط سمجھتا تھا لیکن اللہ نے رہنمائی کی میں پہلے ممتاز قادری کے اقدام کو اچھا نہیں سمجھتا تھا لیکن اب میں جان گیا ہوں کہ اس نے صحیح کیا ۔ بعض معاملات حساس ہوتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں ہوتا کب کوئی لفظ ایسا نکلے کہ ایمان جاتا رہے اس لۓ اب سے ایسے معاملات پر بحث نہیں کرنی اور نہ ہی کسی کی دل آزاری کرنی ہے میری دعا ہے کہ ہم سب مسلمان جنت میں جائیں اور دنیا میں بھی ملکر اور متحد ہوکر رہیں اور پیارے نبی کی سنت پر عمل کریں آمین
پانی اور زبان
پانی اور زبان کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپ سوچ رہے ہیں کہ پانی کا زبان سے کیا تعلق ہے ہوا کچھ یوں کہ ایک ہفتۃ پہلے میرا غسل کرنے کا ارادہ ہوا ہر اچھا کام کرنے سے پہلے میں مشورہ کرتا ہوں پھر ارادہ کرتا ہوں چونکہ ابھی سردی کی آنکھ مچولی جاری ہے تو ٹھنڈے پانی سے نہایا نہیں جاتا میں نے گرم اور ٹھنڈا مکس کرکے نلکا کھلا چھوڑا اور نہانے لگ گیا مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ باتھ روم میں جانے سے پہلے دعا پڑھنی ہے وہ تو پتہ تب چلا جب دیکھا کہ شیطان میری سیلفی بنانے کی کوشش کر رہا تھا میں نے جلدی سے دل میں دعا پڑھی اور وہ بھاگ گیا جسم کی میل صاف کرنے کیلۓ صابن ملا جب میل نہ اتری تو سرف ایکسل ٹرائی کیا اس میں کوئی شک نہیں سب داغ صاف ہوگۓ اس دوران مجھے نلکا بند کرنے کی طرف دھیان ہی نہ گیا یوں ایک بالٹی پانی نہاتے ہوۓ ضائع ہوگیا بہت شرمندہ ہوا جب باہر نکلا تو دل میں خیال آیا کہ جس طرح نلکا کھلا چھوڑنے پر پانی ضائع ہوا تو زبان بے لگام چھوڑنے پر لفظوں کا ضیاع بھی تو ہوتا ہے میں فضول میں بولتا ہوں جس سے نہ صرف میرے نامہ اعمال میں اضافہ ہوتا جاتا ہے بلکہ اکثر نقصان بھی ہوتا ہے اسی لۓ کہتے ہیں کہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیئے اور فضول باتوں سے اجتناب کرنا چاہیۓ اس لۓ میں نے سوچا ہے کہ اب راتوں کو رانگ کالز پر کم بات کیا کروں گا اور سوچ سمجھ کر بولا کروں گا
غیرت مند انسان
غیرت مند انسان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا آتا ہے کہ اس کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں یا تو اپنی غیرت کو مار دے یا پھرخود مر جاۓ اگر تو خود مرجاۓ تو قصہ ہی ختم ہوگیا اور اگر غیرت کو مار دے تو پھر دو آپشن ملتے ہیں یا تو لوگوں کی باتیں برداشت کرے اور گھٹ گھٹ کر جی لے یا پھر محسوس کرنا ہی چھوڑ دے اب گھٹ گھٹ کے جینے کے بعد جب تنگ آ جاۓ گا تو بس ایک آپشن بچے گا یعنی خودکشی کرلے اور اگر محسوس کرنا چھوڑ دے تو پھر کوئی آپشن نہیں بچتا اور بندہ مکمل بے غیرت بن جاتا ہے ، جب انسان بے غیرت ہو جاۓ تو زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا اس بے چارے کو لوگ مار دیتے ہیں یعنی موت ہر حال میں اس کا مقدر ہے اس لۓ کبھی کبھی غیرت مند لوگوں کیلۓ خودکشی بہت ضروری ہو جاتی ہے
نکاح اور زنا
نکاح اور زنا میں اللہ نے بہت فرق رکھا ہے ، نکاح کے بعد میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں جبکہ زنا کے بعد مرد اور عورت دونوں بے لباس ہوتے ہیں
ایک لفظ
ایک لفظ کبھی کبھی زندگی بدل دیتا ہے میں نے ان مردوں کو خوش نہیں دیکھا جو شادی سے پہلے کہتے تھے کہ اللہ مجھ سے محبت کرنے والی بیوی دے اور ان کو بہت خوش دیکھا جو کہتے تھے اللہ تجھ سے محبت کرنے والی بیوی دے کیونکہ تجھ سے محبت کرنے والی تجھ سے مانگے گی اور مجھ سے محبت کرنے والی مجھ سے مانگے گی
شیطان سے ملاقات
کچھ دن پہلے میں پارک میں بیٹھا شیطان کے بارے میں سوچ رہا تھا اچانک ایک بندے نے کندے پر ہاتھ رکھا اور کہا جناب ہمارے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ، دیکھا تو ایک سانولے سے رنگ کا نوجوان تھا جسے میں بالکل بھی نہیں جانتا تھا ، اس سے پوچھا کہ کون ہے تو بولا جس کے بارے میں سوچ رہے ہیں ،،تو میں ہنس کر بولا کہ شیطان تو بہت بدصورت ہے تو وہ بھی ہنس پڑا اور کہا کہ آپ نے دیکھا ہے کیا ،، میں نے کہا کہ وہ ایک نافرمان تھا تو اس کا چہرہ برا ہی ہوگا، وہ مسکرایا اور بولا کہ مسٹر شیخ میں نے ایک حکم نہیں مانا اور سجدہ نہیں کیا اور مجھے شیطان کا درجہ ملا اور تم جب سے بالغ ہوئے ہو ، کتنی ہی نمازیں چھوڑیں، کتنے ہی سجدے چھوڑے ، روزے بھی چھوڑے، ماں باپ کی نافرمانی بھی کی، جھوٹ بھی بولے ، چوری بھی کی اتنے سارے گناہ کئے لیکن تمھارا چہرہ اگر بھیانک نہیں ہوا تو شیطان کا کیسے ہوگیا تم نے تو اس سے بھی زیادہ نافرمانیاں کی ہیں، میں بولا کہ دیکھو ایک تو تم نے اللہ کے حکم پر آدم علیہ سلام کو سجدے سے انکار کردیا اس پر معافی بھی نہیں مانگی بلکہ تم نے دھمکی دی کہ میں اللہ کے بندوں کو بہکاؤں گا یہ بھی نہ سوچا کہ وہ تمھارا خالق ہے مالک ہے جس پرتم کو اللہ کے عذاب کا سامنا کرنا پڑا اور ذلیل و رسوا ہوئے جبکہ میں جانتا ہوں میں نے گناہ کئے اس پر شرمسار ہوا ، اللہ سے کئی بار توبہ کی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو اپنا رب مانتا ہوں اسے ہی نفع اور نقصان کا مالک سمجھتا ہوں اس وجہ سے اس کی رحمت کے صدقے جی رہا ہوں جس پر شیطان میری بات سن کر پیر پٹختا ہوا چلا گیا
علم جاننے کا نام ہے
علم کے معنی ہے جاننا ،، اللہ نے حکم دیا نماز پڑھو ایک شخص اس حکم کی تعمیل کرتا ہے اور نماز پڑھتا ہے لیکن دوسرا شخص نماز پڑھتا ہے ساتھ میں یہ بھی جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اللہ نے یہ حکم کیوں دیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسی لئے ہر مسلمان کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا ، صرف نماز پڑھنا اور زکر کرنا ہی اللہ کی عبادت نہیں ، ڈاکٹر ، انجینیئر ، استاد ، سائنسدان یہ سب کے سب علم حاصل کرکے بنے اور اس علم کو آگے پھیلانا بھی عبادت ہے، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس دنیا کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا تو وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کہا کہ کیا تم غور نہیں کرتے کیا تم دیکھتے نہیں کہ یہ کائنات کا نظام کون چلا رہا ہے کیا تم نے کبھی مکھی یا مچھر پر غور نہیں کیا ، کیا تم نے کبھی اپنے آپ کو نہیں دیکھا کیسے ہم نے ایک قطرے سے انسان بنا دیا ، تم اللہ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے،، آج مغرب علم کے زور پر ترقی کر رہا ہے اس کے پاس جدید ہتھیار ہیں وہ ہم پر اسی لئے حاکم ہے کیونکہ ہم نے علم کو چھوڑ کر عبادت پر ہی زور دیا ، ہم یہ کہتے ہیں کہ مغرب تو برا ہے وہ تو جاہل ہیں وہ تو مسلمانوں سے بھی بدتر ہیں اور خود اگر اپنے آپ کو دیکھیں تو دنیا بھر میں مسلمان زوال کا شکار ہیں ، اللی تعالی نے انسان کو دماغ اسی لئے دیا تاکہ وہ اس کائنات میں اللہ کی نشانیاں دیکھے اس پر غور کرے، خود اپنے دین پر غور کرے ،، کتنے مسلمان ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ نماز کیوں فرض ہے رکوع کیوں کرنے کا حکم ہے سسجدہ کیوں کرتے ہیں ، کتنے مسلمان جانتے ہیں کہ ظہر اور عصر میں باجماعت نماز خاموشی سے کیوں پڑھی جاتی ہے باقی تین نمازوں میں قرآت کیوں کی جاتی ہے ، کسی مسلمان نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ مسواک کے کیا فائدے ہیں ، بیٹھ کر پانی نہ پینے کے کیا نقصانات ہیں ، کھانے سے پہلے ہاتھ کیوں دھوتے ہیں ،، بسمہ اللہ کیوں پڑھتے ہیں، کتنے لوگ یہ جانتے ہیں باتھ روم میں جانے سے پہلے دعا کیوں پڑھی جاتی ہے ، بیوی سے تعلق سے پہلے دعا کیوں پڑھنے کا حکم ہے، کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ صرف ہوا خارج ہونے پر سارا وضو کیوں ٹوٹ جاتا ہے، ہم تو وہ مسلمان ہیں جو کچھ بھی نہیں جانتے اور سمجھتے ہیں کہ بس دنیا میں ہم ہی سب سے زیادہ علم والے ہیں، ایک مفتی کو سائنس کا علم ہی نہیں تو وہ کیسے فتوی دے گا ایک مفتی کو طب کے بارے میں پتہ ہی نہیں وہ کیسے فتوی دے سکے گا ، مسلمان اس وقت تک زوال کا ہی شکار رہیں گے جب تک وہ علم حاصل نہیں کریں گے اور خود کو وقت کے لحاظ سے جدید نہیں بنائیں گے
اللہ اور ہم
اللہ کہتا ہے کہ عمل صالح کرو اس کے نتیجے میں خلافت آ جائے گی لیکن آج کے دور کے لوگ کہتے ہیں کہ پہلے خلافت آئے اس کے بعد نیکی کے عمل بھی ہو جائیں گے یعنی اللہ کہتا ہے تم اچھے بنو تو اسلامی حکومت آ جائے گی لیکن لوگ کہتے ہیں کہ نہیں پہلے اسلامی حکومت نافذ ہوگی پھر ہم اچھے بھی بن جائیں گے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ بد ترین آدمی کون ہے تو انہوں نے فرمایا جو نہ محبت کرے اور نہ ہی لوگ اس سے محبت کریں ایک اور جگہ فرمایا وہ جس کی زبان سے لوگ محفوظ نہ رہیں، ایک صحابی رضی اللہ کو اللہ کے نبی نے کہا کہ صدقہ کرو انہوں نے پوچھا کہ کیا کروں انہوں نے فرمایا کہ کوئی اچھی بات اپنے مسلمان بھائی کو بتاؤ یہ صدقہ ہے تو صحابی نے کہا کہ اللہ کے نبی اگر ایسا نہ ہوسکے تو انہوں نے فرمایا اگر کوئی ملنے آئے تو اس سے اچھی طرح ملا کرو، مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ،، صحابی نے کہا کہ اگر ایسا بھی نہ کرسکے تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھنا ، آج کے دور میں اگر ہر آدمی اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے گا تو اس دنیا میں امن ہو جائیگا لیکن آج لوگ الٹی ترتیب چاہتے ہیں ، ہر برا شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی آزادی برقرار رہے اور لوگ اس کے شر سے خود بچیں ، وہ جتنے مرضی برے کام کرےکوئی اسے کچھ نہ کہے اور پھر ایسا انسان جانور بن جاتا ہے اور گناہوں میں ڈوب جاتا ہے اور نفس کے مکر کا شکار ہو جاتا ہے
دوست اور میں
میرے ایک دوست نے پوچھا ایک سوال کا جواب دو،،،،
۔۔
یار شیخ محبت کیا ہے
میں نے کہا آرام سے فون پر بات کرتا ہوں ابھی برتن دھو رہا ہوں کچھ دیر انتظار کرو،،،
۔
کچھ دیر بعد اس کا پھر میسج آیا
یار شیخ بتا نا محبت کیا ہوتی ہے
میں نے جواب دیا کہ یار بس دو چار کپڑے دھونے ہیں ابھی بتاتا ہوں تم تھوڑا انتطار کرلو
۔
کچھ دیر بعد پھر میسج آتا ہے
یار بتا بھی دے محبت کیا ہوتی ہے اور کتنا کام باقی ہے
میں نے کہا یار بیگم کے درزی سے کپڑے لینے جا رہا ہوں بس ابھی آیا تم کو خود کال کرتا ہوں
۔
کچھ دیر بعد میں میسج کرتا ہوں
جانی کہاں ہو میں کال کر رہا ہوں ،،،
اس کا جواب آتا ہے رہنے دے یار میں بیگم کیلئے چائے بنا رہا ہوں پھر کبھی سہی
۔۔
یار شیخ محبت کیا ہے
میں نے کہا آرام سے فون پر بات کرتا ہوں ابھی برتن دھو رہا ہوں کچھ دیر انتظار کرو،،،
۔
کچھ دیر بعد اس کا پھر میسج آیا
یار شیخ بتا نا محبت کیا ہوتی ہے
میں نے جواب دیا کہ یار بس دو چار کپڑے دھونے ہیں ابھی بتاتا ہوں تم تھوڑا انتطار کرلو
۔
کچھ دیر بعد پھر میسج آتا ہے
یار بتا بھی دے محبت کیا ہوتی ہے اور کتنا کام باقی ہے
میں نے کہا یار بیگم کے درزی سے کپڑے لینے جا رہا ہوں بس ابھی آیا تم کو خود کال کرتا ہوں
۔
کچھ دیر بعد میں میسج کرتا ہوں
جانی کہاں ہو میں کال کر رہا ہوں ،،،
اس کا جواب آتا ہے رہنے دے یار میں بیگم کیلئے چائے بنا رہا ہوں پھر کبھی سہی
وقت
قیامت کی نشانیوں مین سے ایک نشانی یہ ہے کہ وقت تیزی سے گزرے گا،، آج لوگ یہ ہی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ،، نہ اپنے گھر والوں کیلئے نہ بیوی کیلئے نہ رشتے داروں کیلئے نہ دوستوں کیلئے ،، اسی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں جبکہ یہ سب ایک دھوکہ ہے وقت ہمیشہ سے ایسے ہی گزرتا رہا ہے لیکن پہلے دور میں لوگ محبت کرنے والے تھے لیکن اب لوگ محبت کرنے والے نہیں اس لئے لگتا ہے کہ جلدی گزر رہا ہے ،، انسان کسی سے دور ہوتا ہے تو اپنی غلطیوں کوتاہیوں کی وجہ سے ہوتا ہے وقت کی وجہ سے نہیں ،، زرا شوچیئے
ایک دن کمانڈو کے ساتھ ۔۔۔
.
ہم دبئی میں ان کی رہائش گاہ پہنچے تو وہ نیکر پہن کر جاگنگ کر رہے تھے ،، ان کی خوبصورت اسسٹنٹ بھی ساتھ تھیں جو ہمیں دیکھ کر چھپ گئیں
۔
انہوں نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور ہمارے لئے جوس کا انتظام کیا اور خود کڑوا پانی کا گلاس لے کر ہمارے ساتھ براجمان ہوگئے
۔
ہم نے پوچھا کہ آپ تو مکا لہراتے تھے پھر دبئی کیوں بھاگ آئے
وہ بولے اب میں بڈھا ہوگیا ہوں لہرانے کیلئے کچھ نہیں دکھانے کیلئے صرف پیٹھ تھی اور وہ پیٹھ دکھا کر آگیا :D :D
.
سنا ہے آپ کی کمر میں درد کسی اور وجہ سے ہوا تھا لیکن آپ نے کبھی تسلیم نہیں کیا
تو وہ غصے ہو گئے اور اپنی اسسٹنٹ کو چپکے سے ایس ایم ایس کرکے ڈانٹا کہ ہر خبر باہر دینے والی نہیں ہوتی
۔
ہم نے پوچھا کہ آپ اب پاکستان کب واپس آئیں گے
تو وہ ہنس ہنس کر صوفے سے نیچے گر پڑے اور کافی دیر تک رولنگ سٹون بنے رہے
۔
ہم نے سوال کیا کہ آپ پاکستان کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں
تو انہوں نے ایک نظر پردے کے پیچھے چھپی اپنی حسین اسسٹنٹ کو دیکھا اور شرما کر بولے بالکل گورے گالوں جیسا کالے بالوں جیسا
۔
ابھی ہم نے ان سے سوال کرنا تھا لیکن وہ کڑوا پانی ایک گھونٹ میں ہی پی چکے تھے جس کے بعد وہ جانو ،، جانو ،، جانو بولتے بولتے صوفے پر گر گئے
۔
ہم ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ آٓئے کہ کہیں ان کی اس حالت پر ہمیں ہی نہ پکڑ لیا جائے
۔
بیٹا اور بیٹی
وا کچھ یوں کہ میرا ایک دوست ہے اس کے چار بچے ہیں کچھ دن پہلے وہ بہت مہنگا ٹی سیٹ لایا کچھ دن پہلے اس کی بیٹی سے ایک کپ ٹوٹ گیا اس بے چاری کی کافی دھنائی ہوئی خیر کل اس کے بیٹے سے مہنگا موبائل ٹوٹ گیا لیکن اس نے اسے پیار کیا اور کہا کہ کوئی بات نہیں بچہ ہے جب اس سے پوچھا کہ بیٹی کو مارا لیکن بیٹے کو نہیں مارا ایسا کیوں تو مسکرا کر بولا بیٹا اکلوتا ہے ۔۔ میں نے کہا کہ تمھاری اسی حرکت سے بیٹی تم سے دور ہوگی یہ جو جاہل لوگ اکلوتا بیٹا کہہ کر اسے کچھ نہیں کہتے اور بیٹیوں کو مارتے ہیں ان لوگوں کی بیٹیاں جب ان سے باغی ہوتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے تو سب کچھ دیا ہماری قسمت ہی خراب تھی جبکہ اپنی غلطی پر زرا بھی غور نہیں کرتے افسوس ۔۔۔۔
مغرب اور مشرقی سکول
مغرب کے اچھے سکولوں میں چھوٹے بچے جب پڑھنے جاتے ہیں تو ایک ماہر نفسیات کو ان کا مزاج دیکھنے کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے وہ بچے جس مزاج کے ہوتے ہیں ان کو اس کے مطابق سبجیکٹ دیا جاتا ہے یہ ایک اصول کی بات ہے انسان کو جس کام میں دلچسپی ہوتی ہے وہ شوق سے کرتا ہے تو جب بچہ اپنے پسند کا سبجیکٹ پڑھتا ہے تو اس کے دل میں آگے بڑھنے کا شوق اور زیادہ ہوتا ہے اور یوں جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے اس سبجیکٹ کے مطابق ایک ماہر بن چکا ہوتا ہے لیکن اگر پاکستان کو دیکھیں تو یہاں تو سکولوں میں ایسا کوئی سسٹم نہیں اوپر سے بچہ ابھی پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ میں تو اپنے بیٹے کو انجینیئر ، ڈاکٹر وغیرہ جو بھی وہ چاہتی ہے بنانے کا سوچ لیتی ہے پاکستان میں ترقی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے مزاج اور پسند کے مطابق نہیں پڑھاتے بلکہ اپنی مرضی کے مطابق پڑھاتے ہین جس سے بچا پڑھ تو جاتا ہے لیکن اس میں وہ خوبیاں پیدا نہیں ہوتیں جو اس سبجیکٹ کو پسند کرنے والے میں ہوتی ہیں ، فرض کریں ایک لڑکا ٹیچر بننا چاہتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈاکٹر بنا دیتے ہیں تو وہ دل سے کام نہیں کرے گا اور اس وجہ سے وہ مریض کی صحیح تشخیص بھی نہیں کر سکے گا کیونکہ اس کا دل ہی نہیں کرتا اور ایک لڑکا جس کو بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے لوگوں کی تکلیف دور کرنے کا شوق تھا جب وہ ڈاکتر بنتا ہے تو اس کی تشخیص پہلے والے لڑکے سے بہت اچھی ہوگی، اس لئے ماں باپ جب تک اپنے بچوں کی نفسیات نہیں سمجھیں گے تب تک پاکستان ترقی نہیں کرے گی اور ایک ذہنی بیمار نسل ہی پروان چڑھے گی
موبائل اور ماں
ہوا کچھ ہوں کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے نکلا لبرٹی گۓ فوٹریس گۓ اور ونڈو شاپنگ کی جب تھک گۓ تو ایک ہوٹل میں کچھ کھانے پینے کیلۓ بیٹھ گۓ ہمارا ایک دوست جب سے ہم گھوم پھر رہے تھے اپنی نوبیاہتا بیگم سے فون پر کھسر پھسر کر رہا تھا جو اپنی امی کی طرف گئی ہوئی تھی خیر جب کھانے پینے کا کام شروع ہوا اس نے موبائل رکھا اور سب نے مزیدار کھانا نوش کیا جب ہم فری ہوۓ تو اس کو پھر فون آیا اس بار اس نے چھوٹی بات کی تھوڑا چڑ کر بولا کہ اچھا نا ابھی زرا مصروف ہوں پھر کرتا ہوں کال ۔۔۔ جب میں نے اس سے پوچھا تو کہنے لگا ماں کی کال تھی ۔۔ اس وقت میرے آنسو نکل آۓ میں واش روم کے بہانے نکلا کچھ دیر تنہائی میں آنسو بہاۓ اور سوچا کہ دیکھو بیوی کیلۓ وقت ہے ماں کیلۓ نہیں ۔۔ ہم سب کے پاس اپنے ماں باپ کیلۓ وقت نہیں شادی کے بعد مصروف ہو جاتے ہیں اور جب ان بوڑھے ماں باپ کو ضرورت ہوتی ہے ہم انہیں بھول جاتے ہیں
۔
۔
اہلیہ اور رقعہ
ہوا کچھ یوں کہ اہلیہ نے ایک عدد رقعہ میرے نام لکھا اور ایک مقررہ وقت میں تمام چیزیں لانے کیلۓ کہا چونکہ شادی کے بعد مرد سست اور بھلکڑ ہو جاتا ہے تو بیویوں کو ایسا کرنا پڑتا ہےوہ اس لۓ کہ بندہ بہت زیادہ بیگم پر انحصار کرتا ہے جیسے آپ کیلکولیٹر استعمال کرنے لگیں تو جمع تفریق کرنا مشکل لگتا ہے دوسرا وقت مقرر اس لۓ کیا کیونکہ مردوں کی عادت ہے سست ہوتے ہیں بار بار نہ کہو تو کام نہیں کرتے اصل میں ہمارا قصور نہیں یہ بائی ڈیفالٹ ہی ایسا ہے تو جناب ہم جب خریداری کر رہے تھے تو ایک خاتون کو اونچا اونچا روتے دیکھا وہ اپنے بچے کو چوم رہی تھی ہوا کچھ یوں کہ ونڈو شاپنگ کرتے ہوۓ وہ یہ بھول گئیں کہ ان کے ساتھ بچہ بھی ہے اور بچے کا ہاتھ ماں چھوڑ دے تو وہ ویسے ہی قابو میں نہیں آتا تو وہ جناب گم گۓ خیر جس خاتون نے بچہ ماں سے ملایا وہ اس کا شکریہ ادا کر رہی تھیں اس کو دیکھ کر میں نے شکر ادا کیا کیونکہ میں جب بھی بازار نکلتا ہوں تو بیگم کا ہاتھ نہیں چھوڑتا وہ اس لۓ کہ کہیں کسی دکان میں گھس گئی تو جیب خالی ہو جاۓ گی اور پھر ایسے ہی رؤں گا جیسے یہ خاتون رو رہی تھی
گھر کی پرورش
وا کچھ یوں کہ بہت عرصہ پہلے ہم دوستوں نے ایک دوست کے گھر میں فلم دیکھنے کا منصوبہ بنایا ، اچھی بھلی فلم چل رہی تھی کہ اچانک ایک ایسا سین آگیا جس کو دیکھتے ہوئے ہم سب کے گال اور کان لال ہوگئے اچانک ایک بچے کی آواز آئی پاپا بھی ماما کے ساتھ ایسا کرتے ہیں اور سب کے سب ایسے اچھلے جیسے تشریف پر کسی نے سوئی چبھوئی ہو ،، فلم دیکھتے ہوئے کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ کب وہ چھوٹا چھلاوا بھی کمرے میں آگیا تھا خیر اس کے بعد سب نے شرمندہ شرمندہ فلم مکمل کی کیونکہ کرائے کی تھی تو پیسے تو پورے کرنے تھے ،، تو جناب کہنا یہ تھا کہ یہ جو بچے ہوتے ہیں یہ عقل کے کچے ہوتے ہیں اور جب ہم ان کے سامنے کچھ ایسا ویسا کرتے ہیں تو ان کے دماغ میں گھس جاتا ہے اور پھر پرورش کے دوران ان کی سوچ کو نقصان پہنچتا ہے ہمارے ملک میں ایسا بہت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ جو لوگ شادی کے بعد ایک کمرے میں رہتے ہیں اور پھر اسی کمرے میں تین سے چار بچے بھی ہوجاتے ہیں تو ان بچوں کو سب پتہ ہوتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ بچہ سکول میں جا کر بگڑا ہے جبکہ وہ گھر میں ماں باپ کو دیکھ کر ہی بگڑ چکا ہوتا ہے سکول میں جا کر تو اس کی سوچ کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے تو جناب زرا اس طرف بھی دھیان دیجئے بہت نازک صورتحال ہے
پیٹ اور ٹرک
جناب ہوا یوں کہ آج صبح ایک جگہ ناشتہ کر رہا تھا ایک دوست بھی وہاں پہلے سے بھوک مٹا رہے تھے مسمی کھانے میں اتنا مشغول تھا کہ اس کی طرف دھیان ہی نہیں گیا جب وہ فارغ ہوۓ تو پاس آکر بیٹھ گۓ اور جملہ لپیٹ کر مارا کہ یا شٰیخ بس کرو کتنا کھاؤ گے اس کے لفظوں نے گویا ہماری تشریف میں آگ لگا دی کھانے سے فارغ ہو کر میں بولا تمھاری موٹر سائیکل کی ٹنکی میں کتنا پٹرول ڈلتا ہے تو بولا ہزار روپے کا ۔۔ میں نے کہا ٹرک میں ۔۔ تو بولا پانچ ہزار کا ۔۔ میں بولا جہاز میں کتنا تو بولا ہزاروں روپے کا ۔ تو میں نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ جہاز میں موٹر سائیکل جتنا پٹرول ڈال کر چلایا جاۓ تو اسے ہم کیا کہیں گے تو فورا بولا پاگل ہی کہیں گے تو میں مسکرا کر بولا تمھارا پیٹ موٹر سائیکل کی ٹنکی جتنا ہے اور میرا جہاز جتنا اب میری آگ بجھ گئی تھی اور اسے جلتا ہوا وہاں سے نکل آیا
عورت مرد کی غلام نہیں ۔۔۔۔۔۔
۔
یہ جو مرد خواتین کے حقوق کے بل کا رونا روتے ہیں اس پر بڑی حیرانی ہوتی ہے اگر آپ نبی کریم ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہ کا دور دیکھیں تو اس میں ایسے کتنے ہی واقعات مل جائیں گے جہاں عورت آکر اپنے شوہر کے بارے میں شکایت کرتی تھی اس دور میں بھی قاضی کے پاس بیویاں جاتی تھیں، جب ایک حکومت آپ کو آپ کا حق نہیں دیتی جب آپ کی جائیداد میں آپ کا حق نہیں ملتا تو آپ عدالت جاتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مرد عورت کو حقوق نہ دے اور یہ چاہے کہ وہ خاموش بھی رہے اگر بیوی کو شوہر اس کے حقوق نہیں دیتا تو وہ عدالت جا سکتی ہے اسلام نے کبھی اس پر پابندی نہیں لگائی، فقہ کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر ایک مرد شدید غسے کی طبیعت رکھتا ہے اور اس کا کنٹرول نہیں تو اس کیلئے شادی حرام ہے، ایک مرد اگر ایک عورت پر تشدد کرتا ہے تو اسلام نے کہیں یہ نہیں کہا کہ مرد عورت کو تشدد کا نشانہ بنا سکتا ہے، اگر ہمارے معاشرے میں تین طلاق بیک وقت دینے پر سزا کا قانون ہو تو سب مرد سیدھے ہو جائیں، یہ جو مرد سنت سنت کی باتیں کرتے ہین طلاق تو سنت کے مطابق دیتے نہیں اور بل کا رونا رونے لگ جاتے ہیں، اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو برابر کا درجہ دیا ہے اگر عورت کو کہا گیا کہ مرد حاجت کے وقت بلائے تو انکار نہ کرنا ایسے ہی مرد کا فرض ہے کہ اگر اس کی بیوی بلائے تو انکار مت کرے ،، ایسا کہیں نہیں کہ مرد کو جب ضرورت ہو تو بیوی پاس بلائے اور جب عورت کو ضرورت ہو تو اس کی پروا ہی نہ کرے، اس ناںصافی کی وجہ سےآج کے معاشرے میں عورت یہ سمجھتی ہے کہ مرد تو بس اس کے جسم کیلئے ہی شادی کرتا ہے ، جس طرح مرد چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی عزت کرے اسی طرح عورت بھی چاہتی ہے کہ مرد اس کی عزت کرے، مصیبت یہ ہے کہ اس معاشرے میں عورت کو شروع سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ شوہر کی فرمانبردار بنا اس کا حکم ماننا اس کے آگے بولنا مت لیکن کیا کبھی کسی مرد کی تربیت کی گئی ہے کہ عورت سے نرمی سے بات کرو اس پر ہاتھ مت اٹھاؤ اس سے غصے میں نہیں پیار سے بات کرو،،، آج کے پڑھے لکھے مولانا حضرات صرف اور صرف مرد کی اجارداری اور اپنی انا کی وجہ سے اس بل کی مخالفت کر رہے ہیں وہ کیوں نہیں یہ بل پاس کرتے کہ جو مرد عورت پر ہاٹھ اٹھائے گا اس کو سزا ملے گی جو اپنی بیوی سے زیادہ عرصہ دور رہے گا اس کو سزا ملے گی جو اپنی بیوی کو خرچہ نہیں دے گا اسے سزا ملے گی ،، لیکن وہ ایسا کبھی نہین بولیں گے کیونکہ مرد چاہے مذہبی ہو یا لبرل وہ کبھی بھی عورت کو برابری کا درجہ نہیں دینا چاہتا اور بس بیان سنوالو کہ عورت مرد برابر ہیں اسلام یہ کہتا ہے وہ کہتا ہے لیکن جب نافذ کرنے کی بات آتی ہے تو گھر میں کبھی وہ حقوق نہیں دیتا جو اسلام نے دیئے ،، آج اگر ایک عورت باہر نکلتی ہے تو اسی وجہ سے نکلتی ہے ، جب تک ہم عورت کو بھی اسی طرح انصاف نہیں دیں گے جس طرح اسلام نے مرد کو دینے کا کہا ہے تب تک یہ معاشرہ ٹھیک نہیں ہو سکتا
۔
مسلمان سے بڑا منافق ہے ۔۔۔
۔
اس روئے زمین پر آج سب سے بڑا منافق مسلمان ہے اوراسی منافقت کی وجہ سے اللہ نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا ہے اور یہ بے وقوف ہر بار یہ ہی کہتے ہیں کہ اللہ ظلم کا بدلہ لے گا لیکن کبھی اپنی غلطی نہیں دیکھتے کہ یہ ظلم اس کی اپنی منافقت کا ہی نتیجہ ہے، پاکستان میں لاکھوں خواتین پردہ نہیں کرتیں کسی کو پروا نہیں لیکن اگر حکومت یہ حکم دیدے کہ سب عورتیں پردہ کریں تو ایک بھونچال آ جائے گا مجھے یقین ہے خوب لعن طعن ہوگی اسی طرح اگر سب مردوں کو کہا جائے کہ آج سے داڑھی رکھنی ہے تو سب کہین گے کہ اسلام میں تو جبر نہیں اسلام میں تو زبردستی نہیں، دوسری طرف اگر جرمنی یا فرانس میں عورتوں کے پردے پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو یہ ہی مسلمان وہ واویلا مچائیں گے کہ حد نہیں، مسلمانوں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ دوسرا شخص اسلام پر عمل کرے لیکن وہ خود نہ کریں ایک کلین شیو مسلمان خود بھلے لڑکیوں کی بانہوں میں تصویر کھنچوائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایک باریش کو یہ اجازت نہین دیتا کہ وہ ایسا کرے مسلمانوں نے اپنی نفس کے مطابق اپنے لئے حدود وضح کر رکھے ہیں، ایک سنی سے اگر کسی صحابی کے بارے میں غلطی سے بیان ہو جائے تو اسی کی ماں بہن ایک کردی جاتی ہے لیکن اگر ایک فرقہ صدیوں سے ایسا کر رہا ہے تو اس کیلئے نرم گوشہ ہے ایک شخص کو کالا قانون کہنے کے جرم کی سزا دی جاتی ہے تو دوسری طرف ایک شخص کو نبی کریم ﷺ کی معاذ اللہ جھوٹے خوابوں کے ذریعے توہین کے باوجود انقلاب کی اجازت بھی دی جاتی ہے ، یہاں ایک عیسائی ایک یہودی کیلئے الگ زہنی قانون ہے اور مسلمان کیلئے الگ ہے کوئی انصاف ہی نہیں، جب تک مسلمان یہ نا انصافی کریں گے اسی طرح اللہ ان پر عذاب ناذل کرتا رہے گا آج دنیا بھر میں مسلمان اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے عذاب کا شکار ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ بجائے اللہ کے قریب ہونے کے اور دور ہوتے جا رہے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ خود کو ابھی بھی یہ ہی سمجھتے ہیں کہ ان کی راہ بالکل ٹھیک ہے ہمیں ایسے لوگوں پر جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں لعنت بھیجنا ہوگی اس ملک میں اسلامی قانون پر عمل کروانا ہوگا، صرف اللہ اور نبی کے اطاعت کرنا ہوگی اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ایک دن پاکستان کا بھی عراق اور شام جیسا حال ہوگا تب کوئی غوث یا قطب بچانے والا نہیں ہوگا ، پاکستان مسلسل تباہی کی طرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار سب سے زیادہ عوام ہیں کیونکہ ان ہی عوام کی وجہ سے حکمران برے مسلط کئے جاتے ہیں
اس روئے زمین پر آج سب سے بڑا منافق مسلمان ہے اوراسی منافقت کی وجہ سے اللہ نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا ہے اور یہ بے وقوف ہر بار یہ ہی کہتے ہیں کہ اللہ ظلم کا بدلہ لے گا لیکن کبھی اپنی غلطی نہیں دیکھتے کہ یہ ظلم اس کی اپنی منافقت کا ہی نتیجہ ہے، پاکستان میں لاکھوں خواتین پردہ نہیں کرتیں کسی کو پروا نہیں لیکن اگر حکومت یہ حکم دیدے کہ سب عورتیں پردہ کریں تو ایک بھونچال آ جائے گا مجھے یقین ہے خوب لعن طعن ہوگی اسی طرح اگر سب مردوں کو کہا جائے کہ آج سے داڑھی رکھنی ہے تو سب کہین گے کہ اسلام میں تو جبر نہیں اسلام میں تو زبردستی نہیں، دوسری طرف اگر جرمنی یا فرانس میں عورتوں کے پردے پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو یہ ہی مسلمان وہ واویلا مچائیں گے کہ حد نہیں، مسلمانوں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ دوسرا شخص اسلام پر عمل کرے لیکن وہ خود نہ کریں ایک کلین شیو مسلمان خود بھلے لڑکیوں کی بانہوں میں تصویر کھنچوائے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ایک باریش کو یہ اجازت نہین دیتا کہ وہ ایسا کرے مسلمانوں نے اپنی نفس کے مطابق اپنے لئے حدود وضح کر رکھے ہیں، ایک سنی سے اگر کسی صحابی کے بارے میں غلطی سے بیان ہو جائے تو اسی کی ماں بہن ایک کردی جاتی ہے لیکن اگر ایک فرقہ صدیوں سے ایسا کر رہا ہے تو اس کیلئے نرم گوشہ ہے ایک شخص کو کالا قانون کہنے کے جرم کی سزا دی جاتی ہے تو دوسری طرف ایک شخص کو نبی کریم ﷺ کی معاذ اللہ جھوٹے خوابوں کے ذریعے توہین کے باوجود انقلاب کی اجازت بھی دی جاتی ہے ، یہاں ایک عیسائی ایک یہودی کیلئے الگ زہنی قانون ہے اور مسلمان کیلئے الگ ہے کوئی انصاف ہی نہیں، جب تک مسلمان یہ نا انصافی کریں گے اسی طرح اللہ ان پر عذاب ناذل کرتا رہے گا آج دنیا بھر میں مسلمان اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے عذاب کا شکار ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ بجائے اللہ کے قریب ہونے کے اور دور ہوتے جا رہے ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ خود کو ابھی بھی یہ ہی سمجھتے ہیں کہ ان کی راہ بالکل ٹھیک ہے ہمیں ایسے لوگوں پر جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں لعنت بھیجنا ہوگی اس ملک میں اسلامی قانون پر عمل کروانا ہوگا، صرف اللہ اور نبی کے اطاعت کرنا ہوگی اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ایک دن پاکستان کا بھی عراق اور شام جیسا حال ہوگا تب کوئی غوث یا قطب بچانے والا نہیں ہوگا ، پاکستان مسلسل تباہی کی طرف جا رہا ہے اور اس کے ذمہ دار سب سے زیادہ عوام ہیں کیونکہ ان ہی عوام کی وجہ سے حکمران برے مسلط کئے جاتے ہیں
سرخ بتی
وا کچھ یوں کہ گھر سے دفتر آتے ہوئے ایک جگہ سرخ بتی نے رکنے پر مجبور کردیا میں نے دائیں دیکھا ، پھر بائیں دیکھا پھر سوچا کوئی بھی نہیں تو اشارہ کاٹ دیتے ہیں کیا فرق پڑ تا ہے تو ایسے ہی ذہن میں خیال آیا کہ جب ایک مسلمان روزہ رکھتا ہے تو اس کو دن میں کتنی بارموقع ملتا جب جب کوئی بھی نہیں ہوتا اور اگر وہ چاہے تو کھا پی لے مگر وہ اس لئے نہیں کھاتا کیونکہ اللہ دیکھ رہا ہے اور روزہ ایک مسلمان میں صبر پیدا کرتا ہے جو انسان کی بہتری کیلئے ہوتا ہے اتنی دیر میں ایک دو موٹر سائیکل والے پاس سے گزرے اور ہنستے ہوے کہا کہ مولوی پاگل ہے سڑک خالی ہے اور اشارہ پر کھڑا ہے ،، لیکن میں نے اشارہ نہیں توڑا کیونکہ اللہ دیکھ رہا تھا، سوچتا ہوں کہ اگر ایک مسلمان صرف یہ سوچ کر کہ اللہ دیکھ رہا ہے چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی کرنا ترک کردے تو ایک عظیم مسلمان بن سکتا ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ نفس نے کئی بار کہا کہ اشارہ توڑ دو بہت بہکایا لیکن ثابت قدم رہا ،، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرتے کرتے ہم بڑے گناہ کرنے لگ جاتے ہیں کیونکہ ہم چھوٹے گناہوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ،، اللہ ہمیں ایک اچھا مسلمان بننے کی توفیق دے آمین
۔
۔
مدنی موبائل
مدنی تکیہ کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکر سام سنگ کمپنی نے مسلمانوں کیلئے اسلامی ٹی وی بنانے کا اعلان کردیا جس میں بے پردہ نیوز اینکر پاپردہ نظر آۓ گی اس میں سیٹنگ کی تین آپشنز ہوں گی اعتدال پسند موڈ ۔۔ شدت پسند موڈ اور انتہا پسند موڈ ۔۔ بچون کے کارٹون بھی پاک صاف نظر آئیں گے ڈورے مون شریف ۔۔ بین ٹین شریف وغیرہ وغیرہ ۔۔ اگر خواتین کا کرکٹ میچ ہوگا تو شدت پسند موڈ میں کھلاڑی لڑکیوں کے ہاتھ اور بازو جبکہ انتہا پسند موڈ کرنے کے بعد صرف گیند نظر اۓ گی ۔۔ بکنگ جاری ہے ٹی وی کے ساتھ خواتین کیلۓ تھری ڈی برقع اور مردوں کیلۓ تھری ڈی ٹوپی فری ۔۔۔
۔
۔
حقوم نسواں نظم
حقوق نسواں بل سے بہت ڈرتا ہوں میں
گھر کے کام پہلے سے زیادہ کرتا ہوں میں
۔
زوجہ کی ہر بات پر کہتا ہوں جی جی
اپنا تو بن گیا ہے تکیہ کلام جی جی
۔
ان کا غصہ بھی ہنس کر پڑتا ہے جھیلنا
زرا زبان پھسلی تو پکڑ لیتی ہے بیلنا
۔
تنخواہ ملتے ہی اسے تھما دیتا ہوں
اک اک چیز کا اب حساب دیتا ہوں
۔
جب جب ہمیں وہ پکارتی ہے زریاب
بھاگ کر کہتے ہیں جی حاضر جناب
گھر کے کام پہلے سے زیادہ کرتا ہوں میں
۔
زوجہ کی ہر بات پر کہتا ہوں جی جی
اپنا تو بن گیا ہے تکیہ کلام جی جی
۔
ان کا غصہ بھی ہنس کر پڑتا ہے جھیلنا
زرا زبان پھسلی تو پکڑ لیتی ہے بیلنا
۔
تنخواہ ملتے ہی اسے تھما دیتا ہوں
اک اک چیز کا اب حساب دیتا ہوں
۔
جب جب ہمیں وہ پکارتی ہے زریاب
بھاگ کر کہتے ہیں جی حاضر جناب
وزن کم کرنے کے زریابی نسخے ۔۔۔۔
کھانا کھانے سے ایک گھنٹے پہلے آنکھیں بند کرکے لیٹ جائیں اور تصور کریں کہ آپ ایک جم میں ہیں اور روزانہ پندرہ منٹ ایکسر سائز کریں ٹھیک دس سے بیس دن میں آپ کو وزن کم محسوس ہوگا
۔
جب بھی کسی فنکشن میں جائیں یا فیس بک پر پکچر اپلوڈ کریں تو کسی اپنے سے موٹے بندے کا انتخاب کریں اس کے ساتھ تصویر کھنچوائیں کوئی آپ کو موٹا نہیں کہے گا بلکہ سمارٹ کہے گا۔
۔
ایسا آئینہ خریدیں جو چہرے سے چھوٹا ہو اس میں جب خود کو دیکھیں گے تو موٹاپے کا کبھی احساس نہیں ہوگا
۔
ہمیشہ اپنی پسند کی خوراک کھائیں لیکن اس کو جلدی جلدی حلق سے اتاریں اس طرح وہ ہضم نہیں ہوگا اور وزن بھی نہیں بڑھے گا
۔
کمزور لوگوں کا مذاق اڑائیں اس طرح جب وہ دل سے بد دعا دیں گے کہ تمھارا بھی وزن میرے جیسا ہو جاۓ تو اس سے جلدی وزن کم ہو سکتا ہے
عوام اور اپریل فول
پاکستان وہ ملک ہے جب سے وجود میں آیا تب سے ہی جرنیل اور سیاستدان عوام کو فول بنا رہے ہیں ، ہمیں اپریل فول منانے کی ضرورت ہی کبھی محسوس نہیں ہوئی ، اب تو یہ حال ہے کہ عوام فول در فول ہو رہے ہیں، اس بات سے اندازہ لگائیں کہ جب کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو حکمران کہتے ہیں دہشتگرد کبھی اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہوں گے ، حیرانگی ہوتی ہے کہ دہشتگرد تو اپنا کام پوراکر چکا تو یہ حکمران کون سے عزائم کی بات کرتے ہیں، پہلے کہتے تھے دہشتگرد وزیرستان میں ہیں تو وہاں آپریشن ہوگیا پھر ضرب عضب شروع ہوگیا اور کہا گیا کہ بس دہشتگردوں کی کمر توڑ دی اب دوبارہ دھماکہ ہوا تو پنجاب میں آپریشن شروع ہوگیا جس طرح حکمران نوٹس پر نوٹس لیتے ہیں اسی طرح جرنیل آپریشن پر آپریشن کرتے ہیں لیکن فرق بالکل بھی نہیں پڑتا الٹا عوام کو ہی نقصان ہوتا ہے حالیہ پنجاب آپریشن میں گھر گھر سے کرائے داروں کو کرایہ نامہ جمع نہ کروانے پر تھانے بند کیا جا رہا ہے گویا دہشتگردوں کی بجائے عوام ہی قابو میں آئے ہیں اور پولیس کی چاندی بھی ہو رہی ہے ان بے چاروں کو چھڑوانے کیلئے لوگ ضمانت کیلئے مارے مارے پھرتے ہیں ، اس ملک میں صرف تین طبقے محفوظ ہیں ایک حکمران دوسرا فوج اور تیسرا چور طبقہ اس کے علاوہ سب کی ایسی کی تیسی ہو رہی ہے
دو قومی نظریہ
بڑوں سے سنا ہے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا، کسی مولانا سے پوچھو تو کہتا ہے اسلام کے نام پر بنا لیکن اگر حالت دیکھو تو لگتا ہے کہ بس یہ حکمرانوں، جرنیلوں اور چوروں کیلئے بنا ہے، ملک کا آئین انگریزوں نے بھیک میں دیا اس کے بعد اس کو تھوڑا اسلامی کرنے کی کوشش کی گئی اور اسلامی دفعات شامل کردی گئیں لیکن انگریز کا زہر پھر بھی باقی رہا، اگر تو یہ ملک دو قومی نظریہ پر بنا تھا تو یہاں پچھلے 69 برسوں کے بعد بھی بھارت کا ہی کلچر نظر آتا ہے گویا دو قومی نظریہ صرف نام کا ہی تھا اس پر عملی طور پر بعد میں کوئی کام نہیں کیا گیا اور اگر یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تو جناب یہاں اسلام کا صرف نام ہی لیا جاتا ہے اس پر عمل کم ہی کیا جاتا ہے، اس ملک کے قانون میں ایک قباحت یہ ہے کہ اقتدار میں رہنے والے کو عدالت سے استثنی حاصل ہے وہ جتنے مرضی جرم کرے کوئی پوچھ نہین سکتا لیکن عوام جواب دہ ہے اور اسے سزا بھی ہوگی، جس ملک میں حکمران طبقہ عیاشی کرے اور عوام کو دھر لیا جائے اس ملک میں کیا خاک امن قائم ہوگا، سونے پر سہاگہ یہ کہ فوجی جرنیل جمہوری عدالت میں پیش نہیں ہو سکتا اس کا اپنا الگ نظام ہے گویا سب نے اپنے آپ کو بچانے کا بندو بست کر رکھا ہے جبکہ اسلامی نظام میں بڑا چھوٹا سب جوابدہ ہیں، حکمران ، جرنیل اور عوام سب قانون کی نظر میں برابر ہیں ، دولت کی تقسیم بھی انصاف پر مبنی کی جائے گی لیکن آج کے حکمران اور جرنیل یہ جانتے ہیں کہ اسلام نافذ ہوا تو وہ بھی قانون کی زد میں آئیں گے، اس لئے وہ کبھی یہ نظام نافذ نہیں ہونے دیں گے
۔
۔
عقل اور وحی
اسلام کی ساری بنیاد وحی پر ہے جبکہ سائنس ساری عقل پر چلتی ہے ، وحی قیامت تک غلظ نہیں ہوگی لیکن عقل وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تحقیق بدلتی رہتی ہے ، انسان کی تخلیق کیسی ہوئی کیسے اس دنیا میں بھیجا گیا سب جانوروں کے جوڑے ساتھ تھے یہ سب ہم کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اللہ ان پر وحی نازل کرتا تھا لیکن سائنس ایڑی چوٹی کا بھی زور لگا لے عقل سے کبھی ثابت نہیں کرسکتی وہ ٹامک ٹوئیاں ہی مارتی رہے گی، آب زم زم کیا ہے آج تک سائنس اس کو سمجھ نہیں سکی، حرام کھانے سے انسان پر کیا اثرات پڑتے ہیں سائنس یہ کبھی جان نہیں سکتی ایک شخص رشوت کے پیسوں سے برگر کھائے ایک شخص حلال کے پیسوں سے برگر کھائے عقل کبھی یہ نہیں بتا سکتی کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے انسانی عقل کی ایک حد ہے جبکہ وحی کا علم بہت وسیع ہے جو لوگ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا کو بنانے والا کوئی نہیں ان سے بڑا اس دنیا میں بے وقوف کوئی نہیں
چوہا اور چھپکلی
شوہر سے زیادہ خوش نصیب تو چوہا اور چھپکلی ہین جن کو دیکھ کر بیوی کم سے کم خوف تو کھاتی ہے
وگ اتنے تنہا کیوں ہیں ۔۔۔
پہلے لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے بات چیت کرتے تھے ، گھومنے جاتے تھے ایک خوبصورت زندگی تھی ، بچے والدین کے ساتھ گھر میں گیمز کھیلتے تھے کہانیاں سنتے تھے خوب ہلا گلا ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے اب ہم اپنے جذبات کو گھر والوں کے ساتھ شیئر کرنے کی بجائے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں ، فیس بک پر بہت کم لوگ ہوں جو اس کو استعمال کرنے سے خوش ہوتے ہیں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو تنہائی کا شکار ہیں اور جب ایسے لوگ فیس بک پر فیلنگ کا سٹیٹس شیئر کرتے ہیں ، کوئی اداس ہے کوئی کوئی ڈپریس ہے کوئی پریشان ہے، انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس طرح ان کی پریشانی کم ہوجائے گی، سوشل میڈیا پر سب سے بڑا دھوکہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ دوسرے کتنے خوش ہیں کاش میں بھی ان کی طرح ہوتا ،،، اللہ نے حضرت آدم علیہ سلام کو بنایا تو ان کیلئے اماں حوا علیہ سلام کو بنایا ،، عورت کی تخلیق صرف نسل کیلئے نہیں تھی بلکہ ایک دوسرے کے سکون کیلئے بھی تھی پھر خاندان بنے اور بڑھتے چلے گئے جب تک لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے ،، ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے تھے تو ڈپریشن جیسی بیماری بہت ہی کم تھی کسی کسی کو ہوا کرتی تھی لیکن پھر لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے اور ٹیکنالوجی کے جال میں پھنستے گئے ، ٹی وی ، موبائل اور انٹرنیٹ آنے کے بعد لوگ بالکل ہی دور ہوگئے، انسان کو صرف انسان کے پاس بیٹھنے سے ہی خوشی ملتی ہے جب ہم کسی کو ہنستا دیکھتے ہیں، اس کو چھیڑتے ہین کسی سے گلے ملتے ہیں تو ہمارے اندر جینے کی امنگ زندہ رہتی ہے لیکن آج ہم سوشل میڈیا پر چیٹنگ کرکے مسکرانے کا کارٹون بنا دیتے ہیں ، شرمانے کا کارٹون بنا دیتے ہیں ہمارے اپنے چہرے کے تاثرات ہی ختم ہونے لگ گئے ہیں، انسان مشین کے استعمال سے مشین بنتا جا رہا ہے ، وہ محبتیں وہ خوشیاں سب کہیں گم ہو رہی ہیں ، ابھی بھی وقت ہے سوشل میڈیا کو بہت کم وقت دیں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو زیادہ وقت دیں جو آپ کے اپنے ہیں ، چھٹیوں پر جائیں، کہیں گھوم کر آئیں، والدین کے پاس بیٹھیں ، بچوں کو وقت دیں ، بیوی کو وقت دیں کیونکہ انہی کے ساتھ آپ کو اصلی خوشی ملے گی
لبرل پاکستان
اسلام کے نام پر بننے والا یہ پاکستان 80 کی دھائی تک تو بہت کمال رہا زندگی میں اسلام بھی تھا سوچ لبرل بھی تھی فیشن بھی تھا حیاء بھی تھی پھر یوں ہوا کہ ضیاء الحق صاحب کو کھجلی ہوئی یہ کوئی انوکھی بات نہیں جب سے پاکستان بنا ہے جرنیلوں کو آج تک کھجلی لگی ہے تو جناب انہوں نے مارشل لاء لگایا اور ڈنڈے کے زور پر اسلام نافذ کردیا اکلوتا چینل پی ٹی وی تھا اینکرز کے سر پر ڈوپٹہ آ گیا نصاب بدلہ لیکن چونکہ ڈنڈے کے زور پر نافذ ہوا تو اس کے ری ایکشن میں لوگ ظاہر سے تو دیندار بن گۓ لیکن باطن نہ بدل سکا سلسلہ یوں ہی چلا پھر نواز شریف کا دور آیا اس وقت مشرف کو کھجلی ہوئی اور اس نے ڈنڈے کے زور پر قوم کو لبرل بنانے کی کوشش کی اور عوام جو پہلے ہی نہ ادھر کے رہے تھے نہ ادھر کے وہ بالکل ہی فارغ ہوگۓ نتیجہ یہ نکلا کہ انتہا پسندی بڑھی ساتھ ساتھ لبرل ازم بڑھا، دہشتگردی بڑھی تو ساتھ فحاشی بھی بڑھ گئی ، نصاب پھر بدلا لیکن نئی نسل احمق کی احمق ہی رہی کیونکہ اس کی تربیت کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی اب یہ حال ہے یہاں کے علماء کی اکژیت عقل سے پیدل ہوچکی ہے عوام ویسے ہی بے چاری پیدل ہے اب دہکھتے ہیں کھجلی کس کو ہوتی ہے
اشارے
رات کے وقت سبز اشارے کو سرخ اور سرخ اشارے کو سبز سمجھنے والے ہی حادثات سے محفوظ رہتے ہیں جو ٹریفک قوانین پر عمل کرتے ہیں بے موت مارے جاتے ہیں
۔
۔
یوم شہدا
پاکستان میں آئے روز یوم شہدا منانے کی روایت ڈال کر لوگوں کو زندوں کی بجائے مردوں سے محبت کرنے کی عادت ڈالدی گئی ہے، بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ شہدا کا خون رنگ لائے گا لیکن کب اور کیسے لائے گا اس کا کسی کو پتہ نہیں سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ شہدا کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لگتا ہے ایک دن اس ملک کا نام پاکستان کی بجائے شہید ستان رکھنا پڑے گا
Subscribe to:
Posts (Atom)