مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے میں چھت پر کھڑا بارش کی بوندوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک میری نظر اس پری زاد پر پڑی ، بارش کے باعث اس کے گال بالکل گلابی ہو چکے تھے ، بارش کے پانی میں اس کا بھیگا چہرہ بہت ہی پیارا لگ رہا تھا , اس کی پلکوں پر پڑے قطروں نے اس کی آنکھوں کو ستارے کی مانند روشن کردیا تھا ، جھکی جھکی سی اس کی نظر نے میرے دل پر جو تیر چلائے تو دل کی دھڑکن ہی تیز ہوگئی ، اس کی زلفیں میرے دل پر قیامت برپا کر رہی تھیں ، بارش کے قطرے اس کی آنکھوں پر، کوئی گالوں پر تو کوئی ہونٹون پر گر رہا تھا، اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں بھی بارش کا قطرہ ہوتا اور یوں ہی اس حسینہ کے گالوں پر گرتا تو مجھ پر کوئی حد نہ لگتی ، مجھے کوئی کچھ نہ کہتا ، میں اس نازنین کے چہرے کی سیر کرتا جو اس وقت چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی ، بارش میں وہ بھیگی ہوئی اور بھی خوصورت لگ رہی تھی ، بجلی چکمتی تو اس کا چہرہ اور بھی روشن ہوجاتا اس کے مسکراہٹ نے دل کی دھڑکن کو تیز کردیا تھا ، موتیوں جیسے دانت اس کے اس کی خوبصورتی میں بے انتہا اضافہ کررہے تھے ، میں یوں ہی پلک جھپکے اس کو دیکھ ریا تھا ، اس کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک کسی نے میرے سر پر چپت لگائی، مڑ کا دیکھا تو امی جان کھڑی تھیں ، کہنے لگیں کہ کب سے کہہ رہی ہوں کھانا کھالے تو یہاں کھڑا ہورڈنگ پر بنی اس لڑکی کی تصویر کو دیکھ رہا ہے ، میں سوچ رہا تھا کاش اماں تھوڑی دیر بعد آتیں اور یہ رومانس کچھ دیر اور چلتا تو کتنا مزہ آتا ، اف یہ دنیا پیار کی دشمن کیوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرنس کی کتاب"I - ME or Main Tharki " سے اقتباس
No comments:
Post a Comment