کہتے ہیں جو ڈر گیا وہ مرگیا لیکن میں نے کسی کو ڈر سے مرتے نہیں دیکھا ہاں گیلی ضرور ہو جاتی ہے ، مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب میں بچہ تھا اور اندھیرے سے ڈرتا تھا کہ کہیں کوئی جن نہ آجائے وہ وقت بھی یاد ہے جب طالبعلمی کا دور تھا اور رزلٹ سے ڈر لگتا تھا کہ نمبر کم آئے تو مار پڑے گی، جب جوانی جوبن پر آئی تو اس بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ اگر ابا جان نے موبائل چیک کرلیا تو میری سہیلیوں کے ایس ایم ایس پڑھ کر دُرگت ہی نہ بن جائے، یوں ہی ڈرتے ڈرتے میری شادی ہوگئی شروع میں تو بیگم سے بھی ڈر لگتا تھا لیکن پھر مجھے عادت ہوگئی ، ازدواجی زندگی میں کبھی کبھی اس وقت ڈر لگتا ہے جب رات کو کسی رانگ نمبر پر بات کر رہا ہوتا ہوں اور آہٹ سے جان نکل جاتی ہے کہ کہیں بیگم پیچھے تو نہیں کھڑی ، ایک بار تو آفس میں بھی ڈر لگا تھا جب پیٹ میں شدید درد ہونے پر باتھ روم کی طرف بھاگا اور دروازہ بند کرتے ہوئے کنڈی ہاتھ میں آگئی اس وقت میں ہلکی سے آہٹ سے کتنا ڈر رہا تھا یہ میں ہی جانتا ہوں اب میں اُس سٹیج پر ہوں جہاں بندے کو ڈر نہیں لگتا بلکہ وہ ڈھیٹ ہو جاتا ہے خیر یہ تو تھیں باتیں ڈر کی ، اگر دیکھا جائے تو خوشی کی علامتیں بھی اس سے ملتی جلتی ہیں ، ایک بار پھیکا خربوزہ کھاتے کھاتے ایک خربوزہ میٹھا نکل آیا تو میری شکل دیکھنے والی تھی ، وہ رات بھی یاد ہے جب میں بہت بھوکا محسوس کر رہا تھا اور فریج میں پڑی تین دن پرانی بریانی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے اس میں سے لیگ پیس نکل آیا اس وقت خوشی سے میرے آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے تھے ، وہ دن بھی یاد ہے جب میں کپڑے دھو رہا تھا جو کہ میں اکثر دھوتا ہوں اور ایک قمیص سے 500 کا نوٹ نکلا اور یہ دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی کہ وہ اصلی تھا اس پر عید مبارک نہیں لکھا تھا grin emoticon
.
زریابیاں
زریاب شیخ
.
زریابیاں
زریاب شیخ
No comments:
Post a Comment