بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو والدین کیلئے کسی کھلونے سے کم نہیں ہوتا ، ماں کو بچے کے ساتھ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا، کب دن اور کب رات ہوتی ہے اک لمحہ لگتا ہے، بچہ جب بڑا ہونے لگتا ہے تو اسے کھیلنے کیلئے والدین کھلونا لا کر دیتے ہیں اور وہ ان سے کھیل کر بہت خوش ہوتا ہے جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے کھلونا بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے ،بچہ کھیلتے کھیلتے جوان ہو جاتا ہے لیکن کھیلنے کا شوق اس کا کم نہیں ہوتا ، بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو والدین ان سے کھیلتے ہیں لیکن اکثر بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو والدین کو بھول جاتے ہیں، جو بچہ والدین کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے وہ عید کا چاند بن کر رہ جاتا ہے، ہر دور میں نوجوان کچھ نہ کچھ کھیلتے ہی رہتے ہیں ، جس طرح آج کے دور میں نوجوان سب سے زیادہ موبائل سے کھیلتے ہیں، دن ہو یا رات جو ہاتھ کسی زمانے میں لکھنے کیلئے استعمال ہوتا تھا اب ایس ایم ایس کرنے اور سوشل میڈیا کیلئے استعمال ہوتا ہے جب سے انٹرنیٹ تک رسائی عام ہوئی ہے لوگوں نے کھلونوں کی بجائے دلوں سے کھیلنا شروع کردیا ہے، کھلونا ٹوٹ جائے تو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن دل ٹوٹ جائے تو کھیلنے والے کو بھلے فرق نہ پڑے لیکن جس کا دل ٹوٹتا ہے اس کو بہت فرق پڑتا ہے،آج کے بچے ہوں یا نوجوان ہوں ان کے پاس اپنے ماں باپ سے کھیلنے کا بالکل وقت نہیں ، جو ماں ساری ساری رات اپنے نچے کو گود میں اٹھائے رکھتی تھی آج اس ماں کے ہاتھ اپنے بچے کے ہاتھ پکڑنے کیلئے ترس جاتے ہیں لیکن وہ موبائل یا سوشل میڈیا پر کسی اور کے ہاتھ تھامنے کیلئے زور لگا رہا ہوتا ہے، ہمیں تب احساس ہوتا ہے جب والدین ہمارے ساتھ نہیں ہوتے، آج کے نوجوانوں کو اپنی اس ماں کو جس کو وہ رات بھی جانو جانو کہتے رہتے ہیں کہ علاوہ اصلی ماں کا بھی خیال کر لینا چاہیئے کیونکہ جو مزہ ماں کی گود میں سر رکھ کر سونے میں آتا ہے وہ محبوبہ کی گود میں سر رکھ کر سونے میں نہیں
آتا۔
۔
پرنس کی کتاب "سوشل دل" سے اقتباس
آتا۔
۔
پرنس کی کتاب "سوشل دل" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment