Sunday, August 17, 2014

زندگی ماں ہے ماں کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔ زریاب شیخ


وہ بستر پر لیٹی سانسیں گن رہی تھی ، آنکھوں کے سامنے ماضی فلم کی طرح چل رہا تھا، اسے اپنا مسکراتا چہرہ نظر آرہا تھا جب وہ جوان اور حسین تھی، اس کا شوہر ، اس کا لاڈلہ بچہ اور خوبصورت گھر سب کچھ تو تھا لیکن پھر سب کچھ بدل گیا،  شوہر کے دنیا سے جانے کے بعد تو  کچھ بچا ہی نہیں، جوانی میں بیوہ ہونے کے باوجود اس نے اپنے اکلوتے بچے کو پڑھایا تاکہ کل وہ کسی کے مھتاج نہ ہوں لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ آگے تو کچھ اور ہی لکھا ہے، اس کے گال آنسووٓں میں بھیگ گئے تھے جب شادی کے بعد اس کی بہو نے اس سے تنگ ہونا شروع کردیا تھا ، کتنی جلدی دن گزرے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور پوتے پوتیاں بھی ہوگئے لیکن وہ ان کو صحیح طرح پیار کرنے کو ترس گئی اور وہ قیامت کی گھڑی بھی آگئی جب اس کا بیٹا اسے سیر کے بہانے اولڈ ہوم میں چھوڑ کر چلا گیا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اپنے بچے اور پوتے پوتیوں کیلئے وہ دعا کر رہی تھی ، پاس بیٹھی بانو نے غصہ میں کہا بس کردے بس کردے ، ایسی اولاد اللہ کسی کو نہ دے ، تو یہاں مر رہی ہے اور بیٹا پوچھنے تک نہیں آیا ، اچانک دروازہ بجتا ہے اور ایک خوبصورت نوجوان اندر داخل ہوتا ہے ، ماں اپنے بچے کو دیکھتی ہے تو خوشی سے سب کچھ بھول جاتی ہے ، بانو غصہ میں وہاں سے نکل جاتی ہے ، بیٹا ماں کے پاس بیٹھا ہوتا ہے ، ماں اسے  دیکھتی رہتی ہے جیسے اپنی آنکھوں میں اتار رہی ہو، اس کے گال پر ہاتھ پھیرتی ہے ، آخر 20 سال بعد اس کا بیٹا اس کے پاس آیا تھا ، اچانک وہ بولی کہ بیٹا اس کمرے کے پنکھے بدل دینا یہاں اچھا سا پینٹ بھی کروانا، بیٹا ایک دم جھلا کر کہتا ہے ماں جب تم نے یہاں ہونا ہی نہیں تو کس کہ لئے یہ سب کرنا ہے ، تو ماں بولی بیٹا میں نے تو بیس سال خراب پنکھے کہ نیچے گزار لئے لیکن تیری ماں نہیں چاہتی کہ اس کا بیٹا بھی اسی طرح گزارے کل کو جب تیرا بیٹا تجھے یہاں چھوڑنے آئے گا تو کم سے کم پنکھا اور اچھا کلر تو ہوگا، یہ کہہ کر اس کی روح پرواز کر گئی ، بیٹا یہ سن کر کانپ اٹھا اور ماں کی ٹانگوں سے لپٹ کر رونے لگا مگر بہت دیر ہوچکی تھی ۔

پرنس کی کتاب"سچی کہانیاں" سے اقتباس

No comments:

Post a Comment