Friday, October 31, 2014

میں کتاب ہوں کسی اور کی مجھے پڑھتا کوئی اور ہے۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ


فیس بک ایک کھلی کتاب کی مانند ہے، بدقسمتی سے کتاب کھلی ہے لیکن یہاں پر لوگ بھی کچھ زیادہ ہی کھُل جاتے ہیں، بعض لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے اس لئے ایسے لوگوں کے دل کے اندر کا شیطان  فیس بک کے سامنے پوری طرح بیدار ہوجاتا ہے ، فیس بک اصل میں آپ کا اپنا چہرہ ہے ، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ دنیا کے سامنے خود کو کیسے پیش کرتے ہیں، دھوکے باز انسان فیس بک پر بھی دھوکہ ہی دے گا اور ایک اچھا انسان اچھا ہی رہے گا، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ آپ کے سامنے تو بہت اچھے ہیں لیکن فیس بک پر ان کی حرکتیں بہت بھیانک ہوتی ہیں، مثال کے طور پر ایک دوست نے مجھے لڑکی بن کر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی اور میری معصومیت کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کی، یہ تو اللہ کو شکر ہے کہ میں لٹنے سے بچ گیا، فیس بک اور حقیقی زندگی میں کافی فرق ہے،یہاں پر آپ کے دوست تو ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دوست کوئی نہیں ہوتا ، آپ کا سب کے ساتھ ایک الیکڑانک تعلق ہے، کوئی مرگیا تو بس ایک پوسٹ لگا کر اس کو فارغ کردیا جبکہ حقیقی دوست کو اپنے ساتھی کے بچھڑنے کا غم بھی ہوتا ہے اور وہ اسے ہمیشہ یاد بھی رکھتا ہے، فیس بک پر لوگ یا تو کچھ بھی نہیں چھپاتے یا سب کچھ چھپاتے ہیں جو کچھ نہیں چھپاتے وہ اکثر دھوکے بازوں کے ہتھے چھڑھ جاتے ہیں اور جو سب کچھ چھپاتے ہیں وہ کسی کہ بھی نہیں ہوپاتے، کسی کو محبت ملتی ہے کسی کو پیار تو کسی کو دھوکہ اور کسی کو کچھ بھی نہیں ملتا، یہ بک ایک کھلونا ہے جس سے لوگ کھیل کر دل بہلاتے ہیں ، وقت پاس کرتے ہیں ، ایک وقت تھا جب لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے تھے اور وقت گزرنے کا پتہ ہی نہین چلتا تھا اور اب ایسا وقت ہے کہ ایک دوسرے کے قریب تو ہیں اور فیس بک پر وقت گزر جاتا ہے، کوئی ڈپریشن ختم کرنے آتا ہے تو کوئی وقت گزارنے آتا ہے کوئی اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنے آتا ہے تو کوئی اپنے جیون ساتھی سے دور ہونے کی وجہ سے آتا ہے، وقت گزرتا رہے گا لوگ بدلتے رہیں گے اور زندگی کا سفر یوں ہی کٹتا رہے گا ، اس سے پہلے کہ آپ گزر جائیں برائے مہربانی کچھ تو اچھا کر جائیں۔۔۔
۔
پرنس کی کتاب"شرمیلی کتاب" سے اقتباس

تم ڈال ہو چاہے ڈوول ہو... بے بی تم انمول ہو..... زریاب شیخ


بال اور فٹ بال کا آپس میں اتنا ہی گہرا تعلق ہے جتنا چولی کا دامن کے ساتھ ہوتا ہے ، شادی سے پہلے نوجوان بال کی طرح ہوتا ہے ، اچھلتا کودتا ہے، کبھی ادھر جا تو کبھی اُدھر جا ، اور شادی کہ بعد یہ بال سے فٹ بال بن جاتا ہے، کچھ عرصہ میں اس کے ہاں فُٹ فُٹ جتنے بَال ہو جاتے ہیں جن کے دنیا میں آنے کے بعد نہ وہ رات کو ایسے ویسے خواب دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو ایزی لوڈ کروا سکتا ہے ، ظاہر ہے سارا خرچہ نِکے نِکے بَال پر جو خرچ ہو جاتا ہے، کہتے ہیں شادی سے پہلے جو لڑکی باربی اور بے بی ڈال ہوتی ہے وہ پینا ڈال بن جاتی ہے لیکن میری تحقیق کے مطابق ایسا نہیں ہوتا ہاں وہ باربی ڈوول اور بے بی ڈوول ضرور بن جاتی ہے لیکن شوہر کیلئے دل میں محبت کبھی کم نہیں ہوتی، شوہر رات کو چھینک بھی مارے تو ساری رات یہ ڈوول اس کی صحت کیلئے دعائیں کرتی ہے لیکن اگر بچہ رات کو رو پڑے یا بیگم ہی کو غلطی سے چھینک آجائے تو فٹ بال کو ٖغصہ چڑھ جاتا ہے اور دو چار سنا کر سو جاتا ہے ، باربی ڈال ہے یا ڈوول ہے لیکن بیوی کے روپ میں بہت انمول ہے، بَال سے فٹ بَال بننے کیلئے مرد کو کچھ نہیں کھونا پڑتا لیکن ڈال سے ڈوول ہونے کیلئے لڑکی کو اپنا گھر، اپنے ماں باپ، اپنا سمجھ کچھ چھوڑنا پڑتا ہے جو پہلے بال کے ساتھ کھیلتی تھی پھر فٹ بال کے ساتھ کھیلتی ہے لیکن اس کیلئے یہ فٹ بال ہی اس کی زندگی ہے، اس لئے میری فٹ بال حضرات سے اپیل ہے کہ وہ اپنی پینا ڈال کو پیتل کی نہ سمجھیں سونے کی ہی سمجھیں ، یہ ڈال صرف خوش نصیبوں کو ہی ملتی ہے اللہ سب کنواروں کو جلدی فُٹبال بنائے ۔۔۔۔ آمین
۔
پرنس کی کتاب"بے بی ڈاواں ڈوول" سے اقتباس

Wednesday, October 29, 2014

مرچیں کھائیں مگر مرچیں نہ لگائیں ، بڑی مہربانی....... زریاب شیخ

کھانے میں مرچیں نہ ہوں تو کھانے کا لطف ہی نہیں آتا اور اگر باتوں میں مرچیں ہوں تو سننے والے کا بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے ، اکثر لوگ بات ایسی کرتے ہیں کہ سنتے ہی مرچیں لگ جاتی ہیں، جس طرح کھانے میں مرچوں کو بیلنس رکھنا ایک فن ہے اسی طرح لفاظی میں مرچوں کا استعمال اگر متوازن طریقے سے کیا جائے تو بات بھی چٹ پٹی ہوجاتی ہے اور سننے والے کو مرچیں لگنے کی بجائے لطف آتا ہے ، بعض لوگوں میں یہ بیماری ہوتی ہے کہ وہ بات ہی ایسی کرتے ہیں کہ مرچیں لگ جاتی ہیں اور پھر وہ تماشہ دیکھتے ہیں اور لوگ آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں، ہمیں ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیئے جس سے دوسروں کو مرچیں لگیں بلکہ میٹھے لفطوں کا استعمال کریں تاکہ لوگ آپ سے دور ہونے کے بجائے قریب ہوں ، یہ نصیحت خواتین کیلئے نہیں ہے کیوں کہ وہ میٹھے بول بولیں تو مرد حضرات کے نہ صرف لٹو ہونے بلکہ زیادہ ہی قریب ہونے کا خدشہ ہے، سائنس کہتی ہے کہ بعض اوقات مرچیں کچھ کہے بغیر بھی لگ جاتی ہیں جیسے اگر بہو بہت اچھی ہے اور شوہر اس کا بڑا خیال رکھتا ہے تو ساس کو مرچیں لگ جائیں گی، اگر شوہر اپنی بیوی کی بجائے اپنے موبائل کو زیادہ دیکھے تو بیوی کو مرچیں لگ جائیں گی، بعض اوقات کچھ نہ کہا جائے تو مرچیں لگ جاتی ہیں جیسے اگر بیوی کھانا اچھا پکائے، اچھے کپڑے پہنے اور شوہر تعریف نہ کرے تو بیوی کو کافی زیادہ مرچیں لگتی ہیں، شوہروں سے گزارش ہے کہ اپنی اکلوتی بیویوں کا خیال رکھیں کیوں کہ آج کل شادی ہو جانا بڑی غنیمت ہے، جس طرح مرچوں کی زیادتی صحت کیلئے نقصان دے ہے اسی طرح زبان سے نکلے لفظوں میں مرچیں رشتوں میں دراڑ ڈال دیتی ہیں۔
۔
پرنس کی کتاب" ٹھنڈی مرچیں" سے اقتباس

بھائی مت کہو صرف جان کہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

دل جسم کا بہت نازک حصہ ہے یہ کانچ کی چوڑی اور دھاگے سے بھی زیادہ نازک ہوتا ہے، سائنس کہتی ہے کہ دل ٹوٹنا صرف محاورہ ہی نہیں ہے واقعی ہی میں دل ٹوٹ سکتا ہے ، ایک سروے کے مطابق ہر روز ہزاروں لڑکوں کا دل اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب کوئی لڑکی ان کو بھائی کہتی ہے، لڑکیوں کی اکثریت چونکہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اس لئے فوراً اس لڑکے کو بھائی بنا لیتی ہے جس کے فری ہونے کا خطرہ ہواور باز اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو پسند کرتی ہے اس سے بھی خوبصورت لڑکا زندگی میں آجاتا ہے اور اپنے محبوب کو خوش رکھنے کیلئے مجبورا ً اس کو پھر خوبصورت لڑکے کو بھائی بنانا پڑتا ہے ، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر لڑکی کو الطاف بھائی اور منا بھائی کے علاوہ سارے بھائی پسند ہوتے ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ لڑکیوں کی اکثریت ابھی تک کنواری ہے، پاکستان میں اتنے محبوب نہیں جتنے بھائی ہیں، اسلام میں منہ بولے بھائی کا کو تصور نہیں، دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر لڑکے جو پہلے بھائی بنے وہ بعد میں شوہر بن گئے اس سے فرق تو نہیں پڑتا لیکن بھائی کے تقدس بھرے رشتے کی بدنامی ہوتی ہے ، مصنف کو بھی کوئی لڑکی آئندہ سے بھائی جان مت کہے ، خالی جان کہہ لے تو زیادہ ٹھیک ہے ، اس سے مصنف کی گرتی صحت پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔
۔
پرنس کی کتاب"مجازی بھائی" سے اقتباس

Tuesday, October 28, 2014

میرے بچوں کی ماں تجھے سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

پودے کو جس طرح جینے کیلئے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح انسان کو جینے کیلئے پیار کی ضرورت ہوتی ہے، پیار کی کئی قسمیں ہوتی ہیں ان میں سب سے اچھا ماں کا پیار ہوتا ہے جو آپ کے بچوں کی ماں آپ سے کرتی ہے ، اس ماں کی قدر کرنی چاہیئے، بعض لوگوں کے پاس جب یہ ماں آجاتی ہے تو وہ کنواروں کو بڑے غرور سے دیکھتے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ سے اکثر کنوارے راتوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں اور اللہ سے شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے دوست کو تو سولی پر چڑھا دیا ابھی تک ہماری قسمت میں کوئی لڑکی ہی نہیں آئی، آپ حیران ہونگے کہ بچوں کی ماں کی قسمت بھی عجیب ہے شادی کی پہلے رات منہ دکھائی ملتی ہے ، شوہر خوشی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہتا ہے اور بعد میں وہ بے چاری بہت کوشش کرتی ہے لیکن پھر شوہر کے پاس اس کی طرف دیکھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا، شروع شروع میں مصنف نے بھی ایسا ہی کیا تھا لیکن جوتے کھانے کے بعد اب سیدھا ہو چکا ہے، یہ زندگی بہت قیمتی ہے اور ہمارے رشتے بھی بہت قیمتی ہیں اس لئے ہمیں اپنے رشتوں کو مضبوط کرنا چاہیئے ایسا نہیں کرنا چاہیئے کہ اپنے بچوں کی ماں کو چھوڑ کر کسی کے بچوں کی ماں کی طرف توجہ دیں اس لئے مری شادی شدہ افراد سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ماں کی قدر کریں اور غیر شادی شدہ افراد سے اپیل ہے کہ وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے چاہے وہ موٹی ہو یا پتلی ۔۔۔ شکریہ 
۔
پرنس کی کتاب"اوئی ماں" سے اقتباس

Friday, October 24, 2014

دل نیک ہو ،نیت صاف تو ہو انصاف ،کہے ... زریاب شیخ

دنیا میں سب سے زیادہ نیک لوگ پاکستان میں پائے جاتے ہیں ہر گلی محلے میں نیک لوگ موجود ہیں اور ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ، ان لوگوں کے پاس کوئی اسلامی ڈگری نہیں ہوتی ، ان میں کم علم بھی ہیں اور بڑی تعداد پڑھے لکھے جاہلوں کی بھی شامل ہے ،ایسے لوگوں کی منطق ہی نرالی ہوتی ہے، اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے سے ہنس کر بات کر رہی ہوگی تو اس پر فتوے لگ جائیں گے، لڑکی تو ایسی ہے ،اس کو شرم نہیں آتی، ایسی لڑکیوں کو تو مار دینا چاہیئے وغیرہ وغیرہ، اگر لڑکیوں نے جین پہن لی ہے تو بس پھر خیر نہیں، گویا کسی حال میں بھی ان کے اندر کا نیک انسان ان کو چین نہیں لینے دیتا، اگر آپ کی داڑھی ہے اور آپ غلطی سے حسِ مزاح رکھتے ہیں تو کوئی داڑھی کا واسطہ دے گا تو کوئی شریعت پر لیکچر دے گا، غرض ایک باریش آدمی یہ ہی سمجھے گا کہ شاید وہ دنیا کا سب سے بُرا آدمی ہے،اگر فیس بک پر کسی لڑکی سے ہنس کر بات کرلی جائے تو گویا قیامت ہی آگئی ، خود کلین شیو ہوکر پاکستان سے افریقہ تک کی لڑکیوں کو لائن ماریں گے لیکن اگر کسی باریش انسان نے لائن ماردی تو ایسے اُس پر جھپٹیں گے جیسے شادی کے موقع پر لوگ بوٹیوں پر حملہ کرتے ہیں، کسی کو برا بھلا کہنے کا اختیار صرف ان ہی نیک لوگوں کہ پاس ہوتا ہے اگر باریش انسان نے کوئی اچھی بات کہہ دی تو بھی اگر ان ک دماغ کے مطابق نہیں تو طرح طرح کے الزامات لگ جائیں گے اور اگر کوئی غلط بات کہہ دی تو اس کو دوزخ تک پہنچا کر ہی آئیں گے بلکہ بعض کا بس چلے تو دھکہ ہی دے کر آجائیں، یہ لوگ زندگی میں کچھ نہیں کر سکتے لیکن ان کو تنقید کرنے کا بہت ہی شوق ہوتا ہے یہ لوگ جب تک تنقید نہ کرلیں کسی کی اچھی طرح بے عزتی نہ کردیں ان کی روٹی ہضم نہیں ہوتی اور کوئی ان کو برا کہہ دے تو یہ اپنے آپ کو فرشتہ صفت انسان ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں گے لیکن کبھی اپنی غلطی نہیں مانیں گے کیونکہ ان کا " کاں ہمیشہ چِِِٹِا" رہتا ہے ۔
۔
پرنس کی کتاب"نیک شیطان" سے اقتباس

Tuesday, October 21, 2014

کاش کے وہ وقت پھر لوٹ آئے......... زریاب شیخ

اے نازنین ، مہ جبیں، دل نشیں، تم کو پتہ ہےوہ پہلی رات، وہ ہماری حسیں ملاقات، چھت پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ تمھاری وہ ہنسی ، میرے دل میں جو آج بھی ہے بسی، وہ تمھاری زلفوں کا ہوا میں لہرانا، اف کیا ادائیں تھی تمھاری  جانِ جاناں، کیسے بھول سکتا ہوں وہ پہلی نظر جو مجھ پر پڑی، ، دل کی دھڑکن میری رک سی گئی، تمھارا ایک دم سے نظریں جھکانا اور میرا ہلکا سا مسکرانا، انار کی طرح گال تمھاراے ہو گئے تھے لال اور میرا برا ہو رہا تھا حال، کیسے بھولوں گا میں وہ دن جب پہلے بار تمھارا ہاتھ پکڑا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ مرتے دم تک یہ ہاتھ نہ چھوڑوں گا کبھی نہ تجھ سے منہ موڑوں گا ، تمھارا میری گود میں سر رکھ کر مجھ کو تکتے رہنا، مجھے ہر وقت جان جان کہنا ، وہ وقت میں کیسے بھول سکتا ہوں جب تم گھونگھٹ میں میرے سامنے بیٹھی تھی، وہ تمھارا شرمانا اور میرا مسکرانا، وہ تمھاری قاتل ادائیں کیسے بھول سکتا ہوں، مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب تمھاری آنکھیں بھیگ رہی تھیں ، تمھارا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا وہ تمھارا مجھے آخری بار جی بھر کر دیکھنا کیسے بھول سکتا ہوں ، ، آج تم میرے پاس نہیں بس یادیں ہیں ، انہی یادوں میں ڈوبا میں ہر روز بستر پر اکیلا سو جاتا ہوں ، کیسے بھول پاوں میں تمھیں جاناں، تم سے محبت کی ہے ، محبت کی ہے ، تم نے مجھے دھوکہ دیا، تم تو کہتی تھی ساتھ جی ایں گے ساتھ مریں گے، کہا گیا تمھارا وہ وعدہ بولو کہاں گیا ، مجھے یوں اکیلا چھوڑ کر تم کہاں چلی گئی، اک بار آؤ نہ لوٹ آؤ نہ ، بن تیرے اے جاناں اب دل لگتا نہیں ، کہاں جاؤں ، اس دل کو کیسے سمجھاؤں ، کاش کہ وہ وقت پھر لوٹ آئے، کاش کے تجھ کو پھر دیکھوں ، تجھ سے پھر پیار ہو جائے ، کاش کہ وہ دن لوٹ آئے۔

۔
پرنس کی کتاب"میرا 25واں عشق" سے اقتباس

Monday, October 20, 2014

یہ آنکھیں دیکھ کر ہم پہلی والی بھول جاتے ہیں.... زریاب شیخ

آنکھیں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں، اس سے اچھا بُرا سب کچھ دیکھ سکتے ہیں اور جو لوگ بہت شریف ہوتے ہیں وہ POGO بھی شوق سے دیکھتے ہیں ، بعض لوگ اپنی آنکھوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی اسی خوبی پر حساس ادارے ان کو دوسروں پر نظر رکھنے کیلئے بھرتی کرلیتے ہیں ، سائنس سے یہ ثابت ہے کہ عورت کی نظر مرد کی نظر سے تیز ہوتی ہے اگر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی جھوٹ بولے تو وہ فوراً پکڑ لیتی ہے ، اسی لئے آج کی نوجوان نسل کسی بھی لڑکی سے اظہار محبت کرتے ہوئے کالے شیشے لگا لیتی ہے،آنکھوں سے اچھی چیزیں دیکھیں تو اس کا اچھا اثر پڑتا ہے اور اگر بری چیزیں دیکھیں تو دل اور دماغ کے ساتھ ساتھ شکل بھی جلے ہوئے پکوڑے جیسی ہو جاتی ہے،اسلام میں مرد کو نظریں جھکانے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کوئی لڑکا جب کسی حسین لڑکی کو دیکھتا ہے تو اس کے دماغ کے تار فیوز ہوجاتے ہیں اور اگر غلطی سے فردوس عاشق اعوان پر نظر پڑ جائے تو دماغ خراب بھی ہو سکتا ہے، لڑکیاں اس معاملے میں بہت خوش نصیب ہیں وہ کسی مرد کی طرف دیکھیں یا نہ دیکھیں دونوں صورتوں میں نقصان بےچارے مرد کا ہی ہوتا ہے، خواتین آنکھوں سے نہ صرف اظہار محبت کرتی ہیں بلکہ اچھے اچھوں کو بلیک میل بھی کرلیتی ہیں، میرے ایک دوست سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ جب سے شادی ہوئی ہے نقصان ہی ہو رہا ہے تیری بھابھی خوش ہو تو آنسو نکلتے ہیں ناراض ہو تو آنسو نکلتے ہیں دونوں صورتوں میں میری جیب کٹ جاتی ہے،خواتین کو آنکھوں کا دوسرا فائدہ ونڈو شاپنگ ہے، کچھ لینا ہو یا نہیں ونڈو شاپنگ تو کرنی ہی کرنی ہے اور شوہر بے چارا کوہلو کے بیل کی طرح ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے،سیانے کہتے ہیں کبھی بھی اپنی بیوی کے سامنے کسی دوسری عورت کی طرف مت دیکھو وہ نظروں سے چلنے والے تیر آسانی سے دیکھ لیتی ہے ، یہ ان کی آنکھوں کا ہی قصور ہے کہ مجازی خدا کی قمیص پرباریک سے باریک زنانہ بال بھی نظر آجاتا ہے اور اس کے بعد مرد فٹبال بن جاتا ہے، اکثر خواتین جب لڑتی ہیں تو یہ جملہ ضرور بولتی ہیں کہ "میرا بس چلتا تو اس کی آنکھیں ہی نوچ لیتی"۔ آنکھ نہ صرف دیکھنے کے کام آتی ہے بلکہ مارنے کے کام بھی آتی ہے میرے دوست کئی خواتین سے گال اپنے لال کروا چکے ہیں، بیچارے کی آنکھ خود بہ خود بار بار بند ہوتی ہے اور لڑکیاں اس کا کچھ اور مطلب لے لیتی ہیں لیکن اللہ بڑا مہربان ہے اسی آنکھ مارنے کے باعث آج وہ ایک پیاری سی جورو کے غلام ہیں۔
۔
پرنس کی کتاب" پپو آنکھیں" سے اقتباس

Sunday, October 19, 2014

میک اپ سے ان کے کھا ہی گیا دل میرا فریب..... زریاب شیخ

میک اپ کسی زمانہ میں صرف عورتوں کیلئے بہت ضروری ہوتا تھا لیکن اب پھول جیسے نازک مردوں کیلئے بھی ضروری ہوتا جارہا ہے، کئی بار ایسا ہوا ہے کہ لڑکا میک اپ کروانے جاتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو دوست اس کو سیٹیاں مار مار کر چھیڑتے ہیں ، پہلے وقتوں میں میک اپ کرنے کے باوجود عورتوں کی شکل پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا لیکن جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی میک اپ کا سامان بھی جدید آگیا ، ہمارے ایک مرحوم دوست کی شادی ہوئی ، پہلی رات کو جب گھونگھٹ اٹھایا تو اپنی قسمت پر کتنی دیر تک ناز کرتے رہے اور جب صبح نئی نویلی دلہن منہ دھو کر سامنے آئی تو اللہ کو پیارے ہوگئے ، جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے میک اپ کا فن بھی جدید ہو رہا ہے ، میرے ابا جی کے بقول وہ چھوٹے سے تھے جب ٹی وی ڈراموں کی اداکارائیں جوان ہوا کرتی تھیں اور آج ان کے پوتے چھوٹے چھوٹے ہیں اور وہ اداکارائیں آج بھی جوان ہی ہیں، ان کی جوانی کے پیچھے کیا راز ہے وہ آج تک راز ہی ہے ، مرد کی عمر ڈھلنے لگے تو اس کو اتنا مسٗلہ نہیں ہوتا لیکن عورت کے چہرے پر جھریاں پڑنے لگیں تو اس کی راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے کیونکہ اس کو ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اس کا شوہر کسی دوسری لڑکی کی طرف مائل نہ ہوجائے اور اس ڈر کو ختم کرنے کیلئے وہ طرح طرح کی کریمیں اور میک اپ کا استعمال کرتی ہے، آج کل ایسا بھی ہورہا ہے کہ لڑکی دیکھنے میں 26  کی  لگتی ہےاور شادی کے بعد پتہ چلتا ہے کہ 36 کی ہے،  پرانے دور میں مہندی ، کاجل سے ہی عورت انتہائی حسین ہوجایا کرتی تھی لیکن اب اسے طرح طرح کا بناؤ سنگھار کرنا پڑتا ہے، آج وہ اپنی سیرت پر کم توجہ دیتی ہے کیونکہ مرد بھی عورت کا ظاہر دیکھ کر لٹو ہو جاتے ہیں اور سیرت دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے، شاید یہ ہی وجہ ہے کہ لڑکیاں اپنے چہرے حسین بنانے پر مجبور ہیں۔

پرنس کی کتاب" انے واہ میک اپ " سے اقتباس

Friday, October 17, 2014

غصے سے اُٹھ چلے ہو جو دامن کو جھاڑ کر.... زریاب شیخ


غصہ بہت بری بلا ہے یہ کسی وقت بھی آسکتا ہے کبھی کبھی تو خوشی کے موقع پر بھی آجاتا ہے جیسے انسان رات کہ آخری پہر فیس بک پر کسی لڑکی سے دل لگی کر رہا ہو اور اچانک لائٹ چلی جائے تو غصے سے خون کھول اٹھتا ہے کیونکہ بےچاری کا نمبر بھی اس کے پاس نہیں ہوتا، اکثر لوگوں کو ایک دم سے غصہ آجائے گا اس کی مثال بھی آج کے نوجوان کی ہے کہ اچانک بات بات کرتے کرتے کوئی لڑکی اسے بھائی کہہ تو اس کے دل و دماغ پر بجلی گر جاتی ہے یہ تو سب کو معلوم ہے کہ منہ بھولا بھائی کے رشتے کا کوئی وجود نہیں لیکن پھر بھی لڑکیاں دل کی تسلی کیلئے کہہ دیتی ہیں کہ کہیں میرے پیچھے ہی نہ پر جائے، ایک دوست نے کمال کام کیا کہ ایک آی ڈی سے وہ لڑکی ک بھائی بن گئے اور دوسرے سے اسی پر لائن مارتے رہے ، بھائی بن کر وہ اس کی خواہشات پوچھتے رہے اور عاشق بن کر اسی کو سرپرائز دیتے رہے آج وہ میاں بیوی ہیں لیکن بہن بھائی کا فیس بک پر رشتہ ابھی تک نہیں ٹوٹا، کہتے ہیں غصے میں انسان اپنے ہوش و حواس کھو دیتا ہے اور سب سے زیادہ طلاقیں فیس بک پر ٖغصے میں ہی ہوتی ہیں ایک لڑکی غصے میں اپنے محبوب سے دور ہوتی ہے ساتھ ہی دوسرا شکاری اس کی پریشانی کو ہتھیار بناکر اس کی دلجوئی میں لگ جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے محبوب بدل جاتا ہے ، غصے سے انسان نہ صرف اپنے رشتے کھو دیتا ہے بلکہ اپنا بزنس اپنی زندگی سب کچھ تباہ کردیتا ہے ، دل نفرت کرنے کیلئے نہیں صرف محبت کرنے کیلئے بنا ہے اور غصہ دل کیلئے بہت نقصان دہ ہے ،غصہ انسان کو اللہ سے اپنے دوستوں سے اور خون کے رشتوں سے دور کر دیتا ہے ۔

پرنس کی کتاب"Angry Bird" سے اقتباس

Tuesday, October 14, 2014

کھلونا جان کر تم تو میرا دل توڑ جاتے ہو.... زریاب شیخ

بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو والدین کیلئے کسی کھلونے سے کم نہیں ہوتا ، ماں کو بچے کے ساتھ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا، کب دن اور کب رات ہوتی ہے اک لمحہ لگتا ہے، بچہ جب بڑا ہونے لگتا ہے تو اسے کھیلنے کیلئے والدین کھلونا لا کر دیتے ہیں اور وہ ان سے کھیل کر بہت خوش ہوتا ہے جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے کھلونا بھی تبدیل ہوتا جاتا ہے ،بچہ کھیلتے کھیلتے جوان ہو جاتا ہے لیکن کھیلنے کا شوق اس کا کم نہیں ہوتا ، بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں تو والدین ان سے کھیلتے ہیں لیکن اکثر بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو والدین کو بھول جاتے ہیں، جو بچہ والدین کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے وہ عید کا چاند بن کر رہ جاتا ہے، ہر دور میں نوجوان کچھ نہ کچھ کھیلتے ہی رہتے ہیں ، جس طرح آج کے دور میں نوجوان سب سے زیادہ موبائل سے کھیلتے ہیں، دن ہو یا رات جو ہاتھ کسی زمانے میں لکھنے کیلئے استعمال ہوتا تھا اب ایس ایم ایس کرنے اور سوشل میڈیا کیلئے استعمال ہوتا ہے جب سے انٹرنیٹ تک رسائی عام ہوئی ہے لوگوں نے کھلونوں کی بجائے دلوں سے کھیلنا شروع کردیا ہے، کھلونا ٹوٹ جائے تو اتنا فرق نہیں پڑتا لیکن دل ٹوٹ جائے تو کھیلنے والے کو بھلے فرق نہ پڑے لیکن جس کا دل ٹوٹتا ہے اس کو بہت فرق پڑتا ہے،آج کے بچے ہوں یا نوجوان ہوں ان کے پاس اپنے ماں باپ سے کھیلنے کا بالکل وقت نہیں ، جو ماں ساری ساری رات اپنے نچے کو گود میں اٹھائے رکھتی تھی آج اس ماں کے ہاتھ اپنے بچے کے ہاتھ پکڑنے کیلئے ترس جاتے ہیں لیکن وہ موبائل یا سوشل میڈیا پر کسی اور کے ہاتھ تھامنے کیلئے زور لگا رہا ہوتا ہے، ہمیں تب احساس ہوتا ہے جب والدین ہمارے ساتھ نہیں ہوتے، آج کے نوجوانوں کو اپنی اس ماں کو جس کو وہ رات بھی جانو جانو کہتے رہتے ہیں کہ علاوہ اصلی ماں کا بھی خیال کر لینا چاہیئے کیونکہ جو مزہ ماں کی گود میں سر رکھ کر سونے میں آتا ہے وہ محبوبہ کی گود میں سر رکھ کر سونے میں نہیں 
آتا۔ 
۔
پرنس کی کتاب "سوشل دل" سے اقتباس

Sunday, October 12, 2014

میرے محبوب کو جاکر میرا سلام کہنا ............ زریاب شیخ


سلام کرنا ایک انتہائی اچھی عادت ہے اور اس سے محبت بڑھتی ہے، کالج کے زمانے میں جب استاد کی یہ بات سنی تو اس پر سختی سے عمل کا ارادہ کرلیا لیکن حیرانی اس بات پر ہوئی کہ جب بھی میں نے کسی لڑکی کو سلام کیا  وہ "Shut  up" کہہ کر نکل جاتی تھی ، یہ بات  جب میں نے اپنی ہمسائی کو بتائی تو ہنستے ہوئے بولی پگلے مرد کو مرد کے ساتھ سلام دعا رکھنی چاہیے ، لڑکیوں کو دیکھ کر نظریں جھکانا حیا کی علامت ہے ، اس کی یہ بات دل کو ایسی لگی کہ اپنی سے بڑی عمر کی خاتون کو دیکھتے ہی نظریں جھکا لیتا تھا اور آج تک ایک اچھے انسان کی طرح ایسا ہی کر رہا ہوں ، ایک وقت تھا لوگ اپنے بچوں کو بھی سلام کرنا سکھاتے تھے بچہ کسے کی طرف جا کر  گھر والوں سے ہاتھ پہلے ملاتا تھا اور کھانے پینے کی چیزوں پر ہاتھ بعد میں صاف کرتا تھا  لیکن اب حالات بالکل ہی بدل گئے ہیں اب بچہ کسی کے گھر جاتا ہے تو سلام کرنے کا سوچتا بھی نہیں بلکہ اس کی نظریں کچن میں لگی ہوتی ہیں کہ کب کچھ کھانے کو ملے،پرانے وقتوں میں لوگ قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی اس نیت سے مردوں کو سلام کر لیتے تھے کہ ایک دن انہوں نے بھی لوٹ کر یہاں ہی آنا ہے لیکن اب تو لوگ قرستان کے پاس سے بھی ایسے گزر جاتے ہیں جیسے موت کو بالکل خوف ہی نہیں ، انہی سوچوں میں گم گھر کے قریب باغ میں اداس بیٹھا تھا کہ ایک لڑکی مجھے سلام کرکے ساتھ والے بینچ پر بیٹھ گئی اور میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکل رہے تھے ۔
۔
پرنس کی کتاب"سلام عشق" سے اقتباس

دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام.... زریاب شیخ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی اکثریت کو کھانے کا شوق ہے اور جو باقی بچتے ہیں ان کو پکانے کا شوق ہے، کچھ لوگ دوسروں کا دماغ کھاتے ہیں اور کچھ لوگ دوسروں کو پکاتے ہیں ،بعض ٹھوکر کھاتے ہیں اور بعض تو زندگی بھر ٹھوکریں کھاتے ہی رہتے ہیں، اکثر زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں اور اکثر صرف اس لئے کھاتے ہیں کہ کہیں وہ اپنا آخری کھانا تو نہیں کھا رہے ہیں، کھانا انسان کے مزاج کو تبدیل کرتا ہے، اگر کوئی بہت چکنائی والی چیزیں کھاتا ہے تو وہ بڑا چکنا ہو جاتا ہے ان کو ہم آج کے دور میں ممی ڈیڈی نسل بھی کہتے ہیں ، کچھ لوگ صرف دال روٹی کھاتے ہیں ایسے لوگ جب کسی کی شادی میں جاتے ہیں تو گوشت پر خودکش حملہ کردیتے ہیں، بعض ایسے بھی ہیں جو گوشت بھی کھاتے ہیں ، دال روٹی بھی کھاتے ہیں، سبزی بھی کھاتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اوپر کی کمائی خوب آرہی ہے، کچھ تو کھاتے کم اور پکاتے زیادہ ہیں ایسے لوگ خود تو کھاتے نہیں دوسروں کو بھی کھاتا نہیں دیکھ سکتے ہیں اور پاکستان میں ایسی لوگوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے، زندگی میں خوش رہنے کا صرف ایک اصول ہے کہ خود بھی کھاو اور دوسروں کو بھی کھلاو اس سے نہ صرف اللہ خوش ہوتا ہے بلکہ رزق بھی بڑھتا ہے ، اسی نیک اور دینی سوچ کہ ساتھ میں ہمیشہ اپنے دوستوں کی طرف سے کھانے کی دعوت قبول کرتا ہوں کیونکہ میں ایک غریب انسان ہوں۔
۔
نوٹ:- یہ آرٹیکل مصنف نے آئی فون 6 سے لکھا ہے جو وہ کچھ دیر پہلے ہی خرید کر لائے ہیں
۔
پرنس کی کتاب"شرماتا جا کھاتا جا" سے اقتباس

Saturday, October 11, 2014

ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں دور جا بسیں...... زریاب شیخ


خوشی اور غم زندگی کا حصہ ہیں ، ایک ہی کالج میں ایک لڑکا رو رہا ہوتا ہے کہ اس کی گرل فرینڈ اس کے دوست کے ساتھ سیٹ ہو گئی ہے اور دوسری طرف اس کا دوست خوشی منا رہا ہوتا ہے ، بعض اوقات نا انصافی بھی غم کا باعث بنتی ہے اگر آپ کی امیر دوست ایک اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھلانے لے جائے اور آخر میں کہہ دے کہ بل آپ دیں گے تو شدت غم سے انسان مرنے کے قریب ہو جاتا ہے، کہتے ہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے کئی عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر مرد کے غم کے پیچھے بھی کئی عورتوں کا ہاتھ ہوتا ہے، آج کل کی نوجوان نسل ہر وقت غم میں مبتلا نظر آتی ہے ، ایک لڑکے سے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو تو بولا کہ پرنس میں نے بچپن سے ایک لڑکی کو چاہا اس کے خواب دیکھے اور جب اس کو دل کی بات کہنے لگا تو بولی تم تو میرے بھائیوں کی طرح ہو اور یہ کہہ کر وہ  پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ، اس کو غمزدہ دیکھ کر میں نے اس کو دو چار لڑکیوں کہ نمبر دیئے تب کہیں جا کر اس کے آنسو رکے، وہ وقت دور نہیں جب بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کی بجائے گرل فرینڈ ، گرل فرینڈ پکارے گا، اس مہنگائی کہ دور میں جب شادی کرنا بہت ہی مشکل ہوتا جارہا ہے ، گرل فرینڈز کی تعداد بوائے فرینڈز کی تعداد سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ، ایک لڑکے کی کئی کئی گرل فرینڈز ہیں اور ایسا اس لئے ہے کہ اس کہ اپنے گھر میں ایک بہن شادی کیلئے بیٹھی ہے اور کوئی رشتہ نہیں وہ اپنی شادی تو کرنے سے رہا  ، اگر ہم گرل فرینڈز بنانے کی بجائے صحیح رشتہ بنانے کی کوشش کریں تو شاید کتنے ہی گھروں میں موجود لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو جائیں، مصنف نے خود کئی لڑکیوں کے ہاتھ  پکڑے ،اکثریت میں خون کی کمی کی وجہ سے ان کے ہاتھ پیلے ہو چکے تھے اور یہ خون اس وجہ سے کم ہوگیا تھا کہ ان کو گھر میں بوجھ سمجھا جاتا تھا، کتنی عجیب بات ہے کہ سینکڑوں لوگوں کی حسرت ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بیٹی ہو اور پھر ان کی حسرت ہوتی ہے کہ بیٹی کا گھر جلدی بس جائے ، اس بیٹی کی حسرت ہوتی ہے کہ وہ ماں باپ پر بوجھ نہ بنے اور یہ حسرت لے کر آنکھوں میں آنسو لئے روز کتنی ہی لڑکیاں اس دنیا سے چلی جاتی ہیں ، یہ بوائے فرینڈز ، گرل فرینڈز کے رشتوں نے نکاح کے ایک اچھے رشتے تو بے معنی کرکے رکھ دیا ہے ، مصنف اس کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اور اپنی گرل فرینڈ کی گود میں سر رکھ کر گہری نیند سو گیا :D

.
پرنس کی کتاب"میری فرینڈ تیری فرینڈ" سے اقتباس 

Friday, October 10, 2014

زندگی کا سفر ۔۔ HE سے SHE ہونے تک ۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ


اللہ نے کسی کو مرد بنایا تو کسی کو عورت بنایا اور کسی کو بیک وقت دونوں خوبیاں عطا کیں لیکن چونکہ انسان نا شکرا ہے تو بعض لڑکیوں کو لڑکی ہونا اور بعض لڑکوں کو لڑکا ہونا پسند نہیں آیا اور انہوں نے اپنی جنس تبدیل کرلی، بعض تو خوش نصیب ہوتے ہیں کہ رات کو نسرین بن کر سوتے ہیں اور صبح ناصر بن کر اٹھتے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کہ نسرین اگر شادی شدہ ہو تو اس کے شوہر پر کیا بیتے گی، جنس کی تبدیلی کے اس عمل کو اب انٹرنیٹ نے آسان کردیا ہے جس لڑکے کہ اندر زنانہ خوبیاں ہوتی ہیں وہ لڑکی کہ نام سے سوشل میڈیا پر آ جاتا ہے اور جس لڑکی میں مردانہ خوبیاں ہوتی ہیں وہ مرد بن کر اپنے جوہر دکھاتی ہے، اب یہ شکایت عام ہے کہ کسی لڑکے نے اپنی محبوبہ کو " آئی لو یو " کہا اور اس محبوبہ کی بڑی بڑی مونچھیں نکلیں، اللہ نے ہر کسی کو جو بنایا اس پر صبر ، شکر کرنے کی بجائے ایسے لوگ خود کو جنسی طور پر بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، اس طرح کہ عمل سے لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتبار اٹھ جاتا ہے اور اس کا نقصان عام آدمی اور عورت کو ہوتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض لڑکوں کی آواز سن کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ لڑکے ہیں ، ایسی ہی ایک غلط فہمی کا شکار مصنف خود بھی ہوا تھا جب اس کو ایک حسین اور انتہائی گرما دینے والی آواز سے ایک لڑکی نے اپنی طرف مائل کیا اور جب وہ اس سے ملنے گیا تو سامنے اس کا بھینگا دوست منہ چڑا رہا تھا اور اپنے دامن پر یہ داغ لئے مصنف آج بھی یہ ہی سوچتا ہے کہ کاش اس کا دوست لڑکی ہوتا تو کمال ہوتا ۔۔۔۔ آہ کاش۔۔۔۔۔

۔
پرنس کی کتاب"مردانہ گرل فرینڈ" سے اقتباس

Thursday, October 9, 2014

ایک دن پرنس زریاب شیخ کے ساتھ ۔۔۔۔ :)

میں ایک نام نہاد پرنس ہوں جس کی کوئی جاگیر نہیں لیکن میرا دل بہت بڑا ہے اور میں اپنے آپ پر دل کھول کر خرچ کرتا ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ پیسا بچا کر رکھنا کنجوسی کی علامت ہے ، میری شکل دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ کوئی مولوی ہے ، غلطی سے کسی سینما میں چلا جاؤں تو وہاں اپنی بیٹی کے ساتھ عمران ہاشمی کی فلم دیکھنے والا اس کا پیارا باپ بھی مجھے دیکھ کر منہ بنا لیتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ بڑا بےحیا انسان ہے، بچپن سے سنتا آیا ہوں کہ داڑھی رکھنے والے کو کوئی لڑکی نہیں دیتا لیکن یہ میں ہی جانتا ہوں کہ کتنا بڑا جھوٹ ہے بقول ایک لبرل شخص کہ باریش انسان کو تو کوئی لڑکی منہ بھی نہیں لگاتی لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے اس نے بالکل غلط کہا ہے، جب سے میں بالغ النظر ہوا ہوں میری کوشش ہوتی ہے کہ میرا ظاہر اور باطن دونوں صاف رہیں ، میرے ایک عدد منہ سے خوشبو آئے، لوگوں کو میری آنکھوں میں حیا نظر آئے قسم سے بہت ہی پیاری ہمسائی ہے ، اس کا میں بہت خیال رکھتا ہوں کیوںکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمسائی کا خیال رکھنا چاییے بس شرط یہ ہے کہ وہ عمر میں آپ سے تھوڑی چھوٹی ہو ، میرے بال لمبے ہیں جس کا فائدہ بہت ہے بیگم کو کبھی شک نہیں ہوتا اگر میری قمیص پر لمبا بال نظر آجائے، سکول میں تو سبق یاد نہ کرنے پر استاد کان کھینچتے تھے ، کوئی کلاس فیلو لڑکی اچھی لگی تو دوست ٹانگیں کھینچتے تھے ، شادی ہوئی تو بیگم بال کھینچتی ہے ، گویا کھینچا تانی کا عمل ابھی تک رکا نہیں ہے، میں بچپن سے ہی بہت صاف ستھرا ہوں اس لئے ہر چیز دھو کر کھاتا ہوں اور شادی کے بعد میں  کپڑے اور برتن بھی دھو لیتا ہوں ، کبھی کبھی میری ایک عدد بیگم بھی مجھے دھو لیتی ہے، میں بہت حساس ہوں اگر کوئی لڑکی تکلیف میں ہو تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، کھانے کا شوقین ہوں ، تھپڑ، جوتے ، لاتوں کے ساتھ ساتھ اللہ کے فضل سے ہر حلال چیز کھا لیتا ہوں، اپنا خیال رکھیئے گا آپ کا اپنا پرنس بناسپتی گھی ، ہر لڑکی کی پسند ۔۔۔۔۔۔ :P
۔
۔
پرنس کی کتاب "اپنے منہ میاں مٹھو" سے اقتباس