عورت کو بہت کم لوگوں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے ، پھول سی نازک کلی کو پیار اور توجہ آج تک اتنی زیادہ نہیں ملی ہے ، مرد کیلئے مردانگی یہ ہی کہ اپنی عورت پر رعب جما کر رکھے ، وہ بھاگ بھاگ کر اس کے کام کرے اور آگے پیچھے پھرتی رہے، اسلام میں اس کے برعکس مردوں کو عورت کی عزت کرنے کا حکم دیا گیا ، گھر والی سے مسکرا کر بات کرنے کی تلقین کی گئی لیکن گھر والی کی بجائے مردوں نے باہر والی سے مسکرا کر بات کرنا شروع کردی، گھر والی کو لائن کے اندر رہنے کا حکم دیا اور خود باہر ہر کسی پر لائن مارنے میں لگے رہے ، عورت کی کئی قسمیں ہیں کوئی گلاب ہے تو کوئی موتیا ، کوئی چنمبیلی ہے تو کوئی رات کی رانی کی طرح ہوتی ہے لیکن مرد ان سب کو ایک ہی طرح سے ڈیل کرتا ہے ، ہمارے ہاں ایک رواج ہے کہ عورت بس صرف کام کرنے کیلئے بنی ہے اس کا کام شوہر اور گھر والوں کی خدمت کرنا ہے اور شوہر کو سکون بھی دینا ہے ، خود اس کے جذبات ، اس کی خوشی، اس کی خواہشیں اس کی ہنسی ، اس کی صحت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ، حیرت مجھے مسلمانوں پر ہوتی ہے کہ دین کے بارے میں کوئی بات کرے تو فوراً غیرت جاگ جاتی ہے لیکن جب عورت کی بات ہو تو سب کی غیرت ہی مر جاتی ہے سونے پر سہاگہ یہ کہ اگر کوئی اپنی گھر والی کا خیال رکھے تو اسے معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے ، پیار کی ضرورت سب سے زیادہ گھر والی کو ہوتی ہے لیکن اس کا زیادہ حصہ باہر والی کو دے دیا جاتا ہے ، یہ سلسلہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور آگے بھی چلتا رہے گا ، مرد نہ پہلے سدھرا تھا نہ شاید اب سدھرے گا ۔۔
پرنس کی کتاب " گھر والی دل والی " سے اقتباس
No comments:
Post a Comment