Wednesday, August 27, 2014

گلو ، گلو کردی میں اک دن بٹ ہوئی...........زریاب شیخ


جس طرح دنیا میں ہر انسان مختلف ہوتا ہے اسی طرح ہر عورت بھی مختلف ہوتی ہے اسی لئے ان عورتوں کو سب مرد ایک جیسے ہی  لگتے ہیں ، عورت کو سمجھنا اتنا آسان نہیں اس کیلئے مرد کے پاس دماغ ہونا ضروری ہے لیکن عورت کی موجودگی میں استعمال کرنا منع ہے کیوںکہ اگر آپ عورت کو سمجھنے کیلئے دماغ پر زیادہ زور دیں گے تو آپ کے پاگل ہونے کا خدشہ ہے ، سائنس کی حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس طرح ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اسی طرح ہر عورت کی کامیابی کہ پیچھے ایک "گلو بٹ" کا ہاتھ ہوتا ہے یہ گلو بٹ ہر عورت کے اندر ہوتا ہے اور یہ کسی بھی وقت جاگ سکتا ہے، اگر کوئی مرد کسی غیر عورت سے مسکرا کر بات کرے تو ایسے موقع پر کوشش کرے کہ اس کی بیوی سامنے نہ ہو کیونکہ اس طرح اس کی بیوی کے اندر سویا ہوا گلو بٹ فوراً جاگ جائے گا اور بھلے آپ اس خاتون سے باجی باجی کہہ کر بات کر رہے ہوں آپ کی بیوی آپ پر شک ہی کرے گی ، سائنس کہتی ہے کہ جس طرح مسلم لیگ کا گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑتا ہے اسی طرح عورت کے اندر چھپا گلو بٹ اس کے دماغ کو ڈنڈے مارتا ہے جس کے بعد عورت کو کچھ سمجھ نہیں آتی اور وہ ایک دم سے غصے میں آجاتی ہے ، ہر مرد کو کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی ایسا کام نہ کرے جس کی وجہ سے اس کی زندگی خراب ہوجائے، ہر عورت میں پیار اس کے غصے پر غالب آجاتا ہے ، ایک مرد کو خود کو ایسا بنانا چاہیے کہ عورت کو ہمیشہ اس پر پیار ہی آئے حتیٰ کہ عورت میں چھپے گلو بٹ کو بھی آپ سے پیار ہوجائے، ایک عورت کو سمجھنے کیلئے پہلے اس کے اندر موجود گلو بٹ کو سمجھنا ہوگا، اگر آپ اس گلوبٹ کو قابو میں کرلیں تو وہ عورت آپ سے نہ صرف خوش ہوگی بلکہ ہمیشہ آپ پر اپنی جان وارتی رہے گی ، ایک مرد جب اپنی بیوی کی بجائے کسی اور لڑکی پر ڈورے ڈالتا ہے تو اس عورت کا گلو بٹ اور اس کی بیوی کے گلو بٹ میں شدید دشمنی شروع ہوجاتی ہے اور ان دونوں بٹوں کے درمیان برا حال شوہر کا ہوتا ہے، اس لئے انسان جس سے پیار کرے تو اپنا تن ، من دھن بس اسی کیلئے رکھے، سائنس کہتی ہے کہ عورت میں اگر یہ گلو بٹ نہ ہو تو مردں کو قابو کرنا بہت مشکل ہوجاتا،


پرنس کی کتاب"گلو بٹ کی دیوانی" سے اقتباس

میں تیری محبت میں پاگل ہوجاؤنگا........ زریاب شیخ


مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے میں چھت پر کھڑا بارش کی بوندوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک میری نظر اس پری زاد پر پڑی ، بارش کے باعث اس کے گال بالکل گلابی ہو چکے تھے ، بارش کے پانی میں اس کا بھیگا چہرہ بہت ہی پیارا لگ رہا تھا , اس کی پلکوں پر پڑے قطروں نے اس کی آنکھوں کو ستارے کی مانند روشن کردیا تھا ، جھکی جھکی سی اس کی نظر نے میرے دل پر جو تیر چلائے تو دل کی دھڑکن ہی تیز ہوگئی ، اس کی زلفیں میرے دل پر قیامت برپا کر رہی تھیں ، بارش کے قطرے اس کی آنکھوں پر، کوئی گالوں پر تو کوئی ہونٹون پر گر رہا تھا، اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ کاش میں بھی بارش کا قطرہ ہوتا اور یوں ہی اس حسینہ کے گالوں پر گرتا تو مجھ پر کوئی حد نہ لگتی ، مجھے کوئی کچھ نہ کہتا ، میں اس نازنین کے چہرے کی سیر کرتا جو اس وقت چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی ، بارش میں وہ بھیگی ہوئی اور بھی خوصورت لگ رہی تھی ، بجلی چکمتی تو اس کا چہرہ اور بھی روشن ہوجاتا اس کے مسکراہٹ نے دل کی دھڑکن کو تیز کردیا تھا ، موتیوں جیسے دانت اس کے اس کی خوبصورتی میں بے انتہا اضافہ کررہے تھے ، میں یوں ہی پلک جھپکے اس کو دیکھ ریا تھا ، اس کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا  کہ اچانک کسی نے میرے سر پر چپت لگائی، مڑ کا دیکھا تو امی جان کھڑی تھیں ، کہنے لگیں کہ کب سے کہہ رہی ہوں کھانا کھالے تو یہاں کھڑا ہورڈنگ پر بنی اس لڑکی کی تصویر کو دیکھ رہا ہے ، میں سوچ رہا تھا کاش اماں تھوڑی دیر بعد آتیں اور یہ رومانس کچھ  دیر اور چلتا تو کتنا مزہ آتا ، اف یہ دنیا پیار کی دشمن کیوں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرنس کی کتاب"I - ME or Main Tharki " سے اقتباس

تو میرا جانو ہے تو میرا دلبر... پرے ۔۔ مر ............ زریاب شیخ


دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو سب بوائے فرینڈز ایک جیسے نظر آئیں گے لیکن پاکستان میں آتے ہی بوائے فرینڈز کی بےشمار قسمیں بن جاتی ہیں ، پاکستان میں بوائے فرینڈز بننے کیلئے عمر کی حد 45 سال ہے اس کے بعد آپ لڑکی کے انکل تو بن سکتے ہیں اس کے بوائے فرینڈ کبھی نہیں بن سکتے ہاں کوئی معجزہ ہو جائے تو کچھ کہا نہیں جاسکتا، پاکستان میں بوائے فرینڈز کی پہلی قسم صرف ٹائم پاس کرنے کیلئے ہوتی ہے، ان کو "معصوم بوائے فرینڈز" کہا جاتا ہے یہ لوگ بوائے فرینڈ کم اور ٹھرکی زیادہ ہوتے ہیں ، جانو کو ایزی لوڈ کروا کر دیتے ہیں اور پھر جانو رات کو سونے کا بہانا بنا کر کسی اور کے ساتھ زندگی بھر ساتھ رہنے کی قسمیں کھاتی رہتی ہے،ان لوگوں کی محبت کبھی خوشی کبھی غم جیسی ہوتی ہے اور آخر کار ان بے چاروں کی شادی ارینج میرج ہی ہوتی ہے اور ڈر کے مارے یہ اپنی بیوی کو ماضی کے رنگین قصے بھی نہیں سناتے کہ کہیں بیوی مار ہی نہ لگا دے، دوسری قسم کے بوائے فرینڈز "غیرت مند بوائےفرینڈز"کہلاتے ہیں یہ ایک وقت میں صرف ایک لڑکی کے بوائے فرینڈ ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں اس کے بعد جب وہ لڑکی اس بےچارے کو لات مار کر چلی جاتی ہے تو پھر کسی اور کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے ہیں ، غیرت مند ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ یہ ایزی لوڈ کروا کرنہیں دیتے بلکہ اس طرح کی حرکتوں کی نفی کرتے ہیں لیکن اگر ان کو کوئی ایزی لوڈ کروا دے تو ان کی غیرت کو بالکل غیرت نہیں آتی، بات بات پر نصحتیں کرنے کے باعث لڑکی کی نظر میں یہ بوائے فرینڈ سے بھائی جان بن جاتے ہیں ان کی مدت محبت بہت تھوڑی ہوتی ہے اور بعد میں ان کی شادی بھی ارینج میرج ہی ہوتی ہے لیکن یہ ہمیشہ اپنی بیگم کے فرمانبردار ہوتے ہیں، تیسری قسم کے بوائے فرینڈز " تیس مارخان" کہلاتے ہیں یہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ پر بھی جاتے ہیں ، ان پر خوب پیسے خرچ کرتے ہیں اور دنیا کے سامنے شو مارتے ہیں کہ دیکھو لڑکیاں ہم پر مرتی ہیں ، یہ ہر محفل میں اپنی گرل فرینڈ کا بار بار زکر کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو خوب متاثر کرسکیں لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ اکثر  برا ہوتا ہے اور ان کی گرل فرینڈ ان ہی کے کسی دوست سے سیٹ ہو جاتی ہے اور پھر یہ کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے آخر میں ان کی شادی بھی ارینج ہی ہوتی ہے اور یہ بہت سخت شوہر ثابت ہوتے ہیں ہر وقت اپنی بیوی پر شک کرتے رہتے ہیں ، چوتھی قسم کے بوائے فرینڈز " رومیو بوائے فرینڈز" ہوتے ہیں اپنا تن ، من ، دھن سب کچھ لگا دیتے ہیں اور آخر دم تک اپنی محبت حاصل کرنے کیلئے لڑتے ہیں اور ایک دن وہ اپنی محبت پا لیتے ہیں اور شادی کے بعد ایک خوشگوار زندگی گزارتے ہیں اسی لئے میری ہمسائی جب بھی مجھے دیکھتی ہے تو کہتی ہے میرا رومیو آگیا اور اس وقت دل خوشی سے باغ باغ ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)


 پرنس کی کتاب"  دیسی رانجھے" سے اقتباس

Saturday, August 23, 2014

سالا ایک خان نے سب کو میراثی بنا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

ہمارے کچھ دوستوں کو عمران خان فوبیا ہوگیا ہے صبح اٹھتے ساتھ ہی امی ابا کی طرف دیکھنے کی بجائے سب سے پہلے تکیے کے نیچے سے عمران خان کی تصویر نکال کر دیکھتے ہیں ،  اگر لوز موش بھی لگے ہوں جب تک مسٹر خان کی تقریر ختم نہیں ہو جاتی باتھ روم کی طرف منہ بھی نہیں کرتے،بعض خواتین کا تو یہ حال ہوگیا ہے کہ اپنےشوہرمیں بھی عمران خان ڈھونڈ رہی ہیں ، کچھ دن پہلے ایک پی ٹی آئی کی سپورٹر کو دیکھا تو ناچتی ہوئی آرہی تھیں میں نے پوچھا خیریت ہے، کہنے لگیں عمران خان کی تقریر سن سن کر میرا انگ انگ پھڑک رہا ہے ، ایک نوبیاہتا دولہے کو بہت مرجھائے دیکھا تو پوچھا ارے میاں کیا بات ہے تو کہنے لگا ، ساری رات ہم حسرت سے بستر پر کروٹین بدلتے رہتے ہیں اور ایک ہماری بیگم ہیں رات بھر عمران خان کی تقریر سنتی ہیں اور ناچتی رہتی ہیں کہتی ہیں اتنامزہ تو اپنی مہندی میں ناچنے کا نہیں آیا جتنا عمران کی تقریر پر ناچنے کا آتا ہے ،پی ٹی آئی کے دھرنے سے سب سے زیاد نقصان ہیجڑوں کا ہوا ہے ان کا کاروبار بری طرح فلاپ ہو گیا ہے ، ایک ہیجڑے سے ملاقات ہوئی تو وہ روتا ہوا بولا کہ ارے ہم ہیجڑے ہی کافی نہیں تھے کیا، اس عمران خان نے تو پوری قوم کو ہی ہیجڑا بنا دیا ہے ۔ ہم نے سوچا تھا کہ مارچ میں جا کر ناچیں گے تو کمائی اچھی ہوگی اس خان نے تو پورے مجمعے کو ہی نچانا شروع کردیا ہے اب لوگ بھی کہتے ہیں کہ جو ناچ گانا آزادی مارچ میں مفت دیکھنے کو مل رہا ہے تو پیسے دے کر کیوں دیکھیں ، غرض یہ کہ مارچ نے ہر ایک کو ہی ہلا ہلا کر رکھ دیا ہے ، ، آزادی مارچ میں جہاں حمکرانوں کو کھل کر برا بھلا کہنے کی آزادی ہے وہاں بے حیائی کی بھی پوری آزادی ہے ، جوڑے اسلام آباد کی سڑکوں پر بن رہے ہیں ، ڈانس کرتے کرتے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے سے پیار ہوجاتا ہے ، عمران خان کے آزادی مارچ سے بھلے ملک میں کوئی تبدیلی آئے نہ آئے لیکن بعض خاندانوں کا ملاپ ضرور ہو جائے گا اور وہ وقت دور نہیں جب آزادی مارچ کے صدقے ملنے والا ہر جوڑا اپنے بچے کا نام عمران رکھے گا اور وہ اسی طرح پوری قوم کو نچایا کرے گا ۔

پرنس کی کتاب "پونڈ خان " سے اقتباس

Thursday, August 21, 2014

پرنس کے اقوال زریں............. زریاب شیخ

انسان میں اگر برداشت نہ ہو تو اس کی حالت بالکل اس شخص جیسی ہو جاتی ہے جس کو لوز موشن لگے ہوں اور گھر کا اکلوتا باتھ روم بھی مصروف ہو

پرنس کے شاہی ٹوٹکے..................... زریاب شیخ


اگر آپ کو شدید غصہ آئے تو اپنی گرل فرینڈ کا تصور کرکے اس کو دل میں باجی باجی کہیں فوراً ہی غصہ ایسے غائب ہوگا جیسے گدھے کے سر سے سینگھ
.
.
آپ کا بچہ رو رہا ہو تو محلے کی چھوٹی چھوٹی بچیاں وہاں بلا لیں وہ ان کو دیکھ کر رونا بھول جائے گا اور پھر زندگی میں کبھی نہیں روئے گا

صبح ، دوپہر ہو یا شام ، لیتا ہوں بس تیرا نام ۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ


آئی لو یو ۔۔۔۔ کہنے کو تو بہت ہی خوبصورت الفاظ ہیں لیکن جس طرح گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے اسی طرح جھوٹ ، دھوکہ اور ٹائم پاس نے ان لفظوں کی اہمیت بالکل ہی ختم کردی ہے ،ہر دوسرا شخص جس سے دو چار دن ہنس بول لے تو ساتھ ہی "آئی لو یو" کہہ دیتا ہے ، پرانے وقتوں میں لوگ کہتے تھے کہ جب دو دلوں میں گھنٹی بجے تو سمجو کہ محبت ہے لیکن اب تو لڑکوں کے دل کی گھنٹی کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر بجنے لگتی ہے ، پیار ، عشق ، محبت یہ کوئی کھیل نہیں ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ لڑکا جب چاہے کسی لڑکی کے دل سے کھیلے اور اس کے بعد کسی دوسری لڑکی کے ساتھ شروع ہو جائے ، اسی طرح کوئی لڑکی کسی لڑکے سے بس ٹائم پاس کرے اور  دل بھر جانے پر کسی دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے لگے، محبت صرف آئی لو یو کہنے کا نام نہیں بلکہ دل و جان سے ایک دوسرے کا ہو جانے کا نام ہے ، مرد ایک عورت کے لئے ایک چھتری کی مانند ہوتا ہے ،وہ اس کی عزت کا محافظ ہوتا ہے ، وہ عورت خود پر فخر کرتی ہے جس کا مرد اس پر اعتبار کرتا ہے اور وہ مرد بہت خوش نصیب ہوتا ہے جس کی عورت اس پر اعتبار کرتی ہے اور وہ بدنصیب ہوتے ہیں جو اپنا اعتبار ہی ختم کروا دیتے ہیں ، یہ پیار کے بول صرف بولنے  اور دل بہلانے کیلئے  نہیں ہوتے بلکہ جب کوئی مرد کسی سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو اس کا امتحان شروع ہو جاتا ہے پھر اس کو ساری زندگی یہ ثابت بھی کرنا پڑتا ہے ہاں وہ واقعی اپنے محبوب سے محبت کرتا ہے ، اس کا خیال رکھتا ہے اس پر توجہ دیتا ہے، جس طرح چیزوں میں ملاوٹ پر اللہ کا عذاب آتا ہے اسی طرح محبت میں ملاوٹ پر مرد کو دنیا میں کبھی چین نہیں ملتا ، محبت میں سکون، راحت ، چین صرف اور صرف اپنے محبوب سے محبت میں ہے اور وہ محبوب ۔۔۔ اللہ  ایک بیوی کے روپ میں دیتا ہے۔گرل فرینڈ چاہے کتنی بھی حسین ہو وہ بیوی کی جوتی کے برابر بھی نہیں ہوتی۔۔۔۔

پرنس کی کتاب" محبت کھیل نہیں پیارے" سے اقتباس

Tuesday, August 19, 2014

سنو ........ مجھے صرف تم سے پیار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ


رومانس کہنے کو تو ایک معمولی سا لفظ ہے لیکن اس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے ، انسان کی زندگی میں اگر رومانس نہ ہو تو زندگی بہت تلخ ہو جاتی ہے ، مغربی معاشرے میں رومانس شادی سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے اور یا تو شادی کی نوبت ہی نہیں آتی اور اگر آ بھی جائے تو شادیاں دیر تک نہیں چلتیں ، لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں ، ایک دوسرے کی عزت اور احترام کم ہو جاتا ہے ، بہت کم ایسا ہوا ہے کہ شادی سے پہلے رومانس کے بعد میاں بیوی کے درمیان آخری دم تک رومانس رہے ، اسلام میں رومانس شادی کے بعد شروع ہوتا ہے ، میاں بیوی کے درمیان نکاح کے بعد اللہ محبت پیدا کر دیتا ہے رومانس کا سب سے زیادہ انحصار مرد پر ہوتا ہے ، اللہ کہتا کہ اپنی عورتوں سے نرمی سے پیش آؤ، مسکرا کر بات کرو، بیوی کوئی بات کرے تو غور سے سنو ، اس کی بات مکمل ہونے پر جواب دو، اس سے مشورہ لیا کرو ، اسلام نے مرد کو ایک مثالی نمونہ بنایا ہے کہ وہ اپی بیوی سے کس طرح پیش آئے ، ہمارے معاشرے میں رومانس کا حشر نشر ہو گیا ہے ایک مرد اپنی بیوی سے تو ہنس کر بات کم ہی کرتا ہے لیکن ہمسائی کی بات پوری توجہ سے سنتا ہے، بیوی کو اہمیت دے نہ دے اپنے آفس میں لڑکیوں کو کافی اہمیت دیتا ہے ، بیوی سے بات کرے نہ کرے فیس بک پر لڑکیوں سے تو روز بات کرتا ہے ، اسلام میں اصل رومانس مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ ہے ، ایک عورت کا حق ہے کہ اس کا شوہر صرف اسی کو پیار کرے اسے ہی دیکھے اس کے بارے میں ہی سوچے اس کا ہی خیال کرے ، ہمارے معاشرے میں مرد کی نظر میں بیوی اور نوکرانی میں کوئی فرق نہیں،جس دن ہمارے معاشرے میں رومانس شادی کے بعد ہوگا، مرد کو اپنی بیوی کی اہمیت کا پتہ چل جائے گا تو یہ معاشرہ ایک بہترین معاشرہ بن جائے گا پھر ایک مرد کو اپنی بیوی سے کبھی شکایت نہیں ہوگی۔

پرنس کی کتاب"رومانس سیکھیں" سے اقتباس

Sunday, August 17, 2014

زندگی ماں ہے ماں کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔۔ زریاب شیخ


وہ بستر پر لیٹی سانسیں گن رہی تھی ، آنکھوں کے سامنے ماضی فلم کی طرح چل رہا تھا، اسے اپنا مسکراتا چہرہ نظر آرہا تھا جب وہ جوان اور حسین تھی، اس کا شوہر ، اس کا لاڈلہ بچہ اور خوبصورت گھر سب کچھ تو تھا لیکن پھر سب کچھ بدل گیا،  شوہر کے دنیا سے جانے کے بعد تو  کچھ بچا ہی نہیں، جوانی میں بیوہ ہونے کے باوجود اس نے اپنے اکلوتے بچے کو پڑھایا تاکہ کل وہ کسی کے مھتاج نہ ہوں لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ آگے تو کچھ اور ہی لکھا ہے، اس کے گال آنسووٓں میں بھیگ گئے تھے جب شادی کے بعد اس کی بہو نے اس سے تنگ ہونا شروع کردیا تھا ، کتنی جلدی دن گزرے تھے کہ پتہ ہی نہیں چلا اور پوتے پوتیاں بھی ہوگئے لیکن وہ ان کو صحیح طرح پیار کرنے کو ترس گئی اور وہ قیامت کی گھڑی بھی آگئی جب اس کا بیٹا اسے سیر کے بہانے اولڈ ہوم میں چھوڑ کر چلا گیا، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور اپنے بچے اور پوتے پوتیوں کیلئے وہ دعا کر رہی تھی ، پاس بیٹھی بانو نے غصہ میں کہا بس کردے بس کردے ، ایسی اولاد اللہ کسی کو نہ دے ، تو یہاں مر رہی ہے اور بیٹا پوچھنے تک نہیں آیا ، اچانک دروازہ بجتا ہے اور ایک خوبصورت نوجوان اندر داخل ہوتا ہے ، ماں اپنے بچے کو دیکھتی ہے تو خوشی سے سب کچھ بھول جاتی ہے ، بانو غصہ میں وہاں سے نکل جاتی ہے ، بیٹا ماں کے پاس بیٹھا ہوتا ہے ، ماں اسے  دیکھتی رہتی ہے جیسے اپنی آنکھوں میں اتار رہی ہو، اس کے گال پر ہاتھ پھیرتی ہے ، آخر 20 سال بعد اس کا بیٹا اس کے پاس آیا تھا ، اچانک وہ بولی کہ بیٹا اس کمرے کے پنکھے بدل دینا یہاں اچھا سا پینٹ بھی کروانا، بیٹا ایک دم جھلا کر کہتا ہے ماں جب تم نے یہاں ہونا ہی نہیں تو کس کہ لئے یہ سب کرنا ہے ، تو ماں بولی بیٹا میں نے تو بیس سال خراب پنکھے کہ نیچے گزار لئے لیکن تیری ماں نہیں چاہتی کہ اس کا بیٹا بھی اسی طرح گزارے کل کو جب تیرا بیٹا تجھے یہاں چھوڑنے آئے گا تو کم سے کم پنکھا اور اچھا کلر تو ہوگا، یہ کہہ کر اس کی روح پرواز کر گئی ، بیٹا یہ سن کر کانپ اٹھا اور ماں کی ٹانگوں سے لپٹ کر رونے لگا مگر بہت دیر ہوچکی تھی ۔

پرنس کی کتاب"سچی کہانیاں" سے اقتباس

کیا تم تو ایسے نہیں ، سوچ لو............. زریاب شیخ

وہ بہت پریشان تھی کہ آج کیا ہوگا دنیا کے سامنے جب اسے چبھتے سوالوں کا جواب دینا پڑے گا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی ، عدالت کے باہر بیٹھی نورین بار بار اپنا پسینہ پونچھ رہی تھی ، پیروں میں ٹوٹی جوتی ، بکھرے بال اور پیوند لگے کپڑوں میں ہونے کی وجہ سے لوگ اس کو کوئی فقیرنی سمجھ رھے تھے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ عورت ایک کروڑ پتی شوہر کی بیوی تھی ، 19 سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی اور 24 سال کی عمر میں اس کے تین بچے بھی ہوگئے لیکن اس کی خوشیاں بس چند پل کی تھیں جب اس کا شوہر بھری جوانی میں تین بچوں کے ہمراہ اسے اکیلا چھوڑ کر ایک ایکسیڈنٹ میں چلا گیا، اس نے اپنی خواہشوں کو مار کر اپنے بچوں کو پالا ، اس کے سسرالیوں نے جائیداد پر قبضہ کرلیا جو تھوڑی بہت پراپرٹی بچی اسے بیچ کر نورین نے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا جب اس کے بچے باہر سے پڑھ کر آئے تو وہ بہت خوش تھی لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ جن کیلئے وہ اتنی قربانی دے رہی ہے وہ ہی کل اس سے طرح طرح کے سوال کریں گے ، بچے اپنے ددھیال سے ملنے لگے اور ماں کے خلاف ہوگئے ، بچوں نے اپنی ماں کے خلاف عدالت میں کیس کردیا اور آج اس سے بھری عدالت میں اس کے بچوں کے اس سوال کا جواب دینا تھا کہ " ماں نے پیسہ کہاں کہاں خرچ کیا" اس کا حساب دے ، نورین کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی اور اللہ سے کہہ رہی تھی کہ اے اللہ تو ہی بتا میں نے کوئی غلط کام کئے، کیا اولاد کا یہ حق ہے کہ وہ ماں سے پوچھے کہ ایک ایک پائی کا حساب دو، اے میرے خدا ایک ماں کو بھری عدالت میں یوں رسوا نہ کرنا ورنہ کل کو ہر کوئی اپنی ماں کو عدالت میں گھسیٹے گا ، یہ کہتے کہتے اس کی آنکھیں بند ہوگئیں ، اچانک آواز آئی نورین بی بی حاضر ہوں جیسے ہی عدالتی اہلکار نے اس کے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑا تو اس کا سر ایک طرف ڈھلک گیا ، اللہ نے ماں کو عدالت میں رسوا ہونے سے بچا لیا۔

پرنس کی کتاب" سچی " کہانیاں سے اقتباس

اور تمھارا رب ہی سب کچھ کرنے والا ہے ..... تحریر زریاب شیخ


خواتین کی اکثریت جب ماں بنتی ہیں تو وہ بہت خوفزدہ رہتی ہیں کہ بچے کو کس طرح پالیں گی، اکثریت یہ سوچتی ہے کہ کیا وہ ایک اچھی ماں بن سکیں گی لیکن وہ یہ نہیں جانتی ہیں کہ اللہ بہت مہربان ہے ، جب ایک خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو ساتھ ہی دماغ کا میکینزم تبدیل ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے عورت کا دماغ مرد سے بالکل ہی مختلف بنایا ہے ، محبت انسان کے دماغ پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ، عورت سے ماں بنتے ہی اس کے دماغ میں حیرت انگیز تبدیلی آجاتی ہے ، ماں کے بچے سے محبت کا جذبہ دماغ میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، حدیث میں آیا ہے کہ ماں جب بچہ اٹھاتی ہے تو اللہ اس میں اتنی طاقت پیدا کردیتا ہے کہ اسے تھکاوٹ محسوس نہیں ہوتی، سائنس اس بات کو آج بالکل صحیح کہتی ہے ، میڈیکل کے مطابق بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ماں کے دماغ میں hypothelamus اور amydgala پہلے سے زیادہ تیز کام کرنا شروع کردیتا  ہے اور عورت کاے دماغ کا سائز تھوڑا بڑھ جاتا ہے ، بچے کو سنبھالنے سمیت گھر کے سب کام وہ پہلے سے زیادہ تیز اور اچھے طریقے سے کرنے لگتی ہے ، اس کی Argument، observe، reasoning کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے ، سائنس کہتی ہے کہ ماں بنتے ہی جس طرح ماں کا دماغ میں تبدیلی آتی ہے باپ کے دماغ پر بھی اثر پڑتا ہے ، ایک مشاہدے کے مطابق جو مرد پہلے بہت غصیلے ہوتے ہیں جب اپنے بچے کو دیکھتے ہیں ان سے پیار کرتے ہیں تو ان کا مزاج بدلنے لگ جاتا ہے ان کا غصہ کم ہوتا جاتا ہے اسی لئے ڈاکٹرز  باپ کو بھی بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کی تلقین کرتے ہیں اور انہیں اس بات پر زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہیئے کہ ان کی بیوی ان سے زیادہ بچے پر توجہ دیتی ہے بلکہ شوہر کو  اپنی بیوی کا ساتھ دینا چاہیئے لیکن دوسری طرف سائنس اس کیفیت کو کبھی بیان نہیں کرسکی جو نومولود بچے کو دیکھ کر اسے گود میں پیار کرنے سے پیدا ہوتی ہے جس کا نام ممتا ہے اور یہ ممتا پیدا کرنے والی کیفیت اللہ نے پیدا کی ہے اور وہ کہتا ہے " اے میرے بندوں تم میری کون کون سے نعمتوں کو جھٹلاؤ گے"۔۔۔۔۔

پرنس کی کتاب"اسلام اور سائنس" سے اقتباس





Monday, August 11, 2014

محبت وہ بھی ٹوٹ کر

ہم محبت بھی ٹوٹ کر کرتے ہیں زریاب
یہ  کہہ کر  وہ  ہم  پر  ٹوٹ  پڑے

قریب آتے ہو

قریب آتے ہو تو آنسو نکل آتے ہیں زریاب
پیاز کھا کر اظہار محبت اچھا نہیں ہوتا

ہاتھ میں جادو

اس کے ہاتھوں میں عجب جادو ہے زریاب
گال پر پڑتے ہی چہرہ کھِل جاتا ہے

آنکھوں میں آنکھیں ڈال

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ بولی زریاب
میری محبت کو قادری کا انقلاب نہ سمجھن

Sunday, August 10, 2014

بابا کی رانی بنوں گی ......................... زریاب شیخ


ساجدہ بہت پریشان تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تمام تدابیروں کے باوجود یہ سب کیسے ہوگیا پہلے ہی گھر کا خرچہ نہیں چل رہا آگے تو حالات اور خراب ہو جائیں گے ، انہیں سوچوں میں شام ہوگئی جب شوہر گھر آیا تو اس نے آتے ہی بتایا کہ وہ ماں بننے والی ہے ، شوہر یہ سن کر پریشان ہوگیا اور کہنے لگا کہ تم نے تو بندش کروا لی تھی پھر یہ کیسے ہوگیا، دونوں اسی پریشانی میں سو گئے ، اگلے دن ساجدہ شوہر کی اجازت سے قریب ہی ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلی گئی اور اس کو گھر کی صورتحال سے آگاہ کیا ، اپنی غریبی کا رونا رویا اور بولی کہ وہ بچہ ضائع کرانا چاہتی ہے، ڈاکٹر مسکرائی اور بولی کہ تمھارے پہلے جو چار بچے ہیں ان میں سے کسی ایک کو مار دو  جس پر ساجدہ ایک دم بوکھلا گئی اور بولی کہ یہ کیا کہہ رہی ہیں ، ڈاکٹر بولی کہ ساجدہ ایک انسان کی تدبیر ہوتی ہے ایک اللہ کی تدبیر ہوتی ہے تم نے تو بندش کروائی تھی اس کے باوجود تیرا بچہ دنیا میں آگیا، اللہ  نے تمہیں کچھ خاص دیا ہے اس کو ضائع مت کرو اور گھر جاؤ، ساجدہ گھر آکر اپنے شوہر کو بتاتی ہے اور وہ آسمان کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے اے اللہ تو ہی بہتر جانتا ہے ، وہ دن بھی آن پہنچا جب ساجدہ ہسپتال میں تھی ، شوہر دکان پر تھا کہ اچانک فون آیا کہ مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ، اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نہیں تھے کیوں کہ اس کی پہلے ہی 4 بیٹیاں تھیں لیکن ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ گاہکوں کی ریل پیل شروع ہو گئی ، رات تک اسے سر کھجانے کی فرصت نہیں ملی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ آج لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ، اس کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی کے پیسے مشکل سے بچتے تھے آج تو اللہ نے برکت ہی برکت ڈال دی ہے ، اچانک اس کا دھیان اس ننھی سی پری کی طرف جاتا ہے جو اس کی آنگن میں روشنی بن کر آئی ہے وہ  اچھا سا کھانے کا سامان اور بچوں کے کھلونے لے کر گھر جاتا ہے تو بیوی بھی اتنا سامان دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے ، اس کا شوہر اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا لیتا ہے اور بولتا ہے کہ ساجدہ ہمارے گھر میں اللہ نے رحمت کے ساتھ ساتھ دولت بھیجی ہے ، اس کے آنے سے تو ہماری دنیا ہی بدل گئی ہے ، دونوں میاں بیوی کتنی دیر تک بچی کو پیار کرتے رہتے ہیں 

پرنس کی کتاب" اللہ کی رحمتیں" سے اقتباس

پرنس ڈکشنری.........


1:- دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا

لغت جدید میں اس کا مطلب ہے کہ کتے کی دوہری شہریت ہے... اس وجہ سے اس کی ٹکے کی عزت نہیں... ہا ہا ہا ہا ہا

Saturday, August 9, 2014

اقوال شیریں...... زریاب شیخ


اگر آپ 5 کلو لڈو کھا کر اپنے محبوب کو آئی لو یو بولیں تو اسے آپ سے سچا پیار ہو جائےگا

شیطان کے دوست....... زریاب شیخ


شیطان اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ہے، اس نے اللہ سے وعدہ کیا کہ مسلمانوں کو
 گمراہ کرے گا ، اس وقت دنیا بھر میں اس کے چیلے کام کر رہے ہیں،آج کے دور میں جب گناہوں سے بچنا مشکل ہوگیا ہے بعض لوگ سنت سے محبت کرتے ہوئے داڑھی رکھ لیتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ شیطان کے روپ میں کئی انسانوں کو داڑھی سے سخت نفرت ہے،اگر وہ باریش شخص کوئی غلط حرکت کر بیٹھے تو عمل کی بجائے داڑھی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور واعظ و نصیحت کے نام پر اس کا مزاق اڑایا جاتا ہے، داڑھی تو ابو جہل کی بھی تھی لیکن کسی نے اس کا مزاق نہیں بنایا تھا اور آج شیطان صفت مسلمان سنت کا ہر جگہ مزاق اڑاتے ہیں، کوئی مولوی کہہ کر شیطان کو خوش کرتا ہے تو کوئی طالبان کہہ کر تمسخر اڑاتا ہے، بعض جاہل تو سکھ کہتے ہیں حالانکہ سنت رسول کو مزاق میں بھی کافر سے تشبیہ دینا بھی کبیرہ گناہ ہے،اللہ کا محبوب وہ ہے جو سنت کی نیت کرکے کسی سنت پر عمل کرتا ہے،کسی دہشتگرد کے داڑھی رکھنے سے سنت منسوخ نہیں ہو جاتی، داڑھی نہ رکھنے سے انسان مسلمان ہی رہتا ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ حوض کوثر پر ایسے شخص کو پانی نصیب نہیں ہوگا جو داڑھی منڈھا ہو کیونکہ دنیا میں اللہ کے نبی صلی اللہ و علیہ وسلم نے ایسے شخض سے منہ پھیر لیا تھا اور اس وقت بھی پھیر لیں گے، حدیث میں آیا ہے " کہ ہم نے ان کو مرد بنایا لیکن وہ عورت بننے کی کوشش کرتے ہیں " داڑھی کی بجائے اس انسان کے عمل کو برا کہنا چاہیے ، داڑھی کا حکم اللہ نے دیا اور وہ حکم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو دیا، یہ اللہ کا حکم ہے اسی لئے فرض ہے اور جو لوگ داڑھی کا مزاق اڑاتے ہیں وہ نبی کے امتی نہیں ہو سکتے کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا داڑھی کا تمسخر کبھی نہیں اڑاتا،اگر کوئی جاہل صرف اس لئے داڑھی نہیں رکھتا کہ لڑکیاں کیا کہیں گی ، دنیا کیا کہے گی تو اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں، عورت اور دنیا کے پیچھے سنت ترک کرنے والے کو نہ دنیا میں چین نصیب ہوتا ہے نہ آخرت میں بچے گا ، اللہ ہم سب کو نیکی کی ہدایت دے.... آمین

ہر طرف لگا ہے تماشا کیا کہوں.............. زریاب شیخ

خواب میں کیترینہ کیف کا تھپڑ کھا کر اچانک بیدار ہوا تو ماں کو سر پر کھڑا پایا ، وہ بولیں کہ جا بیٹا آٹا لے آ، چارو ناچار موٹرسائیکل سٹارٹ کی اور تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ جھٹکے سے ہماری شاہی سواری بند ہوگئی، اس وقت یاد آیا کہ پیٹرول تو ختم ہوگیا تھا ، کافی دیر بھٹکتا رہا لیکن ہر جگہ پیٹرول پمپ بند ملے ، معلوم ہوا کہ کسی پاگل کینیڈین کے انقلاب کے نعرے کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے، ہنسی اس بات پر آئی کہ بالوں کے ساتھ ساتھ عقل سےمحروم حکمرانوں نے سوچا کہ کیوں نہ سارے ملک کا ہی ستیاناس کردیا جائےاور نہ صرف راستے بند کردیئے بلکہ پیٹرول پمپ بھی بند کروادیئے جو لوگ کنیڈین جوکر پر غصے تھے وہ حکومت پر بھی برس پڑے اور سارا نزلہ پاگل بادری سے حکمرانوں کی ٹنڈ پر آگرا، یہ صورتحال کب تک چلتی ہے اس بارے میں تو کچھ پتہ نہیں لیکن اتنا پتہ ہے کہ جب میں آٹا لے کر گھر پہنچا تو اماں کا سارا غصہ مجھ پر نکلا کہ اتنی دیر سے کیوں آئے ، ابا نے گھر سر پر اٹھا رکھا ہے، اس وقت اماں مجھے عوام لگ رہی تھیں اور میں خود کو گنجا حکمران سمجھ رہا تھا لیکن سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی ہوئی کہ ابھی میں اتنا شریف نہیں ہوں
پرنس کی کتاب"بندر کا انقلاب" سے اقتباس