Tuesday, October 21, 2014

کاش کے وہ وقت پھر لوٹ آئے......... زریاب شیخ

اے نازنین ، مہ جبیں، دل نشیں، تم کو پتہ ہےوہ پہلی رات، وہ ہماری حسیں ملاقات، چھت پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ تمھاری وہ ہنسی ، میرے دل میں جو آج بھی ہے بسی، وہ تمھاری زلفوں کا ہوا میں لہرانا، اف کیا ادائیں تھی تمھاری  جانِ جاناں، کیسے بھول سکتا ہوں وہ پہلی نظر جو مجھ پر پڑی، ، دل کی دھڑکن میری رک سی گئی، تمھارا ایک دم سے نظریں جھکانا اور میرا ہلکا سا مسکرانا، انار کی طرح گال تمھاراے ہو گئے تھے لال اور میرا برا ہو رہا تھا حال، کیسے بھولوں گا میں وہ دن جب پہلے بار تمھارا ہاتھ پکڑا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ مرتے دم تک یہ ہاتھ نہ چھوڑوں گا کبھی نہ تجھ سے منہ موڑوں گا ، تمھارا میری گود میں سر رکھ کر مجھ کو تکتے رہنا، مجھے ہر وقت جان جان کہنا ، وہ وقت میں کیسے بھول سکتا ہوں جب تم گھونگھٹ میں میرے سامنے بیٹھی تھی، وہ تمھارا شرمانا اور میرا مسکرانا، وہ تمھاری قاتل ادائیں کیسے بھول سکتا ہوں، مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب تمھاری آنکھیں بھیگ رہی تھیں ، تمھارا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا وہ تمھارا مجھے آخری بار جی بھر کر دیکھنا کیسے بھول سکتا ہوں ، ، آج تم میرے پاس نہیں بس یادیں ہیں ، انہی یادوں میں ڈوبا میں ہر روز بستر پر اکیلا سو جاتا ہوں ، کیسے بھول پاوں میں تمھیں جاناں، تم سے محبت کی ہے ، محبت کی ہے ، تم نے مجھے دھوکہ دیا، تم تو کہتی تھی ساتھ جی ایں گے ساتھ مریں گے، کہا گیا تمھارا وہ وعدہ بولو کہاں گیا ، مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر تم کہاں چلی گئی، اک بار آؤ نہ لوٹ آؤ نہ ، بن تیرے اے جاناں اب دل لگتا نہیں ، کہاں جاؤں ، اس دل کو کیسے سمجھاؤں ، کاش کہ وہ وقت پھر لوٹ آئے، کاش کے تجھ کو پھر دیکھوں ، تجھ سے پھر پیار ہو جائے ، کاش کہ وہ دن لوٹ آئے۔

۔
پرنس کی کتاب"میرا 25واں عشق" سے اقتباس

No comments:

Post a Comment