Thursday, June 19, 2014

بس اک بیوی چاہیئے عاشقی کیلئے......زریاب شیخ


کنوارہ پن ایک بیماری ہے یا کیفیت ، پاکستان کے حکیم اسکی تحقیق میں لگے ہیں لیکن اس بارے میں ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ہو سکی، نوجوان سن بلوغت میں قدم رکھتے ہی اس کنوارے پن سے چھٹکارے کیلئے کوششیں شروع کردیتا ہے ، اس کے سر پر بس یہ ہی سوار ہوتا ہے کہ نکاح کروں گا تو زندگی بدل جائے گی لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ شادی کرنا بالکل ایسا ہی ہےکہ کوئی سانپ کے سامنے کھڑا ہوکر اس کو دعوت دے کہ آ مجھے کاٹ ، جب انسان کنوارہ ہوتا ہے تو اس کو شادی شدہ افراد دنیا میں سب سے اچھے لگتے ہیں اور وہ ان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے ، رات بھر اسے سہانے سہانے خواب نظر آتے ہیں اور اس جدوجہد میں لگ جاتا ہے کہ بس کسی نہ کسی طرح وہ ایک کی بجائے ایک اور ایک گیارہ ہوجائے ،عشق کی بیماری سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے، اگر اس سے پوچھیں کہ وہ کون سے تین بول ہیں جن کو بولنے کی آرزو میں وہ جی رہا ہے تو اسکا بس ایک ہی جواب ہوگا ،قبول ہے قبول ہے قبول ہے اور زبان ہر ہوتا ہے
تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی
تاج محل بنانا چاہتا ہوں ممتاز نہیں ملتی
لیکن جب وہ یہ تین بول دل وجان کے ساتھ بول دیتا ہے تواس کی زندگی میں سب سے پہلی تبدیلی یہ آتی ہے کہ شادی کے اگلے دن وہ بستر کے صرف ایک طرف سے اترتا ہے ،اس کی آزادی آدھی رہ جاتی ہے پہلے تو سب اپنی مرضی سے چلتا تھا اب مرضی میں ٹانگ اڑانے والی بھی آگئی ہے ، جب تک بیوی نئی ہوتی ہے اس کا کہیں اور دل نہیں لگتا،ہر وقت اس کے پہلو میں بیٹھے رہنے کا من کرتا ہے لیکن جیسے جیسے پرانی ہوتی جاتی ہے تو پھر بیوی میں دل نہیں لگتا اور شوہر پہلو میں بیٹھا ٹی وی کے چینل ہی بدلتا رہتا ہے،سہاگ رات کی بیوی اور آگے کی ہر رات والی بیوی میں بڑا فرق ہوتا ہے، بیوی شروع شروع میں آپ کے تمام کام کرتی ہے بعد ازاں آپ کا ہی کام تمام کرتی ہے، کسی نے صحیح کہا ہے کہ محبوبہ کو بیوی بنانا آسان ہے مگر بیوی کو محبوبہ بنائے رکھنے کے لیے پوری تنخواہ، پورا دل، پوری آنکھیں، پورا بیڈ روم اور پوری صاف ستھری نیت کی ضرورت ہوتی ہے،شادی کے بعد کچھ عرصہ تو شوہر بیوی کے نخرے اٹھاتا ہے لیکن پھر شاکی ہوجاتا ہے کیونکہ انسان ہر سال نیا سیل فون تو خرید لیتا ہے مگر بیوی بےچاری وہی پرانی چلتی رہتی ہے، شوہر کی آدھی عمر ماں کے ہاتھ کا کھانا کھاکر اور باقی آدھی عمر بیوی کے ہاتھ کا کھانا کھاکر گزرجاتی ہے، جو شوہر بیوی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے ان کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو کھاتے ہیں انہیں اپنی عمر دراز لگتی ہے، شوہر کی حالت کھانے کی میز پر ایسی ہوتی ہے جیسے کسی شخص کے سامنے کھائی ہے اور پیچھے سانپ کھڑا ہے ، اگر کھانا خراب ہو اور بیوی سے نمک کم ہونے کی شکایت کردے تو بیوی کتنے دن اس بات پر ہی اسے طعنے دے دے کر ڈستی ہے اور اگر دل رکھنے کیلئے جھوٹی تعریف کردے تو ہمیشہ ویسا ہی کھانا نصیب ہوتا رہتا ہے اور شوہر کا دل کرتا ہے کہ کسی کھائی میں کود کر جان دیدے ، کھانے کی جھوٹی تعریف بھلے اچھی لگے نہ لگے لیکن بیوی کی تعریف کرتے ہوئے اگر شوہر جھوٹ بھی بولے تو بھی بہت اچھا لگتا ہے ، چونکہ بیوی کی تعریف کرنا شوہر کا نکاحی فریضہ ہے تو اس کیلئے تن ، من اور دھن سے شوہر جتنا بھی جھوٹ بولے وہ قابلِ معافی ہے، شوہر کبھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی اس سے دور رہے لیکن بچہ اس دنیا میں قدم رکھتے ہی اس خواہش پر حملہ کرتا ہے ، ہر بچہ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک اینٹ کی طرح ہوتا ہے اور جیسے جیسے بچے ہوتے جاتے ہیں یہ اینٹوں کی دیوار شوہر اور بیوی کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شوہر ایک دن اسی جگہ بیٹھا ہوتا ہے جہاں وہ شادی شدہ جوڑوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا اور اب وہ وہاں بیٹھا کنواروں کو اشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے
تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی
تاج محل بنانا چاہتا ہوں ممتاز نہیں مرتی
پرنس کی کتاب" آ بیل مجھے پلیز مار" سے اقتباس

No comments:

Post a Comment