Monday, June 30, 2014

لوٹ سیل ، لوٹ سیل ، لوٹ سیل.............. زریاب شیخ

ایک دفعہ کا زکر ہے پرنس گھر جارہے تھے راستے میں ایک جوتوں کی دکان پر سیل لگی دیکھی تو فوراً رک گئے اور کوئی سستا جوتا ڈھونڈنے میں لگے رہے ، آدھے گھنٹے بعد ایک جوتا پسند آیا لیکن اس کا سائز ان کے پیر سے زیادہ تھا ، مرجھائے چہرہ لئے پھر گھر کی طرف روانہ ہوگئے تھوڑا ہی دور گئے تھے تو ایک بینر لکھا دیکھ کر رک گئے اور صرف وہ ہی نہیں اور بھی لوگوں کی بریکیں لگ رہی تھی کیونکہ وہاں 20 روپے میں بڑا شوارما مل رہا تھا ، جوتے کا غم شوارما کھا کر ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگھ غائب ہوتے ہیں ، ابھی شوارمے کا نشہ اترا بھی نہیں تھا کہ فالسے کا شربت صرف 5 روپے گلاس میں دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا اور جوش میں آکر 2 گلاس پی ڈالے ، پرنس سوچ رہے تھے کہ آج تو دن ہی بڑا کمال ہے ایک جوتا نہ سہی باقی سب کچھ سستا مل رہا ہے ، گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ مسجد سے آذان کی آواز آئی ، ان کے دل نے کہا کہ جس نے اتنی نعمتین میسر کی ہیں ، جس نے صحت اور تندرستی دی ہے کیا اس کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوگے ، ابھی ان کا دل مائل ہو ہی رہا تھا کہ اچانک ایک دوست کی کال آگئی کہ گھر میں بریانی پکی ہے فون سنتے سنتے موٹر سائیکل کا رخ دوست کے گھر کی طرف ہوگیا ، بریانی کھاتے کھاتے چائے بھی آگئی اور یوں مغرب کا وقت ہوگیا ، ایک دم سے رمضان کی مبارکباد کے پیغامات آنے لگے ، گھر جاتے ہوئے جب اپنی مسجد کے پاس سے گزرے تو آذان کے آواز نے پھر دل پر تیر چلائے ، اچانک ایک آواز آئی کہ اے پرنس کوئی بھی سستی چیز ملے تو کھا لیتا ہے ، سیل لگے تو کپڑے لینے چلا جاتا ہے ، بجلی کا بل کم آ جائے تو لڈیاں ڈالتا ہے ، تو کسی کو مس بیل مارے اور وہ کال کردے تو بھنگڑے ڈالتا ہے لیکن کبھی اس اللہ کا نہیں سوچا جو تجھے دنیا کی سب نعمتیں دیتا ہے ، جو مانگتا ہے عطا کرتا ہے ، تجھ سے تیری ماں سے زیادہ محبت کرتا ہے ،صرف وہ ہی جانتا ہے کہ تو کیسا ہے ، پرنس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ سر جھکائے مسجد میں داخل ہوگئےاس وقت ان کی زبان پر سورہ رحمنٰ کے یہ الفاظ تھے" اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے۔


پرنس کی کتاب"اللہ اللہ کر بھیا"سے اقتباس

Sunday, June 29, 2014

اللہ کے باغی مسلمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ



اسلام ایک پرامن مذہب ہے لیکن یہ پرامن تب تک ہے جب تک آپ اس پرعمل کرتے ہیں، جب بغاوت کرتے ہیں تو امن خراب ہوجاتا ہے، اسلام میں عورت پر پردہ فرض ہے ، اسی طرح مرد کو بھی نظریں جھکانے کا حکم ہے ، اگر عورت پردہ نہیں کرتی تو اسے گناہ ہوگا اور جب مرد نظر نہیں جھکاتا تو اسے گناہ ہوگا دونوں کا یہ عمل دین سے بغاوت ہے اور اس طرح پرامن مذہب میں خرابی کا باعث بنتا ہے، بعض لوگ فوراً ایک بات کر دیتے ہیں کہ مرد کا تو قصور ہی نہیں، عورت کو چاہیئے کہ وہ پردہ کرکے رکھے خود کو ڈھانپ کر رکھے " ایک عورت دس مردوں کو جہنم میں ساتھ لے کر جائےگی" اس پر یہ ہی کہوں گا کہ جناب وہ آپ کو گریبان سے پکڑ کر تو نہیں لے کر جائے گی ، وہ جہنم کی طرف جا رہی تھی تو آپ بھی گدھے کی طرح اس کے پیچھے چل پڑے ، قصور تو مرد کا ہوا جس نے خود کو قابو نہ کیا ، اب کوئی شراب کی بوتل پڑی دیکھے اور پی لے کہ میرا تو قصور نہیں ، سامنے پڑی تھی پی لی، تو اس پر قصور بوتل کا نہیں ، پینے والے کا ہوتا ہے ، مرد سارا الزام عورت پر لگا کر خود کو بری الزمہ سمجھتا ہے، اسی طرح جب داڑھی کی بات کی جاتی ہے تو فوراً جواب ملتا ہے کہ داڑھی تو سنت ہے فرض نہیں ، اب کوئی ان بےوقوفوں کو سمجھائے کہ جناب اتباع سنت ہی فرض ہے تو پھر اس بات پر بحث ہی ختم ہوگئی ، اللہ کا حکم ماننا فرض ہے اور اس نے " نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمھارے درمیان دو چزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ، قرآن اور سنت، اب جو لوگ سنت کو معمولی سمجھتے ہیں تو وہ خود کو جنت سے دور کر رہے ہیں، اللہ نے چہروں کو بگاڑنے سے منع کیا ہے اور آج کل فرینچ کٹ اور عجیب طرح کی داڑھیاں بنا کر نہ صرف سنت کا مذاق اڑیا جاتا ہےبلکہ اللہ کے بنائے چہرے کو بگاڑنا فیشن سمجھا جاتا یے ، جو لوگ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ فرمان ہیں وہ مسلمان تو ہیں لیکن وہ اہل سنت و الجماعت میں سے نہیں یعنی وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی پیروی کرنے والوں میں سے نہیں،
پرنس کی کتاب " نیک باتیں" سے اقتباس

محبت کرو گے تو مرنا پڑے گا....... زریاب شیخ

محبت کی شادی ہمیشہ سے ہی اس معاشرے میں جرم رہی ہے ، ایک بیٹی جب تک اپنے گھر میں غلام رہتی ہے تب تک تو سب کی آنکھ کا تارا ہوتی ہے لیکن جیسے ہی وہ اپنی زندگی کا کوئی ہمسفر چن لے تو کینسر بن جاتی ہے ، یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں لڑکا تو بھاگ کر شادی بھی کرلے،جب چاہے جسم کی تسکین بھی کرلے تو ٹھیک ہے لیکن ایک لڑکی جب اپنا ہمسفر پسند کرتی ہے تو اس کا جینا حرام کردیا جاتا ہے، اسے قتل کردیا جاتا ہے، جب لڑکیوں کی زبردستی شادی کی جاتی ہے اور شوہر کا ظلم برداشت کرتے کرتے وہ مر جاتی ہے تب والدین سوچتے ہیں کاش ہم نے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا، اس معاشرے میں بدکاری کرنا آسان اور نکاح کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے ، پسند کی شادی کرنے کے بعد کتنے ہی جوڑوں کو چند دن بعد ہی قتل کردیا جاتا ہے ، اسلام میں غیرت کے نام پر قتل کا کہیں تصور نہیں، ماں باپ کی غیرت اس وقت کیوں نہیں جاگتی جب بیٹا پسند کی شادی کرتا ہے ،ایک لڑکی چھپ کر جو مرضی کرے لیکن اگر کوئی بیچاری نکاح کرلے اور وہ مرد اس کیلئے حلال ہو جائے تو اس کی زندگی جہنم بن جاتی ہے، اس معاشرے میں مرد ایک جلاد بن گیا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے، جس کی عزت چاہتا ہے لوٹ لیتا ہے، جس عورت کو چاہے مار دیتا ہے اور جب عورت ایسا کرتی ہے تو سارے معاشرے کو غیرت آجاتی ہے ،اسلام نے تو عورت کو سر کا تاج بنایا ہے، اس کی عزت ، اس کی تعریف، اس سے اخلاق سے پیش آنے کا حکم دیا ہے جو جاہل مرد اپنی اور غیر عورتوں سے جانوروں کی طرح بات کرتے ہیں، ان پر ظلم کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جنت میں ان عورتوں کا بہترین مرد سے نکاح کیا جائے گا، کیا مردانگی اسے کہتے ہیں کہ کسی بھی لڑکی سے بدتمیزی کی جائے، اسے گالیاں دی جائیں، اس کا مذاق اڑیا جائے، اس کی تعریف گندے الفاظ میں گندے طریقوں سے کی جائے، شرم آنی چاہیئے ایسے لوگوں کو جو لڑکیوں کے دلوں سے کھیلتے ہیں انہیں کھلونا سمجھتے ہیں ، ان سے تسکین حاصل کرکے ان کو کچرا سمجھ کر پھینک دیتے ہیں ، ایسے لوگوں کا انجام دنیا اور آخرت میں بہت برا ہوگا، عورت چاہے جتنی بھی بری ہو تب بھی اس کی عزت کرنا لازم ہے ، اگر اس میں عیب ہیں تو کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اس کا چرچا کرتا پھرے، یہ عورت ہی ہے جس نے ماں کے روپ میں ان مردوں کو پالا اور بڑے ہوکر یہ ہی مرد اس عورت کے سر سے ڈوپٹہ چھین لیتے ہیں، ان کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں ، عورت کے آنسوؤں سے بچنا چاہیے کیوں کہ ان آنسوؤں میں بہت طاقت ہوتی ہے اور اللہ سب دیکھنے والا ہے ۔۔۔

پرنس کی کتاب" جانور نما مرد" سے اقتباس

Saturday, June 28, 2014

تم جس کو پیار سمجھے ھو دنیا کی چال ھے........... زریاب شیخ



پیار اور خوشی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا بیوی اور ہمسائی میں ہوتا ہے ، بیوی سے شوہر کو پیار ہوتا ہے اور ہمسائی کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے اسی لئے وہ لوگ بہت چاک و چوبند رہتے ہیں جن کی ہمسائی خوش شکل ہو، یہ ضروری نہیں کہ انسان کو جس سے پیار ہو اس کے ساتھ رہ کر خوشی بھی ہوتی ہو، آج کہ دور میں لوگ پیار پیار کی بانسری بجاتے ہیں اور اسی چکر میں لڑکا لڑکی بھاگ کر شادی کرلیتے ہیں لیکن جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ خوش نہیں ہیں تو کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے، اکثر شادی شدہ مردوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ خوشی کیا ہوتی ہے تو ان کا جواب یہ ہی ہوتا ہے کہ جناب میں تو شادی شدہ ہوں ، لوگ ان کی شکل دیکھ کر سمجھتے ہیں شاید بیوی بہت ظالم ملی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان جیسے افراد کو خوشی دوسری لڑکیوں کو دیکھ کر ہوتی ہے اور اپنی بیوی سے پیار کا تو صرف دم بھرتےہیں لیکن اس بے چاری کو دال برابر بھی نہیں سمجھتے، بیویاں تو معصوم ہوتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی بات پر خوش ہو جاتی ہیں ، پچھلے دنوں ایک صاحب نے اپنی بیگم سے کہا کہ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے آج ہم کھانا باہر کھائیں گے ، اس کا خوشی سے چہرہ کھل اٹھا جیسے ہی کپڑے بدل کر آئی تو وہ بولے ارے پگلی میں تو کہہ رہا تھا کہ صحن میں بیٹھ کر کھا لیتے ہیں، تحققیق کے مطابق پیاز اور پیار میں کوئی فرق نہیں شادی شدہ جوڑا پیاز کی مانند ہوتا ہے اور جیسے جیسے اس کا چھلکا اترتا جاتا ہے آنسو نکلتے رہتے ہیں ، آنسو میاں کے زیادہ نکلتے ہیں یا بیوی کے اس کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوسکا
پرنس کی کتاب "پیار بھرے سموسے" سے اقتباس

Sunday, June 22, 2014

ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو..... زریاب شیخ

پیار ایک پرندے کی طرح ہوتا ہے ، نرم و نازک سا ہوتا ہے ، اسے دلنشیں انداز، خوبصورت لفظوں، اداؤں سے پالا جاتا ہے ، کوئی قید نہیں ہوتی ، اس طرح نشونما سے یہ اور بھی خوبصورت ہو جاتا ہے ، دیکھا جائے تو  آج کے دور میں اس پرندے کے ساتھ بہت ہی برا سلوک ہو رہا ہے کسی نے اس پرندے کو زنجیر میں قید کر رکھا ہے تو کسی نے اس کی خوراک کا بالکل ہی خیال نہیں رکھا ہے ،جو لوگ پیار کو قید کرکے رکھتے ہیں یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی چاہت میں کھوٹ ہے ان کی محبت میں کھوٹ ہے چونکہ انہیں اپنے دل پر اعتبار نہیں اس لئے وہ اپنے پیار کو زنجیروں سے جکڑ کر رکھتے ہیں کہ کہیں یہ پرندہ ہمیں چھوڑ کر نہ چلا جائے حالانکہ وہ اس کی خوراک کا خیال رکھتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پیار کو جکڑ لیا جائے تو آہستہ آہستہ مرتا رہتا ہے اس کی زندگی کم ہوتی رہتی ہے، جو لوگ اس پرندے کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں اس کو زنجیروں میں جکڑ کر تو نہیں رکھتے لیکن اس کا خیال  بھی نہیں رکھتے، اس سے پیار نہیں کرتے تو اس کی حالت بہت بری ہو جاتی ہے وہ ہوتا تو آزاد ہی ہے لیکن اس پرندے میں جینے کی تمنا نہیں رہتی ، جو لوگ اس پرندے کو پالنے کا فن جانتے ہیں وہ دنیا میں سب سے کامیاب لوگ ہیں ، زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں لیکن پیار سے پیار کرنے والے کم ہی ہوتے ہیں

پرنس کی کتاب "کیا یہ ہی پیار ہے" سے اقتباس

Saturday, June 21, 2014

اس کی آواز نے جادو کردیا .................... زریاب شیخ

اس دن بھی بارش ہورہی تھی میں کھڑکی سے دلفریب منظر دیکھ رہا تھا ، ہوا کے جھونکے کے ساتھ کسی کے ہنسنے کی آواز کانوں میں سنائی دی تو دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوگئی ، ایسا لگا جیسے اس آواز نے میرے دل کے تار ہی چھیڑ دیئے ہوں ۔ کمرے سے نکلا اور چھت کی جانب بڑھا ، ان خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ جس پری زاد کی آواز میں اتنا نشہ ہے وہ خود کسی حور سے کم نہ ہوگی ، خیالوں ہی خیالوں میں اس نازنین کا سوچ کر اپنی حالت مجنوں جیسی ہوگئی تھی ، جیسے ہی چھت کا دروازہ کھولنے لگا تو تالا لگا ہوا تھا ایک دم سے دماغ میں چلنے والی فلم کا انٹرول کرنا پڑا اور دوڑا دوڑا نیچے آیا، ادھر ادھر ہاتھ مارنے پر بھی چابی نہ ملی تو والدہ سے پوچھ لیا اور پھر اپنی منزل کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوا، سوچ رہا تھا کہ اللہ نے جس طرح کوئل کی آواز پیاری بنائی ہے عورت کی آواز میں بھی جادو بھر دیا ہے ، نشیلی آواز جسم میں خون کی گردش تیز کردیتی ہے ، اسی لئے ہر دوسرے نوجوان کو یہاں عشق کا بخار رہتا ہے ، یہ سوچتے سوچتے میں نے دروازہ کھولا ، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے دل کا موسم اور حسین بنا دیا ، آہستہ آہستہ اس جانب بڑھا جہاں سے کھنکتی ، مہکتی آواز آئی تھی ، دل تھام کر میں نے جب ساتھ والوں کی چھت پر جھانکا تو آنکھوں نے پلک جھپکنے کا نام ہی نہ لیا، محو حیرت ہو کر میں اس بوڑھی خاتوں کو دیکھتا رہا جس کی عمر تو 80 سال تھی لیکن آواز بالکل انار کلی جیسی تھی ، دل ہی دل میں دادی اماں کو برا بھلا کہتا نیچے روانہ ہوا اور یہ ہی سوچتا رہا کہ خدا جب بڑھاپا دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے

پرنس کی کتاب" قاتل حسینہ 840" سے اقتباس

ایسے نہ مجھے تم دیکھو ............... زریاب شیخ


سزی والا آواز لگا رہا تھا کہ گوبھی لے لو، پیاز لے لو ، آلو لے لو ، ہم نے بھی سوچا چلو یہ اچھا ہوا کہ آپ اپنے دروازے پر سبزی والا آگیا لیکن جناب سبزی بالکل ہمسائی کی طرح سڑی ہوئی تھی ، بڑی مشکل سے کچھ خوبصورت آلو ہاتھ آئے اس وقت وہ ہمیں بالکل اس آم کی طرح لگ رہے تھے جو کیترینہ کیف نے مینگو جوس کے اشتہار میں پکڑا ہوتا ہے، گھر جا کر سبزی رکھی تو بیگم نے آوز لگائی دہی لیتے آو ، ہم حکم بجا لاتے ہوئے دہی والے کی دکان پر جا پہنچے ایک حسین پری زاد وہاں دودھ لینے کیلئے کھڑی تھی، کچھ دیر تک ہم کو یہ خیال ہی نہ رہا کہ شادی شدہ ہیں لیکن کسی کی آواز آئی شیخ صاحب جانے دیں ، اب ہماری باری تو آنے دیں ، لڑکی کے جاتے ہی ہم نے اس نوجوان کو لپک لیا اور بولے اس لڑکی میں ایسی کیا بات ہے جو تمھاری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں تو وہ مسکرایا اور بولا کہ دیکھتے نہیں کتنی حسین تھی ، چہرہ ماہتاب جیسا، گال گلابی اور ایک دم سے ہم نے اسے ٹوکا اور بولے جناب برقع والی کا کیا قصور ہے تو ایک دم بولا کہ نہیں نہیں ، میں حیرت زدہ ہوکر گھر آگیا اور سوچتا رہا کہ سبزی خراب ہو تو کوئی نہیں خریدتا ہے ، کسی چیز کا پیکٹ کھلا ہو تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں لیکن جب بے پردہ لڑکی کو دیکھتے ہیں تو آنکھیں باہر آجاتی ہیں ، ایک برقع والی خود کو سنبھال کر رکھتی ہے کہ اس کا مجازی خدا ہی بس اسے دیکھے گا اور ایک یہاں کے نوجوان ہیں کھلی کتابوں کے پیچھے پڑے ہیں جن کو ہر کوئی پڑھ لیتا ہے، یہ نوجوان خود بھلے کتنے ہی گلے سڑے کیوں نہ ہوں شادی کیلئے پانی کی طرح صاف دلہن مانگتے ہیں اور خود کیچڑ کو شراب سمجھ کر اپنی آنکھیں تر کرتے رہتے ہیں، خود بھلے کتنے ہی داغدار ہوں لیکن اگر ان کی گھر والی غلطی سے دودھ والے سے بھی ہنس کر بات کرلے تو اس کو طعنے مارتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دودھ والے کے بچے بھی جوان ہو جاتے ہیں، زرا سوچیئے

پرنس کی کتاب"پاکستانی پٹھے" سے اقتباس

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں...... زریاب شیخ


صحن میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا " صنف نازک کا دل فتح کرنے کے گلابی طریقے" ابھی میں نے تیسرا صفحہ ہی پڑا تھا کہ ایک عدد گلاب کا پھول مجھ پر آگرا ، مارے خوشی کہ میں کرسی سے نیچے جا پڑا ، تھوڑا نشہ اترا تو دیکھا کہ اوپر ایک بلا ایک بلی سے دل کی بات کہنے کیلئے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا اور اس دوران گملے میں لگا گلاب کا خوشبو دار پھول ہم پر آن گرا تھا ، اس وقت اللہ کا شکر ادا کیا کہ گلاب کے پھول کے ساتھ گملا نہیں تھا ،ویسے تو ہمارے گھر کے اوپر کرائے دار ماشا اللہ کافی خوش شکل ہیں ، گلاب کا پھول ہاتھوں میں لئے ابھی کرسی پر بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ، والدہ محترمہ بازار گئی تھیں سوچا وہ آئیں ہونگی ، میں نے دروازہ کھولتے ہی گلاب کا پھول آگے کردیا ، سامنے اپنی محلے والی کو دیکھ کر پیروں تلے زمین ہی نکل گئی ، 42سالہ تھوڑی نرم اور کچھ کچھ نازک سی خاتون کے چہرے کا رنگ ایک دم گلاب جیسا ہوگیا لیکن جیسے ہی اسے کہا کہ سوری باجی میں سمجھا امی تھیں تو کدو جیسی شکل بنائی اور منہ پھلاتی ہوئی چلی گئی ، میری سانس بحال ہوئی تو امی دروازے تک پہنچ چکی تھیں ، میرے ہاتھ میں گلاب کا پھول دیکھ کر کہنے لگیں کس کا انتظار ہو رہا ہے میں نے کہا گھر کی مالکن کے بغیر دل اداس ہورہا تھا تو دروازے پر کھڑا ہوگیا، ہم پھر برآمدے میں بیٹھے کتاب کھول کر پڑھنے لگے اور ساتھ ہی گلاب کی خوشبو کا بھی مزہ لیتے رہے ، اچانک ہاتھ جو گھوما تو گلاب ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا ، میں نے اوپر سے جھانکا تو سر ہی پیٹ لیا کیوں کہ گلاب کا پھول سیدھا گھر کی کام والی پر گرا تھا ، جس کی پوری بتیسی مجھے دیکھ کر باہر آگئی تھی وہ تو مجھے اس وقت رومیو سمجھ رہی تھی لیکن میں اسے جولیٹ کیسے کہہ سکتا تھا کیوں کہ اس کا رنگ ہمارے روٹی پکانے والے توے سے بس کچھ ہی کم کالا تھا ہاں پر دل کی بہت اچھی تھی ، دروازہ والدہ نے کھولا اور ہاتھ میں گلاب دیکھ کر سر کھجانے لگیں اور پھر اپنے کام میں لگ گئیں، کچھ عرصے بعد ہم نے وہ گھر چھوڑ دیا لیکن آج بھی وہ گلاب کا پھول یاد آتا ہے
پرنس کی کتاب" وہ بیتے دن یاد ہیں" سے اقتباس

Thursday, June 19, 2014

پہلے مرد ہوتا تھا اب مرد ہوتی ہے.... زریاب شیخ


پہلے وقتوں میں مرد صنف نازک کی عزت کیا کرتے تھے ، سر آنکھوں پر بٹھایا کرتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ نہ وہ آنکھیں رہیں نہ ہی سر رہے ، کہتے ہیں مرد وہ ہوتا ہے جس کو دیکھ کر اس کی بیوی کا چہرہ کھل اٹھے لیکن اب اس کے برعکس ہورہا ہے اور مرد دوسروں کی بیویوں اور لڑکیوں کو دیکھ کر کھل اٹھتے ہیں اور جو بیوی گلاب کا پھول لگتی تھے اسے گوبھی کا پھول سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں ، جس طرح ایک لڑکا رات کو برے برے خواب دیکھتا ہے اسی طرح لڑکیاں اچھے اچھے خواب دیکھتی ہیں سوتے ہوئے چہرے پر ایک مسکراہٹ ہوتی ہے لیکن جب ہاتھ پیلے ہوتے ہیں اور اپنے والدین کی لاڈلیاں پیا کے گھر آتی ہیں تو وہ گھر جو خوابوں میں جنت نظر آتا تھا جہنم بن جاتا ہے ، شوہر شروع شروع میں تو بیوی کو پھول کی طرح رکھتا ہے لیکن بعد میں وہ ہی پھول اسے کانٹا لگنے لگتا ہے ، مردوں میں یہ بیماری عام پائی جاتی ہے کہ بیوی کو زرا دبا کر رکھتے ہیں ، جس شوہر کی گولی کی آواز سے پینٹ ڈھیلی ہو جاتی ہے وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتا ہے جیسے موجودہ حکومت عوام کے ساتھ کر رہی ہے ،وہ عورت جس کی تعریف جتنی کریں اتنا ہی اس کا حسن نکھر جاتا ہے وہ اپنے شوہر کے آگے پیچھے پھرے گی لیکن اسے شوہر کی خاموشی دھیرے دھیرے مار دیتی ہے ، دنیا کے سامنے شوہر کہتا ہے میاں بیوی گاڑی کے دو پہیئے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتا کہ وہ خود پنکچر ہوچکا ہے اور سارا بوجھ ایک ہی ٹائر اٹھا رہا ہے ،حیرت کی بات ہے کہ اسلام میں کہیں نہیں لکھا کہ شوہر کا بیوی کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانا گناہ ہے لیکن جب بھی کسی نے اپنی بیوی کا ہاتھ بٹایا ہے اسے رن مرید کہہ کر بیوی سے دور کردیا جاتا ہے ،، ایک لڑکی اپنا سب کچھ قربان کرکے نئی زندگی شروع کرتی ہے اسے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے صرف تین بول پر وہ اپنی عزت ایک غیر مرد کے حوالے کردیتی ہے لیکن اس کے بدلے میں اسے اتنا بھی پیار نہیں ملتا جو اس کو اپنے گھر میں ملتا تھا جس گھر میں راج دلاری اپنے بابا کے آنکھوں کی ٹھنڈک ، اپنے بھائی کی جان تھی وہ نئے گھر میں ایک پتھر کا مجسمہ بن کر رہ جاتی ہے جبکہ شوہر یہ ہی سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی بہت خوش ہے ویسے بھی ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ مردوں کی اکثریت کو عورت کے دل سے کوئی سروکار نہیں وہ ہمیشہ سے جسم کا متلاشی رہا ہے اور رہے گا

پرنس کی کتاب" پتھر کا گلاب" سے اقتباس

بس اک بیوی چاہیئے عاشقی کیلئے......زریاب شیخ


کنوارہ پن ایک بیماری ہے یا کیفیت ، پاکستان کے حکیم اسکی تحقیق میں لگے ہیں لیکن اس بارے میں ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ہو سکی، نوجوان سن بلوغت میں قدم رکھتے ہی اس کنوارے پن سے چھٹکارے کیلئے کوششیں شروع کردیتا ہے ، اس کے سر پر بس یہ ہی سوار ہوتا ہے کہ نکاح کروں گا تو زندگی بدل جائے گی لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ شادی کرنا بالکل ایسا ہی ہےکہ کوئی سانپ کے سامنے کھڑا ہوکر اس کو دعوت دے کہ آ مجھے کاٹ ، جب انسان کنوارہ ہوتا ہے تو اس کو شادی شدہ افراد دنیا میں سب سے اچھے لگتے ہیں اور وہ ان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے ، رات بھر اسے سہانے سہانے خواب نظر آتے ہیں اور اس جدوجہد میں لگ جاتا ہے کہ بس کسی نہ کسی طرح وہ ایک کی بجائے ایک اور ایک گیارہ ہوجائے ،عشق کی بیماری سر چڑھ کر بولنے لگتی ہے، اگر اس سے پوچھیں کہ وہ کون سے تین بول ہیں جن کو بولنے کی آرزو میں وہ جی رہا ہے تو اسکا بس ایک ہی جواب ہوگا ،قبول ہے قبول ہے قبول ہے اور زبان ہر ہوتا ہے
تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی
تاج محل بنانا چاہتا ہوں ممتاز نہیں ملتی
لیکن جب وہ یہ تین بول دل وجان کے ساتھ بول دیتا ہے تواس کی زندگی میں سب سے پہلی تبدیلی یہ آتی ہے کہ شادی کے اگلے دن وہ بستر کے صرف ایک طرف سے اترتا ہے ،اس کی آزادی آدھی رہ جاتی ہے پہلے تو سب اپنی مرضی سے چلتا تھا اب مرضی میں ٹانگ اڑانے والی بھی آگئی ہے ، جب تک بیوی نئی ہوتی ہے اس کا کہیں اور دل نہیں لگتا،ہر وقت اس کے پہلو میں بیٹھے رہنے کا من کرتا ہے لیکن جیسے جیسے پرانی ہوتی جاتی ہے تو پھر بیوی میں دل نہیں لگتا اور شوہر پہلو میں بیٹھا ٹی وی کے چینل ہی بدلتا رہتا ہے،سہاگ رات کی بیوی اور آگے کی ہر رات والی بیوی میں بڑا فرق ہوتا ہے، بیوی شروع شروع میں آپ کے تمام کام کرتی ہے بعد ازاں آپ کا ہی کام تمام کرتی ہے، کسی نے صحیح کہا ہے کہ محبوبہ کو بیوی بنانا آسان ہے مگر بیوی کو محبوبہ بنائے رکھنے کے لیے پوری تنخواہ، پورا دل، پوری آنکھیں، پورا بیڈ روم اور پوری صاف ستھری نیت کی ضرورت ہوتی ہے،شادی کے بعد کچھ عرصہ تو شوہر بیوی کے نخرے اٹھاتا ہے لیکن پھر شاکی ہوجاتا ہے کیونکہ انسان ہر سال نیا سیل فون تو خرید لیتا ہے مگر بیوی بےچاری وہی پرانی چلتی رہتی ہے، شوہر کی آدھی عمر ماں کے ہاتھ کا کھانا کھاکر اور باقی آدھی عمر بیوی کے ہاتھ کا کھانا کھاکر گزرجاتی ہے، جو شوہر بیوی کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے ان کی عمر دراز ہوتی ہے اور جو کھاتے ہیں انہیں اپنی عمر دراز لگتی ہے، شوہر کی حالت کھانے کی میز پر ایسی ہوتی ہے جیسے کسی شخص کے سامنے کھائی ہے اور پیچھے سانپ کھڑا ہے ، اگر کھانا خراب ہو اور بیوی سے نمک کم ہونے کی شکایت کردے تو بیوی کتنے دن اس بات پر ہی اسے طعنے دے دے کر ڈستی ہے اور اگر دل رکھنے کیلئے جھوٹی تعریف کردے تو ہمیشہ ویسا ہی کھانا نصیب ہوتا رہتا ہے اور شوہر کا دل کرتا ہے کہ کسی کھائی میں کود کر جان دیدے ، کھانے کی جھوٹی تعریف بھلے اچھی لگے نہ لگے لیکن بیوی کی تعریف کرتے ہوئے اگر شوہر جھوٹ بھی بولے تو بھی بہت اچھا لگتا ہے ، چونکہ بیوی کی تعریف کرنا شوہر کا نکاحی فریضہ ہے تو اس کیلئے تن ، من اور دھن سے شوہر جتنا بھی جھوٹ بولے وہ قابلِ معافی ہے، شوہر کبھی یہ نہیں چاہتا کہ اس کی بیوی اس سے دور رہے لیکن بچہ اس دنیا میں قدم رکھتے ہی اس خواہش پر حملہ کرتا ہے ، ہر بچہ شوہر اور بیوی کے درمیان ایک اینٹ کی طرح ہوتا ہے اور جیسے جیسے بچے ہوتے جاتے ہیں یہ اینٹوں کی دیوار شوہر اور بیوی کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ شوہر ایک دن اسی جگہ بیٹھا ہوتا ہے جہاں وہ شادی شدہ جوڑوں کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا اور اب وہ وہاں بیٹھا کنواروں کو اشک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور کہتا ہے
تقدیر ہے مگر قسمت نہیں کھلتی
تاج محل بنانا چاہتا ہوں ممتاز نہیں مرتی
پرنس کی کتاب" آ بیل مجھے پلیز مار" سے اقتباس

Monday, June 16, 2014

کنوارے ہیں تو کیا ہوا دل والے ہیں....... زریاب شیخ

پاکستان میں مہنگائی، بےروزگاری کا سب سے زیادہ نقصان کنوارے نوجوانوں کو ہوا ہے اور ان کی تعداد میں  بھی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، پہلے وقتوں میں صرف کنوارے ہوتے تھے لیکن اب کنواروں کی بھی کئی قسمین مارکیٹ میں آگئی ہیں ان میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ کنوارے ٹھنڈے کنوارے کہلاتے ہیں جن کو عرف عام میں ٹھرکی کنوارے بھی کہا جا سکتا ہے، یہ لوگ جب بھی کسی حسین  چہرے کو دیکھتے ہیں تو ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں ، ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ دل کی بات اپنے محبوب سے کہہ سکیں ، بس اس کا دیدار کرکے آنکھیں ٹھنڈی کرتے ہیں اور ایک دن ان کے سامنے ہی وہ ڈولی میں بیٹھ کر چلی جاتی ہے اس بےچاری کو اپنے اس ٹھنڈے عاشق کا پتہ بھی نہیں ہوتا اور یہ بےچارا بیٹھے بٹھائے ماموں بھی بن جاتا ہے، ایک کنواروں کی قسم آوارہ کنوارے کہلاتے ہیں یہ بالکل آوارہ کووں کی طرح ہوتے ہیں دن بھر کبھی کسی کے پیچھے تو کبھی کسی کے پیچھے اور رات کو خوار ہوکر گھر آتے ہیں ، یہ قسم آپ کو گلی محلوں کے کونوں ، سکول،  کالجوں کے باہر درجنوں کے حساب سے ملے گی ، یہ بےچارے صبح بن سنور کر نکلتے ہیں کہ شاید ان کی بھی سنی جائے، لڑکیاں ان کو دیکھ کر ہنستی ، مسکراتی ہیں یہ اسی پر خوش ہوجاتے ہیں ، یہ بھی کبھی کسی کو اپنی محبوبہ بنا لیتے ہیں تو کبھی کسی کو اپنی جان کہہ دیتے ہیں اور جب کسی کے دو ہاتھ پڑ جائیں تو جان ہی نکل جاتی ہے،، ایک کنواروں کی قسم ایزی لوڈ کنوارے ہے یہ دل کے بڑے سخی ہوتے ہیں کوئی لڑکا بھی ان کو لڑکی بن کر فون کردے تو یہ خوشی سے رات بھر تکیہ کو سینے سے لگا کر اچھے اچھے خواب دیکھتے رہتے ہیں ، یہ دیکھنے میں کمزور ہوتے ہیں کیوں کہ ان کو جو رقم کھانے کو ملتی ہے یہ ایزی لوڈ کر دیتے ہیں کہ چلو محبت میں صدقہ دیدیا تو کیا ہوا ، ان بےچاروں کی جیب خالی ہو جاتی ہے لیکن کوئی دلربا نہیں بنتی،  ایک کنواروں کی قسم پڑھاکو کنوارے کہلاتی ہے ان کے پیچھے لڑکیوں کی لائن لگی ہوتی ہے لیکن یہ سب کو بہن اور باجی کہہ کر اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہیں اس چکر مین ان کے بال بھی سفید ہو جاتے ہیں اور اپنے مستقبل کو سنوارتے سنوارتے ایسی نوبت بھی آجاتی ہے کہ جو لڑکی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے اس کی بیٹی بھی جوان ہو جاتی ہے اور یہ بے چارے اس وقت سرد آہ بھر کر رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کاش اس طرف بھی کوئی دھیان دیا ہوتا اور ایک کنوارے شادی شدہ ہوتے ہیں ارے آپ پریشان ہوگئے لیکن یہ بالکل سچ ہے جب شادی کے بعد بچے ہوجائیں تو شوہر کا حال بھی ٹھنڈے کنواروں جیسا ہی ہوتا ہے جو اپنی بیوی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے اور بیوی اپنے بچوں سے کھیلنے میں مصروف ہوتی ہے اورشوہر بےچارا کیبل پر لگی پرانی فلم دیکھ رہا ہوتا ہے اور رات کو کروٹ بدل کر سوجاتا ہے۔


پرنس کی کتاب"کنوارے مرغے" سے اقتباس

Saturday, June 14, 2014

محبت ہے میری جان ایک ٹوپی ڈرامہ .............. زریاب شیخ

محبت  کسی ایک کا ہو جانے کا نام ہے  لیکن یہاں تو محبت کے نام پر لوٹ سیل لگی ہے ، کوئی دن میں رانجھا بنا ہے , دوپہر کو ماہیوال ، رات کو پنوں اور آدھی رات کو گبر سنگھ بن جاتا ہے ، آج کے نوجوان کی محبت بھی شعلے کی طرح ہے ایک دم لگتی ہے اور ایک دم بجھ بھی جاتی ہے ، شاید ملک میں گیس بحران کی وجہ سے شعلہ زیادہ دیر تک نہیں جلتا، ماہرین کا کہنا ہے پاکستان کے نوجوانوں کی محبت بھی ایک فلم کی طرح ہوگئ ہے ، سینما کی فلم دیکھنے کا خرچہ تو کم ہی ہوتا ہے لیکن محبت کی فلم کا خرچہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، دل اور دماغ تو ویسے ہی فارغ ہوجاتا ہے ساتھ ہی ساتھ  جیب بھی صاف ہوجاتی ہے پھر مجنوں بن کر عاشق در در پھرتا اپنی محبوبہ کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے اور کچھ دن بعد جب ہوش ٹھکانے آتے ہیں ایک اور محبت ہوچکی ہوتی ہے ، کہتے ہیں محبت کی نہیں جاتی ہوجاتی ہے اور یہ بھی سنا ہے کہ سچی محبت صرف ایک سے ہی ہوتی ہے لیکن ہماری نوجوان نسل چونکہ بچپن سے ہی ملاوٹی اشیاء کھا کر بڑی ہوئی ہے تو ان کی محبت میں بھی ملاوٹ کافی زیادہ ہوگئ ہے اب ایک لڑکے کی کئی گرل فرینڈز ہوتی ہیں اور ایک لڑکی کے کئی بوائے فرینڈز ہوتے ہیں اور جس محبوب سے اس کا جی بھر جائے اس بھائی کی لسٹ میں ڈال دیتی ہے لیکن بےچارا نوجوان بہت ہی کمزور ہے مر جائے گا لیکن اپنی محبوبہ کو بہن نہیں کہے گا کیوں کہ ماموں بننا اس کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، وقتی محبت نے رشتون کی اہمیت بالکل ہی ختم کردی ہے ، دوستوں میں لڑائی صرف اس لئے ہوجاتی ہے کہ یہ تیری بھابی ہے ، نہیں یہ تیری بھابی ہے اور سب دوست ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں ، اس کے برعکس لڑکیوں میں بھائی چارہ زیادہ ہوتا ہے سب ہی ٹرائی مارتے مارتے گرل فرینڈز بن جاتی ہیں لیکن کہتی یہ ہی ہیں ارے وہ تو میرا بھائی ہے اور پھر اس بھائی کی حالت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ الطاف بھائی کی شکل دیکھ کر بخوبی لگا سکتے ہیں

پرنس کی کتاب "بھائی بھائی کی لوسٹوری" سے اقتباس

محبت کرنے والے بکواس کرتے ہیں........... زریاب شیخ




عشق کا شوق آج کل ہر ایک کے سر چڑھا ہے، جس کو دیکھو کسی نہ کسی کے ساتھ تعلقات بنا رکھے ہین شادی شدہ بھی محبت کے نام پر ٹھرکی بنے ہوئے ہیں ، جب پوچھو تو کہتے ہیں عاشق ہیں ، یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا شرک ہے اسی طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کے سوا کسی دوسری لڑکی کی طرف محبت سے دیکھنا بھی شرک سمجھتا ہے، جو مسلمان اللہ کے ساتھ محبت کے نام پر شرک کرنا معیوب نہین سمجھتے وہ کسی لڑکی سے محبت کے بعد دوسری لڑکیوں سے بھی عشق کرنا گناہ نہیں سمجھتے ، سچی محبت اپنے محبوب کیلئے ہو جانے کا نام ہے ، جب کسی محفل میں ہو تو بس اسی کا سوچے، جب گھر ہو تو دوسری لڑکیوں سے ٹائم پاس کرنے کی بجائے وہ وقت اپنے محبوب کو دے ، ایک عاشق کا پیار ، اس کی محبت، اس کی چاہت، اس کی تڑپ سب کچھ اس کے محبوب کی امانت ہے ، جھوٹ بولتے ہیں وہ سب جو آج عشق کے دعوے کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ تو بس صرف اپنے محبوب سے ہی پیار کرتے ہیں، آپ کا محبوب آپ کی پرچھائی ہوتا ہے ، اگر آپ اپنے محبوب کو وقت دیں گے اپنا پیار دیں گے اپنا جنون دیں گے ، اپنی مسکراہٹ دیں گے ،تو کسی اور لڑکی کی طرف آپ کا دھیان ہی نہیں جائے گا ، جو اپنے محبوب کا ہو جائے تو اسے کسی کی ضرورت نہیں رہتی جس طرح جب کوئی اللہ کا ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی اوقات نہیں رہتی، آج محبت کے نام پر جسم لوٹنے والے عیاش بیٹھے ہیں ، محبت کے نام پر لڑکیاں عزتیں تار تار کر رہی ہیں ، کیا یہ محبت ہے ، کوئی جاہل ہی اس کو محبت کا نام دے گا ، جو لوگ سچی محبت کرتے ہیں وہ نہ ٹھرکی ہوتے ہیں نہ عیاش ہوتے ہیں اور نہ ہی ہوس کے پجاری ہوتے ہیں ، تم سب اپنے گریبان میں جھانکو کیوں کہ تم سب جھوٹے ہو ، دھوکے باز ہو، اگر آج سچے عاشق ہوتے تو دنیا میں عورت کی عزت سر بازار یوں نیلام نہ ہو رہی ہوتی ، لڑکے اپنی گرل فرینڈز کی تصویریں دوسروں کو نہ دکھا رہے ہوتے، جوس کی دکانوں پر جوڑے رنگ رلیاں نہ منا رہے ہوتے ، محبت کے نام پر شرک کرنے والوں تم میں سے کسی کو محبت نہیں ، کسی کو محبت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

پرنس کی کتاب "شرکیہ محبت" سے اقتباس

Wednesday, June 11, 2014

یہ لفظوں کا کھیل ہے پیارے..........زریاب شیخ

یہ لفظوں کا کھیل ہے پیارے..........زریاب شیخ

لفظوں کا استعمال بھی ایک فن ہے اگر کسی کو اس فن پر عبور حاصل ہو جائے تو اس کیلئے کسی کے دل میں اترنا مشکل نہیں ہوتا ، موقع محل اور حکمت سے انسان کسی کا بھی دل جیت سکتا ہے اور اگر عادت کا ٹھرکی ہو تو دل جیتنا اور بھی آسان ہوتا ہے ، بعض اوقات آپ کسی کی دل سے تعریف کرتے ہیں لیکن اس کا الٹا اثر ہوتا ہے ، جیسے کوئی لڑکا کسی لڑکی سے کہے کہ آج تو تمھارا چہرہ بالکل کریلے جیسا لگ رہا ہے ، حالانکہ کریلا بڑی بہترین سبزی ہے لیکن لڑکی ایک دم سے بھڑک اٹھے گی اور پیر پٹختی چلی جائے گی اور اگر آپ کہیں کہ جان آج تم تو بھنڈی جیسی لگ رہی ہو تو وہ خوشی سے آپ کو اپنے پیسوں سے کھانا بھی کھلا دے گی وہ اس لئے کہ بھنڈی لڑکیوں کو بہت پسند ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو اس کو انگریزی میں "Lady Finger" جو کہتے ہیں اور آج کل کی لڑکیوں کو ہر کام میں انگل کرنے کی عادت ہو چکی ہے اسی وجہ سے انگلیوں پر نچانا محاورہ ایجاد ہوا ، لفظوں کے کھیل میں کسی کا دل ٹوٹتا ہے تو کسی کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے جیسے کسی لڑکی کو اگر آپ کہیں جان تم بہت خوبصورت ہو تو اس کا خوشی سے 20 کلو وزن بڑھ جائے گا لیکن اگر اسے یہ کہیں جان سچ بتاوٓں تو تمھاری سہیلی تم سے بھی زیادہ خوبصورت ہے تو اس کا نہ صرف دل ٹوٹ جائے گا بلکہ آنسووٓں سے میک خراب ہونے پر وہ دو تھپڑ بھی مار کر جائے گی ، آج کے دور میں لفظوں کا استعمال کرنا لوگ بھولتے جارہے ہیں ایک دم سے غصے میں منہ سے ایسا لفظ نکل جاتا ہے کہ پرانی سے پرانی دوستی بھی ختم ہو جاتی ہے ، اب گالیاں زبان زد عام ہیں ، وہ دن دور نہیں جب لفظوں کی جنگ سے ہی جنگیں ہوں گی آج سے چودہ سو سال پہلے بھی ایسا ہی ہوتا تھا اور آج کے دور میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے فرق یہ ہے کہ اس وقت کسی لڑکی کو جان کہنے پر لوگ ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر آ جاتے تھے اور آج کے دور میں اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو باجی کہہ دے تو وہ جان سے مارنے پر اتر آتی ہے ۔۔

Tuesday, June 10, 2014

مرد مرد ہوتا ہے اور اور اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

 پاکستان میں مرد دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں اور دوسرے جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں جو نظریں اٹھا کر چلتے ہیں ان کی اکثریت گری ہوئی ہوتی ہے اور جو نظریں جھکا کر چلتے ہیں ان میں اکثر خوش نصیبوں کو زمین پر گرے پیسے مل جاتے ہیں، اگر اسلامی نقطہ نظر دیکھا جائے تو پاکستان میں مرد ہوتا بھی  ہے اور مرد ہوتی بھی  ہے جو مرد ہوتا ہے اس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اور جو ہوتی ہے اس کا ظاہر اپنے نفس اور عورت کیلئے ہوتا ہے ، سانسدان ابھی تک اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ عورت کے چہرے پر بال آجائیں تو اسے مزاق میں مرد سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن مرد اگر چہرہ عورت کی طرح بنالے تو اسے مرد ہی کہا جاتا ہے، پاکستان میں جو مرد ہوتا ہے وہ خود کو عورت اور دنیا کے سامنے نمایاں کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اس کیلئے سب حدیں پار کر جاتا ہے اور اللہ کے سامنے بےنمایاں ہوجاتا ہے جبکہ جس کا ظاہر اللہ کیلئے ہوتا ہے اس کو لڑکیاں مولوی کہہ کر ویسے ہی ٹھوکر مار دیتی ہیں ، لوگوں کے مذاق اڑانے کے باوجود اگر وہ صحیح راستے پر رہے تو اللہ کے سامنے نمایاں ہو جاتا ہے ، حیرت اس بات پر ہے کہ ٹی وی پر چلنے والے اشتہار  ایسے ہوتے ہیں جیسے ڈاڑھی منڈھا نوجوان نہیں کوئی مقناطیس ہے اور لڑکیاں کھنچی چلی آتی ہیں لیکن حقیقت میں ان بےچاروں کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے ، کبھی گرمی میں کالج کے باہر کھڑا ہونا پڑتا ہے تو کبھی ایزی لوڈ کروا کر خود پر جبر کرنا پڑتا ہے ، رات کو جانو کہہ کہہ کر ان کے دل میں اترنے کی کوشش میں آنکھوں کے گرد کالے ہلکے بنا لیتے ہیں، آج کی نوجوان نسل ظاہر دیکھ کر ایک دوسرے پر مرتی ہے اور شادی کے بعد ایک دوسرے کو مارتی  ہے اور پھر علیحدہ ہونے کے بعد گھر والے لفظوں کی مار مارتے ہیں ،

پرنس کی کتاب" ہے کوئی مرد ؟" سے اقتباس

Monday, June 9, 2014

یہ احساس کہ تم صنف نازک ہو...... زریاب شیخ


صنف نازک دنیا میں آنے کے بعد سے ہی مشکل کا شکار رہی ہے، پہلا قتل بھی اس بےچاری کی وجہ سے ہوا ، مشرکین بیٹی کو پیدا ہوتے ہی مار دیتے تھے اور شوہر مر جائے تو بیوی کو بھی زندہ دفنا دیا جاتا تھا اور یہ صورتحال آج بھی جاری ہے ، یونان میں عورت کی زندگی پاوں کی جوتی سے بھی بدتر تھی ، عورت کو صرف دل لبھانے کی چیز سمجھا جاتا تھا اور جب دل بھر جاتا تو مار کر پھینک دیا جاتا تھا، مغرب نے عورت کو آذادی کے نام پر گھر سے نکالا ، اپنی نظروں کی پیاس بجھانے کیلئے عورت کو ایسا مجبور کیا کہ اسے کم سے کم لباس کی ہی عادت پڑ گئی ، اس کو ایک پراڈکٹ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا، کسی امیر شخص کے ساتھ چار پانچ لڑکیاں ہونا فخر سمجھا جانے لگا یہ اور بات ہے کہ اب یہ سب کچھ بھی فیشن بن چکا ہے، اسلام نے عورت کو عزت دی ایک مقام دیا، اس کے سر کو ڈھانپا اس کے جسم کو لباس دیا ، اسے حیادار بنایا لیکن مسلم ممالک میں وقت کے ساتھ ساتھ باہر کی ہوا نے عورت کو پھر بدلنا شروع کردیا ، مغرب کی طرف سے مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کے تصور نے معاشرے کا نظام خراب کرنا شروع کردیا اور اب تو حال بہت برا ہو چکا ہے، میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا سب جگہ عورت کو صرف اس لئے دکھایا جاتا ہے کہ مردوں کی آنکھیں ٹھنڈی کی جاسکیں ، چلیں مان لیتے ہیں کہ عورت کو آزادی دی گئی ، مردوں کے برابر کام کرنے کے مواقع دیئے گئے لیکن ان سب کا فائدہ بھی مرد کو ہی ہوا، عورت جہاں بھی جاتی ہے آج بھی غیر محفوظ ہے ، بےچاری اگر ماڈرن لباس پہنے تو لوگ اس کا لباس ہی تار تار کردیتے ہیں ، ہنس کر بات کرے تو اس کی مسکراہٹ ہی چھین لیتے ہیں، اگر وہ اعتبار کرکے اپنا سب کچھ کسی کو غلطی سے سونپ دے تو پھر اسے اتنا بلیک میل کیا جاتا ہے کہ خودکشی ہی اس کا مقدر بن جاتی ہے، بیوہ ہو جائے تو شادی کرنے پر کوئی راضی نہیں ہوتا لیکن ویسے سب کچھ کرنے پر ہر ایک تیار نظر آتا ہے ، ایک لڑکی گھر سے دفتر یا بازار جاتی ہے اور جب واپس آتی ہے تو کتنی بار یہ ہی سوچتی ہے کہ کاش میں لڑکا ہوتی ، مرد نے عورت کو ہمیشہ ایک ڈش ہی سمجھا ہے ، کھانے کے بعد ڈکار ماری اور اگلے دن پھر ایک نئی ڈش کی طلب شروع کردی ، کیا عورت کی قسمت میں صرف مرد کو لبھانا ہی لکھا ہے، کیا عورت کے دل کی کوئی اہمیت نہیں بس جسم ہی کی سب کو ضرورت ہے، کیا اس کی مسکراہٹ کی کوئی قیمت نہیں ، عورت کا اس معاشرے میں وہ حال کردیا گیا ہے کہ وہ جہاں بھی جاتی ہے سب سے پہلے اس کی عزت پر ہی ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ، موبائل پر لڑکیوں سے دل بھیلا کر ان کی آواز ریکارڈ کرکے بلیک میل کیا جاتا ہے ، فیس بک پر لڑکیوں سے دوستی کرکے گھومنا پھرنا اور پھر ان کے فیس پر ہمیشہ کیلئے کالک مل دینا عام بات ہو چکی ہے ، عورت کا اعتبار اور اعتماد کے نام پر سب کچھ لوٹ لیا جاتا ہے ، اگر گھر والوں کی مرضی پر چلے تو محبوب مار دیتا ہے اگر اپنی مرضی کرے تو گھر والے مار دیتے ہیں اور پتہ نہیں کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ، کب تک عورت کی تذلیل ہوتی رہے گی ۔ اللہ کہتا ہے کہ تم میرے بندوں کے عیب چھپاو میں قیامت کے دن تمھارے عیب چھپاوں گا، مان لیتے ہیں کہ لڑکے لڑکیوں سے غلطی ہو جاتی ہے لیکن اگر لڑکے اس غلطی کی تشہیر نہ کریں تو شاید بہت سی زندگیاں بچ چائیں۔
پرنس کی کتاب"مرجھائی ہوئی کلیاں" سے اقتباس

Sunday, June 8, 2014

ایک بھائی کی کہانی بھائی کی زبانی ......... زریاب شیخ


لفظ بھی گولی کی طرح ہوتے ہیں اور انسان کے دل پر اثر کرتے ہیں جیسے آپ کا دوست آپ سے کہے کہ وہ دیکھ لڑکی تجھے دیکھ رہی ہے تو آپ کے دل پر یہ الفاظ گولی کی طرح لگیں گے اور آپ کہیں گے اوئے کدھر کدھر ، لفظوں کو بولنے سے پہلے تولنا بہت ضروری ہوتا ہے ، ہم لوگ اپنے دوستوں کو غصے میں جانوروں کے نام سے پکارنا معیوب نہیں سمجھتے لیکن جانوروں نے کئی بار اس پر اعتراض کیا ہے اور انسانوں پر کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے ، ماضی کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 80 % نوجوانوں کو ایک لفظ سے شدید غصہ آتا ہے اور وہ لفظ ہے " بھائی جان" لیکن اگر یہ ہی لفظ کسی شادہ شدہ خاتون کے سامنے کوئی عورت اس کے شوہر کیلئے استعمال کرے تو وہ عورت شدید خوش ہوتی ہے ، حال ہی میں ایک غیر سرکاری تنظیم بھائی بھائی آرگنائزیشن نے سروے رپورٹ میں کہا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب لڑکیوں نے صرف بھائی کہنا کم کردیا ہے لیکن اس کے برعکس لڑکوں نے "باجی" کہنا زیادہ کردیا ہے کیوں کہ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے اور لڑکے اب لڑکیوں کی طرف کم اور اپنی جیب کی طرف زیادہ دیکھتے ہیں ،

پرنس کی کتاب " بھائی جان سے جان تک" سے اقتباس

تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا....................... زریاب شیخ


پاکستان میں خواتین کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی لیکن سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ فیس بک پر خواتین کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے ، سائنسدان محو حیرت ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی تعداد 48 فیصد ہے جبکہ فیس بک پر 60 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے ، ایک حیرت ناک انکساف یہ بھی ہوا ہے کہ چند برسوں میں پاکستان کے نوجوانوں میں شادی نہ کرنے کا رجحان کافی بڑہ گیا ہے ، لاہور میں ایک لڑکے نے دل و جان کے ساتھ ایک لڑکی سے اظہار محبت کیا اور جب اس کا دیدار کرنے گیا تو وہ کافی موٹا تازہ جوان نکلا اور اس بے چارے محبوب کا آئی لو یو کہنے کا شوق ہارٹ فیل بن کر نکل گیا، پاکستان میں سینکڑوں لوگ لڑکی بن کر دوسروں سے نہ صرف بیلنس منگواتے ہیں بلکہ ان بےچاروں کے دل و دماغ کا بھی حشر نشر کر دیتے ہیں ، مصنف کو بھی ایک بار اس تجربے سے گزرنا پڑا جب اس کے دوست نے لڑکی کی آواز میں اس کا دل بہلانے کی کوشش کی ، اللہ نے بچا لیا ورنہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے، انسان کے جسم میں دل سب سے قیمتی حصہ ہوتا ہے اور اس سے کھیلنے والے یقیناً دل جلے ہوتے ہیں لیکن سائنسدان کہتے ہیں کہ لڑکی بن کر فیس بک اور ٹیلی فون پر باتیں کرنے والے اندر سے لڑکی ہی ہوتے ہیں اور بے چارے جو ان کے ساتھ پھنس جائیں وہ ٹھرکی ہی ہوتے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر روز سینکڑوں نقلی گرلز کی آئی ڈی بنائی جاتی ہیں اور لوگوں کو الو بنایا جاتا ہے ، اس سے پہلے عاصمہ نامی لڑکی لوگوں کو کافی الو بنا چکی ہے اس لئے میری دوستوں سے گزارش ہے کہ لڑکی کو ایزی لوڈ کروانے سے پہلے ایک بار اس کی امی سے پوچھ لیں کہ کیا ان کی بیٹی ہی ہے یہ نہ ہو کہ جیب بھی خالی ہو جائے اور عاصمہ بعد میں عاصم نکلے اور نقلی آئی ڈی بنانے والی لڑکیوں سے مصنف یہ ہی کہہ سکتا ہے کہ مرد بنوں میری بہنوں اور ایسی حرکتیں نہ کرو

پرنس کی کتاب" مرد حسینہ 420" سے اقتباس

Thursday, June 5, 2014

لائن لائن ہوتی ہے پین سے مارو یا آنکھ سے




بچپن میں جب ہاتھ میں پین یا پینسل آ جاتی تھی تو فوراً امی بولتی تھی ارے اس سے پینسل پکڑو کہیں دیوار پر لائن نہ مار دے, اس کے بعد جوانی میں قدم رکھا اور کالج جانا شروع کیا تو والدہ نے کہا کہ بیٹا کام پر دھیان دینا لڑکیوں پر لائن نہ مارنا ، عجیب بات ہے کہ بچپن میں والدہ پینسل سے لائن مارنے نہیں دیتی تھیں بڑے ہوئے تو بھی لائن مارنے پر پابندی لگادی گئی ، حیرانگی اس بات پر ہے کہ پین یا پینسل سے لائن مارنا تو سمجھ آتی ہے لیکن آنکھ سے لائن مارنا یہ بات تو سائنس بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکی ہے ، ہاں آنکھ مارنا یہ تو میں بھی کئی بار ثابت کرچکا ہوں ، کچھ دن پہلے میری اپنے ضمیر سے ملاقات ہوئی اور یہ ہی بحث چھڑ گئی  وہ بولا کہ آنکھ سے بھی لائن ماری جاتی ہے جس طرح پین سے لائن ماری جائے تو دیوار خراب ہو جاتی ہے اسی طرح اگر کسی لڑکی پر آنکھ سے لائن ماری جائے تو لڑکی کی عزت خراب ہو جاتی ہے اسی لئے مرد کو نظر جھکا کر چلنے کا حکم ہے ، میں اپنے ضمیر کی بات سن کر بہت متاثر ہوا اور تب سے میں نے کالا چشمہ پہننا شروع کردیا ہے ایک تو صنف نازک کی عزت بھی محفوظ رہتی ہے اور لائن مارنے کا پتہ بھی نہیں چلتا :p


پرنس کی کتاب"آف لائن مارنے کے طریقے" سے اقتباس

Monday, June 2, 2014

لڈی ہے جمالو پاو لڈی ہے جمالو................

سلمی بہت خوش تھی اسے بہت ہی اچھا لڑکا مل گیا تھا بالکل اس کے خوابوں کے شہزادے کی طرح تھا ، وہ حیران تھی کہ جو اس کے خوابوں میں آکر اس کی نیندیں اڑا دیتا تھا حقیقت میں بھی اسے مل جائے گا اس نے تو مستبقبل کے حوالے سے پتہ نہیں کیا کیا سوچ لیا تھا اور ساتھ ہی وہ دل ہی دل میں اپنی سہیلیوں کو جلانے کا منصوبہ بھی بنا چکی تھی جو اپنے بوائے فرینڈز کی تصویریں دکھا کر اس کا دل جلاتی رہتی ہیں، وہ کالج کے پارک میں بیٹھی ااس لڑکے کو دیکھ رہی تھی، اس کی مسکراہٹ اس کی آنکھوں کو دیکھ کر اس کے دل کی دھڑکن بار بار تیز ہو جاتی تھی، جیسے ہی وہ اس کی طرف دیکھتا تو وہ شرما کر نظریں جھکا لیتی ، اس دوران سلمی نے دیکھا کہ اس کی سہیلیاں بھی پارک میں آرہی ہیں تو وہ ایک دم سے گھبرا گئی لیکن پھر اس نے خود کو حوصلہ دیا اوراس لڑکے  کی طرف قدم اٹھانے شروع کردیئے، وہ کن انکھیوں سے اپنی سہیلیوں کی طرف بھی دیکھ رہی تھی اور پھر تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی وہ اس نوجوان کے قریب پہنچ گئی اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا وہ سوچ رہی تھی کہ کیا وہ اس لڑکے سے اظہار محبت کر پائے گی ، اسکی سہیلیاں بھی اسی طرف آرہی تھیں جس پر وہ اور زیادہ گھبرا رہی تھی ابھی وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ لڑکے کی نظر اس کے چہرے پر پڑی وہ اس کی آنکھوں میں جیسے کھو ہی گئی تھی لیکن جب اس لڑکے نے کہا کہ 
َ۔
۔
َ۔
۔
۔
۔
۔
۔
جی باجی آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے اور ساتھ ہی سلمی کے خوابوں کا گھر چکنا چور ہوگیا



پرنس کی پرانی کتاب"بینڈ باجا اور باجی" سے اقتباس