صنف نازک دنیا میں آنے کے بعد سے ہی مشکل کا شکار رہی ہے، پہلا قتل بھی اس بےچاری کی وجہ سے ہوا ، مشرکین بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے اور شوہر مر جائے تو بیوی کو بھی زندہ دفنا دیا جاتا تھا اور یہ صورتحال آج بھی جاری ہے ، یونان میں عورت کی زندگی پاوں کی جوتی سے بھی بدتر تھی ، عورت کو صرف دل لبھانے کی چیز سمجھا جاتا تھا اور جب دل بھر جاتا تو مار کر پھینک دیا جاتا تھا، مغرب نے عورت کو آذادی کے نام پر گھر سے نکالا ، اپنی نظروں کی پیاس بجھانے کیلئے عورت کو ایسا مجبور کیا کہ اسے کم سے کم لباس کی ہی عادت پڑ گئی ، اس کو ایک پراڈکٹ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، کسی امیر شخص کے ساتھ چار پانچ لڑکیاں ہونا فخر سمجھا جانے لگا یہ اور بات ہے کہ اب یہ سب کچھ بھی فیشن بن چکا ہے، اسلام نے عورت کو عزت دی ایک مقام دیا، اس کے سر کو ڈھانپا اس کے جسم کو لباس دیا ، اسے حیادار بنایا لیکن مسلم ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ باہر کی ہوا نے عورت کو پھر بدلنا شروع کردیا ، مغرب کی طرف سے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے تصور نے معاشرے کا نظام خراب کرنا شروع کردیا اور اب تو حال بہت برا ہو چکا ہے، میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا سب جگہ عورت کو صرف اس لئے دکھایا جاتا ہے کہ مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کی جاسکیں ، چلیں مان لیتے ہیں کہ عورت کو آزادی دی گئی ، مردوں کے برابر کام کرنے کے مواقع دیئے گئے لیکن ان سب کا فائدہ بھی مرد کو ہی ہوا، عورت جہاں بھی جاتی ہے آج بھی غیر محفوظ ہے ، بےچاری اگر ماڈرن لباس پہنے تو لوگ اس کا لباس ہی تار تار کردیتے ہیں ، ہنس کر بات کرے تو اس کی مسکراہٹ ہی چھین لیتے ہیں، اگر وہ اعتبار کرکے اپنا سب کچھ کسی کو غلطی سے سونپ دے تو پھر اسے اتنا بلیک میل کیا جاتا ہے کہ خودکشی ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے، بیوہ ہو جائے تو شادی کرنے پر کوئی راضی نہیں ہوتا لیکن ویسے سب کچھ کرنے پر ہر ایک تیار نظر آتا ہے ، ایک لڑکی گھر سے دفتر یا بازار جاتی ہے اور جب واپس آتی ہے تو کتنی بار یہ ہی سوچتی ہے کہ کاش میں لڑکا ہوتی ، مرد نے عورت کو ہمیشہ ایک ڈش ہی سمجھا ہے ، کھانے کے بعد ڈکار ماری اور اگلے دن پھر ایک نئی ڈش کی طلب شروع کردی ، کیا عورت کی قسمت میں صرف مرد کو لبھانا ہی لکھا ہے، کیا عورت کے دل کی کوئی اہمیت نہیں بس جسم ہی کی سب کو ضرورت ہے، کیا اس کی مسکراہٹ کی کوئی قیمت نہیں ، عورت کا اس معاشرے میں وہ حال کردیا گیا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتی ہے سب سے پہلے اس کی عزت پر ہی ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ، موبائل پر لڑکیوں سے دل بھیلا کر ان کی آواز ریکارڈ کرکے بلیک میل کیا جاتا ہے ، فیس بک پر لڑکیوں سے دوستی کرکے گھومنا پھرنا اور پھر ان کے فیس پر ہمیشہ کیلئے کالک مل دینا عام بات ہو چکی ہے ، عورت کا اعتبار اور اعتماد کے نام پر سب کچھ لوٹ لیا جاتا ہے ، اگر گھر والوں کی مرضی پر چلے تو محبوب مار دیتا ہے اگر اپنی مرضی کرے تو گھر والے مار دیتے ہیں اور پتہ نہیں کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، کب تک عورت کی تذلیل ہوتی رہے گی ۔ اللہ کہتا ہے کہ تم میرے بندوں کے عیب چھپاو میں قیامت کے دن تمھارے عیب چھپاوں گا، مان لیتے ہیں کہ لڑکے لڑکیوں سے غلطی ہو جاتی ہے لیکن اگر لڑکے اس غلطی کی تشہیر نہ کریں تو شاید بہت سی زندگیاں بچ چائیں۔
پرنس کی کتاب"مرجھائی ہوئی کلیاں" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment