Tuesday, June 10, 2014

مرد مرد ہوتا ہے اور اور اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

 پاکستان میں مرد دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں اور دوسرے جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں ان کی اکثریت گری ہوئی ہوتی ہے اور جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں ان میں اکثر خوش نصیبوں کو زمین پر گرے پیسے مل جاتے ہیں، اگر اسلامی نقطہ نظر دیکھا جائے تو پاکستان میں مرد ہوتا بھی  ہے اور مرد ہوتی بھی  ہے جو مرد ہوتا ہے اس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اور جو ہوتی ہے اس کا ظاہر اپنے نفس اور عورت کیلئے ہوتا ہے ، سانسدان ابھی تک اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ عورت کے چہرے پر بال آجائیں تو اسے مزاق میں مرد سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن مرد اگر چہرہ عورت کی طرح بنالے تو اسے مرد ہی کہا جاتا ہے، پاکستان میں جو مرد ہوتا ہے وہ خود کو عورت اور دنیا کے سامنے نمایاں کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اس کیلئے سب حدیں پار کر جاتا ہے اور اللہ کے سامنے بےنمایاں ہوجاتا ہے جبکہ جس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اس کو لڑکیاں مولوی کہہ کر ویسے ہی ٹھوکر مار دیتی ہیں ، لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود اگر وہ صحیح راستے پر رہے تو اللہ کے سامنے نمایاں ہو جاتا ہے ، حیرت اس بات پر ہے کہ ٹی وی پر چلنے والے اشتہار  ایسے ہوتے ہیں جیسے ڈاڑھی منڈھا نوجوان نہیں کوئی مقناطیس ہے اور لڑکیاں کھنچی چلی آتی ہیں لیکن حقیقت میں ان بےچاروں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے ، کبھی گرمی میں کالج کے باہر کھڑا ہونا پڑتا ہے تو کبھی ایزی لوڈ کروا کر خود پر جبر کرنا پڑتا ہے ، رات کو جانو کہہ کہہ کر ان کے دل میں اترنے کی کوشش میں آنکھوں کے گرد کالے ہلکے بنا لیتے ہیں، آج کی نوجوان نسل ظاہر دیکھ کر ایک دوسرے پر مرتی ہے اور شادی کے بعد ایک دوسرے کو مارتی  ہے اور پھر علیحدہ ہونے کے بعد گھر والے لفظوں کی مار مارتے ہیں ،

پرنس کی کتاب" ہے کوئی مرد ؟" سے اقتباس

No comments:

Post a Comment