Saturday, July 26, 2014

پھول گلاب کے پیروں تلے روند ڈالے۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ




ارے جب دیکھو آئینے کے سامنے کھڑی رہتی ہو کبھی گھر کے کام بھی کرلیا کرو، تمھارے ابا مجھے بولتے ہیں کہ بیٹی کو اپنے جیسا بنا دیا ہے ، ارے پرائے گھر جائے گی تو کیا بنے گا تیرا ، سمیرا نے روز کی طرح اپنی ماں کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی اور پھر اپنے آپ کو سنوارنے لگ گئی، اچانک موبائل کی گھنٹی بجی تو اس کے چہرے پر رونق آگئی ، جب سے اس رانگ کال والے لڑکے سے اس کی باتیں ہوئی ہیں اس کا دل ہی نہیں لگ رہا تھا ، 6 ماہ سے وہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اس کی آواز میں کیا جادو تھا ، اس نے کبھی کوئی غلط بات نہیں کی تھی ، ہمیشہ اخلاق سے پیش آتا ، دل میں اتر سا گیا تھا ، سمیرا اس سے بات کرتے کرتے ایک دم سے پریشان ہوگئی کیونکہ وہ پھر اس کو ملنے کا کہہ رہا تھا ، اس کا دل بھی اسے دیکھنے کو کر رہا تھا ، آخر اس نے وعدہ کرلیا کہ کل کالج سے جلدی نکل کر وہ اسے ملنے آئے گی ، رات بھر اس کو نیند نہ آئی ، بس اس کی آواز کانوں میں گونجتی رہی ، صبح کالج پہنچ کر اس نے اپنی لاڈلی سہیلی کو ساتھ لیا اور اس جگہ روانہ ہوگئی جہاں ملنے کا وعدہ کیا تھا ، دونوں جب وہاں پہنچے تو وہ سامنے کھڑا تھا ، وہ بہت حسین تھا ، سمیرا اور اس کی سہیلی دونوں ہی گھبرا رہے تھے پھر وہ  دونوں کو گھر کے اندر لے گیا اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا ، دونوں وہاں بیٹھی تھی اس دوران وہ شربت لے آیا اور تینوں باتیں کرنے لگے ،کچھ دیر بعد سمیرا نے کہا کہ اب چلنا چاہیئے آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے تو اس نے کہا کہ بس شربت منگوایا ہے کچھ تو پی کر جاو ، اس طرح جانا اچھا نہیں لگتا ، سمیرا اور اس کی سہیلی شربت پینے لگے  ہنستے ہنستے ان کو ہلکے ہلکے سے چکر آنے لگے ، سمیرا نے دیکھا کہ کچھ اور لڑکے بھی وہاں  آگئے ہیں ایک دم سے وہ اٹھی لیکن چکرا سی گئی  اور دونوں صوفے پر گر گئیں، اگلے دن صبح چوکیدار نے دو لڑکیوں کو نیم برہنہ حالت میں ایک پارک کے کنارے پڑا دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی ، دونوں کو ہسپتال لایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ دونوں مر چکی ہیں ، پولیس نے ان کے پرس سے گھر کے نمبر ٹریس کئے اور گھر والوں کو فون کیا ، سمیرا کے باپ نے فون اٹھایا ، آگے سے ایک شخص بول ریا تھا وہ کچھ دیر بولتا رہا پھر کہا کہ آپ لاش لینے کب آرہے ہیں تو سمیرا کے باپ نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے سر ، ہماری کوئی بیٹی نہیں ہے ، رانگ نمبر کہہ کرانہوں نے فون بند کردیا۔


نوٹ: یہ لاہور کا واقعہ ہے اور جب بھی میں سوچتا ہوں آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ، کیوں ہم ان معصوم کلیوں کو پیار کے نام پر ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ، نفرت ہے ایسے لوگوں سے مجھے نفرت ہے


پرنس کی کتاب" سچی کہانیاں" سے اقتباس

No comments:

Post a Comment