سزی والا آواز لگا رہا تھا کہ گوبھی لے لو، پیاز لے لو ، آلو لے لو ، ہم نے بھی سوچا چلو یہ اچھا ہوا کہ آپ اپنے دروازے پر سبزی والا آگیا لیکن جناب سبزی بالکل ہمسائی کی طرح سڑی ہوئی تھی ، بڑی مشکل سے کچھ خوبصورت آلو ہاتھ آئے اس وقت وہ ہمیں بالکل اس آم کی طرح لگ رہے تھے جو کیترینہ کیف نے مینگو جوس کے اشتہار میں پکڑا ہوتا ہے، گھر جا کر سبزی رکھی تو بیگم نے آوز لگائی دہی لیتے آو ، ہم حکم بجا لاتے ہوئے دہی والے کی دکان پر جا پہنچے ایک حسین پری زاد وہاں دودھ لینے کیلئے کھڑی تھی، کچھ دیر تک ہم کو یہ خیال ہی نہ رہا کہ شادی شدہ ہیں لیکن کسی کی آواز آئی شیخ صاحب جانے دیں ، اب ہماری باری تو آنے دیں ، لڑکی کے جاتے ہی ہم نے اس نوجوان کو لپک لیا اور بولے اس لڑکی میں ایسی کیا بات ہے جو تمھاری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں تو وہ مسکرایا اور بولا کہ دیکھتے نہیں کتنی حسین تھی ، چہرہ ماہتاب جیسا، گال گلابی اور ایک دم سے ہم نے اسے ٹوکا اور بولے جناب برقع والی کا کیا قصور ہے تو ایک دم بولا کہ نہیں نہیں ، میں حیرت زدہ ہوکر گھر آگیا اور سوچتا رہا کہ سبزی خراب ہو تو کوئی نہیں خریدتا ہے ، کسی چیز کا پیکٹ کھلا ہو تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں لیکن جب بے پردہ لڑکی کو دیکھتے ہیں تو آنکھیں باہر آجاتی ہیں ، ایک برقع والی خود کو سنبھال کر رکھتی ہے کہ اس کا مجازی خدا ہی بس اسے دیکھے گا اور ایک یہاں کے نوجوان ہیں کھلی کتابوں کے پیچھے پڑے ہیں جن کو ہر کوئی پڑھ لیتا ہے، یہ نوجوان خود بھلے کتنے ہی گلے سڑے کیوں نہ ہوں شادی کیلئے پانی کی طرح صاف دلہن مانگتے ہیں اور خود کیچڑ کو شراب سمجھ کر اپنی آنکھیں تر کرتے رہتے ہیں، خود بھلے کتنے ہی داغدار ہوں لیکن اگر ان کی گھر والی غلطی سے دودھ والے سے بھی ہنس کر بات کرلے تو اس کو طعنے مارتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دودھ والے کے بچے بھی جوان ہو جاتے ہیں، زرا سوچیئے
پرنس کی کتاب"پاکستانی پٹھے" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment