ایک دفعہ کا زکر ہے پرنس گھر جارہے تھے راستے میں ایک جوتوں کی دکان پر
سیل لگی دیکھی تو فوراً رک گئے اور کوئی سستا جوتا ڈھونڈنے میں لگے رہے ،
آدھے گھنٹے بعد ایک جوتا پسند آیا لیکن اس کا سائز ان کے پیر سے زیادہ
تھا ، مرجھائے چہرہ لئے پھر گھر کی طرف روانہ ہوگئے تھوڑا ہی دور گئے تھے
تو ایک بینر لکھا دیکھ کر رک گئے اور صرف وہ ہی نہیں اور بھی لوگوں کی
بریکیں لگ رہی تھی کیونکہ وہاں 20 روپے میں بڑا شوارما مل رہا تھا ، جوتے
کا غم شوارما کھا کر ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگھ غائب ہوتے ہیں
، ابھی شوارمے کا نشہ اترا بھی نہیں تھا کہ فالسے کا شربت صرف 5 روپے گلاس
میں دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا اور جوش میں آکر 2 گلاس پی ڈالے
، پرنس سوچ رہے تھے کہ آج تو دن ہی بڑا کمال ہے ایک جوتا نہ سہی باقی سب
کچھ سستا مل رہا ہے ، گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ مسجد سے آذان کی آواز
آئی ، ان کے دل نے کہا کہ جس نے اتنی نعمتین میسر کی ہیں ، جس نے صحت اور
تندرستی دی ہے کیا اس کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوگے ، ابھی ان کا دل مائل ہو
ہی رہا تھا کہ اچانک ایک دوست کی کال آگئی کہ گھر میں بریانی پکی ہے فون
سنتے سنتے موٹر سائیکل کا رخ دوست کے گھر کی طرف ہوگیا ، بریانی کھاتے
کھاتے چائے بھی آگئی اور یوں مغرب کا وقت ہوگیا ، ایک دم سے رمضان کی
مبارکباد کے پیغامات آنے لگے ، گھر جاتے ہوئے جب اپنی مسجد کے پاس سے گزرے
تو آذان کے آواز نے پھر دل پر تیر چلائے ، اچانک ایک آواز آئی کہ اے
پرنس کوئی بھی سستی چیز ملے تو کھا لیتا ہے ، سیل لگے تو کپڑے لینے چلا
جاتا ہے ، بجلی کا بل کم آ جائے تو لڈیاں ڈالتا ہے ، تو کسی کو مس بیل
مارے اور وہ کال کردے تو بھنگڑے ڈالتا ہے لیکن کبھی اس اللہ کا نہیں سوچا
جو تجھے دنیا کی سب نعمتیں دیتا ہے ، جو مانگتا ہے عطا کرتا ہے ، تجھ سے
تیری ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے ،صرف وہ ہی جانتا ہے کہ تو کیسا ہے ، پرنس
کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ سر جھکائے مسجد میں داخل ہوگئےاس وقت
ان کی زبان پر سورہ رحمنٰ کے یہ الفاظ تھے" اور تم اپنے رب کی کون کون سی
نعمتوں کو جھٹلاو گے۔
پرنس کی کتاب"اللہ اللہ کر بھیا"سے اقتباس
پرنس کی کتاب"اللہ اللہ کر بھیا"سے اقتباس
No comments:
Post a Comment