پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت کو کھانے کا شوق ہے اور جو باقی بچتے ہیں ان کو پکانے کا شوق ہے، کچھ لوگ دوسروں کا دماغ کھاتے ہیں اور کچھ لوگ دوسروں کو پکاتے ہیں ،بعض ٹھوکر کھاتے ہیں اور بعض تو زندگی بھر ٹھوکریں کھاتے ہی رہتے ہیں، اکثر زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں اور اکثر صرف اس لئے کھاتے ہیں کہ کہیں وہ اپنا آخری کھانا تو نہیں کھا رہے ہیں، کھانا انسان کے مزاج کو تبدیل کرتا ہے، اگر کوئی بہت چکنائی والی چیزیں کھاتا ہے تو وہ بڑا چکنا ہو جاتا ہے ان کو ہم آج کے دور میں ممی ڈیڈی نسل بھی کہتے ہیں ، کچھ لوگ صرف دال روٹی کھاتے ہیں ایسے لوگ جب کسی کی شادی میں جاتے ہیں تو گوشت پر خودکش حملہ کردیتے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو گوشت بھی کھاتے ہیں ، دال روٹی بھی کھاتے ہیں، سبزی بھی کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اوپر کی کمائی خوب آرہی ہے، کچھ تو کھاتے کم اور پکاتے زیادہ ہیں ایسے لوگ خود تو کھاتے نہیں دوسروں کو بھی کھاتا نہیں دیکھ سکتے ہیں اور پاکستان میں ایسی لوگوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، زندگی میں خوش رہنے کا صرف ایک اصول ہے کہ خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو اس سے نہ صرف اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ رزق بھی بڑھتا ہے ، اسی نیک اور دینی سوچ کہ ساتھ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کی طرف سے کھانے کی دعوت قبول کرتا ہوں کیونکہ میں ایک غریب انسان ہوں۔
۔
نوٹ:- یہ آرٹیکل مصنف نے آئی فون 6 سے لکھا ہے جو وہ کچھ دیر پہلے ہی خرید کر لائے ہیں
۔
پرنس کی کتاب"شرماتا جا کھاتا جا" سے اقتباس
۔
نوٹ:- یہ آرٹیکل مصنف نے آئی فون 6 سے لکھا ہے جو وہ کچھ دیر پہلے ہی خرید کر لائے ہیں
۔
پرنس کی کتاب"شرماتا جا کھاتا جا" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment