Thursday, July 31, 2014

پپو یار تنگ نہ کر ..................زریاب شیخ


پپو زمانہ قدیم کا لفظ ہے سب سے پہلے یہ کب استعمال ہوا یہ تو شاید پپو کو ہی پتہ ہوگا، پپو کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے بعض بچے بہت خوبصورت ہوتے ہیں تو انسان بے ساختہ کہتا ہے "کیا پپو بچہ ہے"اس لفظ کو معاشرے میں تھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے کیوں کہ لوگ لڑکیوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ، کالج کے باہر کھڑے بھونڈ جب کسی کی بیٹی کو دیکھتے ہیں تو ہاتھ کے اشارے سے کہتے ہیں وہ دیکھ کیا پپو بچی ہے تیری بھابی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں بھابی بن جاتی ہے اور وہ بےچارا دور سے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، پپو ہونے کے بہت فائدے ہوتے ہیں ہر کوئی پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہے، بس کوشش کریں کہ آپ کو پشاور کا کوئی بندہ نہ دیکھے، دکاندار آپ کے گال پر چٹکی لے کر دو روپے چھوڑ بھی دیتا ہے اور ایسی لڑکیاں جو سیرت سے زیادہ صورت پر مرتی ہیں پپو ان کا چہیتا ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر کوئی لڑکی پپو ہو تو اس پر سب کی نگاہ بری ہی پڑے گی، معاشرے میں اس کیلئے جینا اتنا آسان نہ ہوگا، وہ جب بھی باہر نکلے گی لوگ اس کو دیکھ کر اپنے دماغ کے شیطان کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے، پپو ہونا ایک نعمت ہے لیکن آج کے فتنوں کے دور میں زحمت بنتا جارہا ہے، جس معاشرے میں لوگ آنکھوں سے ہی عزت لوٹ لیتے ہیں وہاں پپو بچوں کا جینا بہت ہی مشکل ہے، اللہ نے اسی لئے پردہ فرض قرار دیا ہے جب کوئی پپو بچی پردہ کرے گی تو دشمن کی گندی نگاہوں سے محفوظ رہے گی، ایک پپو بچی کیلئے صرف اس کا شوہر ہی پپو ہے اور اسے یہ ہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے پپو بن کر رہے، ایک مسلمان لڑکی جب اپنے آپ کو اپنے شوہر کیلئے بچا کر رکھتی ہے تو ساری زندگی اپنی شوہر کی نظر میں پپو ہی رہتی ہے۔
پرنس کی کتاب"میرا پپو محبوب" سے اقتباس
پپو یار تنگ نہ کر ..................زریاب شیخ


پپو زمانہ قدیم کا لفظ ہے سب سے پہلے یہ کب استعمال ہوا یہ تو شاید پپو کو ہی پتہ  ہوگا، پپو کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے بعض بچے بہت خوبصورت ہوتے ہیں تو انسان بے ساختہ کہتا ہے "کیا پپو بچہ ہے"اس لفظ کو معاشرے میں تھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے کیوں کہ لوگ لڑکیوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ، کالج کے باہر کھڑے بھونڈ جب کسی کی بیٹی کو دیکھتے ہیں تو ہاتھ کے اشارے سے کہتے ہیں وہ دیکھ کیا پپو بچی ہے تیری بھابی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں بھابی بن جاتی ہے اور وہ بےچارا دور سے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، پپو ہونے کے بہت فائدے ہوتے ہیں ہر کوئی پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہے، بس کوشش کریں کہ آپ کو پشاور کا کوئی بندہ نہ دیکھے، دکاندار آپ کے گال پر چٹکی لے کر دو روپے چھوڑ بھی دیتا ہے اور ایسی لڑکیاں جو سیرت سے زیادہ صورت پر مرتی ہیں پپو ان کا چہیتا ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر کوئی لڑکی پپو ہو تو اس پر سب کی نگاہ بری ہی پڑے گی، معاشرے میں اس کیلئے جینا اتنا آسان نہ ہوگا، وہ جب بھی باہر نکلے گی لوگ اس کو دیکھ کر اپنے دماغ کے شیطان کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے، پپو ہونا ایک نعمت ہے لیکن  آج کے فتنوں کے دور میں زحمت بنتا جارہا ہے، جس معاشرے میں لوگ آنکھوں سے ہی عزت لوٹ لیتے ہیں وہاں پپو بچوں کا جینا بہت ہی مشکل ہے، اللہ نے اسی لئے پردہ فرض قرار دیا ہے جب کوئی پپو بچی پردہ کرے گی تو دشمن کی گندی نگاہوں سے محفوظ رہے گی، ایک پپو بچی کیلئے صرف اس کا شوہر ہی پپو ہے اور اسے یہ ہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے پپو بن کر رہے، ایک مسلمان لڑکی جب اپنے آپ کو اپنے شوہر کیلئے بچا کر رکھتی ہے تو ساری زندگی اپنی شوہر کی نظر میں پپو ہی رہتی ہے۔


پرنس کی کتاب"میرا پپو محبوب" سے اقتباس
پپو یار تنگ نہ کر ..................زریاب شیخ


پپو زمانہ قدیم کا لفظ ہے سب سے پہلے یہ کب استعمال ہوا یہ تو شاید پپو کو ہی پتہ  ہوگا، پپو کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے بعض بچے بہت خوبصورت ہوتے ہیں تو انسان بے ساختہ کہتا ہے "کیا پپو بچہ ہے"اس لفظ کو معاشرے میں تھوڑا معیوب سمجھا جاتا ہے کیوں کہ لوگ لڑکیوں کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ، کالج کے باہر کھڑے بھونڈ جب کسی کی بیٹی کو دیکھتے ہیں تو ہاتھ کے اشارے سے کہتے ہیں وہ دیکھ کیا پپو بچی ہے تیری بھابی ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں بھابی بن جاتی ہے اور وہ بےچارا دور سے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے، پپو ہونے کے بہت فائدے ہوتے ہیں ہر کوئی پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہے، بس کوشش کریں کہ آپ کو پشاور کا کوئی بندہ نہ دیکھے، دکاندار آپ کے گال پر چٹکی لے کر دو روپے چھوڑ بھی دیتا ہے اور ایسی لڑکیاں جو سیرت سے زیادہ صورت پر مرتی ہیں پپو ان کا چہیتا ہوتا ہے، اس کے برعکس اگر کوئی لڑکی پپو ہو تو اس پر سب کی نگاہ بری ہی پڑے گی، معاشرے میں اس کیلئے جینا اتنا آسان نہ ہوگا، وہ جب بھی باہر نکلے گی لوگ اس کو دیکھ کر اپنے دماغ کے شیطان کو کنٹرول نہیں کر پائیں گے، پپو ہونا ایک نعمت ہے لیکن  آج کے فتنوں کے دور میں زحمت بنتا جارہا ہے، جس معاشرے میں لوگ آنکھوں سے ہی عزت لوٹ لیتے ہیں وہاں پپو بچوں کا جینا بہت ہی مشکل ہے، اللہ نے اسی لئے پردہ فرض قرار دیا ہے جب کوئی پپو بچی پردہ کرے گی تو دشمن کی گندی نگاہوں سے محفوظ رہے گی، ایک پپو بچی کیلئے صرف اس کا شوہر ہی پپو ہے اور اسے یہ ہی حکم ہے کہ اپنے شوہر کے سامنے پپو بن کر رہے، ایک مسلمان لڑکی جب اپنے آپ کو اپنے شوہر کیلئے بچا کر رکھتی ہے تو ساری زندگی اپنی شوہر کی نظر میں پپو ہی رہتی ہے۔


پرنس کی کتاب"میرا پپو محبوب" سے اقتباس

میرے محبوب تیرے ہاتھ میں ہے میری عزت.................. زریاب شیخ


لڑکی اللہ کی رحمت ہوتی ہے لیکن لڑکے اسے سامان تفریح سمجھتے ہیں ، ایک دوست کے پیچج پر لکھا تھا کہ جب کوئی لڑکا کسی لڑکی کو ڈیٹ پر لے کر جاتا ہے تو وہ یہ سوچتا ہے کہ اس لڑکی نے اپنے ماں باپ ، بھائی کی عزت کا خیال نہیں رکھا تو کل میرا کیا خیال رکھے گی اس لئے لڑکے پھر ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے، میں کچھ دیر بہت ہنستا رہا جب پیٹ کی قبض ٹھیک ہوئی تو سوچا کہ کمال ہے ایک لڑکا ایک لڑکی کو ڈیٹ پر جانے کیلئے کہتا ہے تو کیا وہ لڑکا نیکی کا کام کر رہا ہے ، اگر اس لڑکی نے ماں باپ کی عزت کا نہیں سوچا تو اس لڑکے نے تو اس لڑکی کی بھی عزت کا نہیں سوچا ، جو لڑکا خود کسی کو ڈیٹ پر بلائے تو پہلے تو وہ لڑکا قابل گرفت ہے ، چلیں مان لیں کوئی لڑکی اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتی اور آپ کو موقع دیتی ہے تو وہ کیسا مرد ہے جو اپنی نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکتا ، وہ بھی برابر کا قصوروار ہے، مرد چاہے جتنا بھی ٹھرکی ہو جتنا بھی برا ہو اس میں اتنی برداشت نہیں کہ وہ یہ بات خود تسلیم کرے کہ اس نے کچھ برا کیا ہے،  اس کی بس یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح عورت کو میں نیچا دکھاؤں ، جب کہ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عورت مرد کا ہی روپ ہوتی ہے، آپ جیسے ہیں عورت بھی ویسی ہی ہے، ایک لڑکی پہلے تو ایک شخص پر اعتبار کرتی ہے ، اس پر یقین کرتی ہے اور پھر اس سے ملتی ہے جبکہ ایک لڑکا لڑکی کا اعتبار جیتتا  ہے، اس کا بھروسہ حاصل کرتا ہے اور پھر اپنا مطلب نکل آنے پر نو دو گیارہ ہو جاتا ہے، وہ خود کو یہ کہہ کر تسلی کر لیتا ہے کہ یہ لڑکی ہی خراب تھی آج میرے ساتھ سیٹ ہوگئی تو کل کسی اور کے ساتھ ہو جائے گی لیکن وہ لڑکی مردوں پر یقین کرنا چھوڑ دے گی ، اسے یہ ہی لگے گا کہ ہر مرد صرف جسم کا بھوکا ہوتا ہے اسے لڑکی کے احساسات، لڑکی کے جذبات، لڑکی کی معصومیت، لڑکی کا بھروسہ، لڑکی کے جسم میں دھڑکنے والے دل اور اس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو سے کوئی غرض نہیں ہے ، عورت کو اپنے پیروں کی جوتی سمجھنے والے مرد ایک بات سوچ لیں کہ وہ ہی عورت جب ماں بنتی ہے تو اس کے قدموں میں جنت آجاتی ہے اور جنت کو پیروں تلے روندنے والا جنت میں نہیں جائے گا 


پرنس کی کتاب"دوزخ کے بھوکے" سے اقتباس

Wednesday, July 30, 2014

پرنس کی محاروں کی کتاب جلد آرہی ہے مارکیٹ میں



بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی صحیح

پرنس گھر میں سو رہے تھے اچانک آہٹ سن کر اٹھے تو ایک چور کو دیکھا جیسے ہی پکڑنے کیلئے لپکے تو اس کی لنگوٹی ہاتھ میں آگئی، اب پرنس وہ لنگوٹی رات کو خود پہن کر سوتے ہیں 

بھینس کے آگے بین بجانا

پرنس ایک بار گھر میں بھینس لائے ، اصلی دودھ پینے کا شوق تھا، صبح کوشش کرتے رہے لیکن بھینس دودھ دینے کا نام نہیں لے رہی تھی ، اچانک انہوں نے بین بجانا شروع کردی اور حیرت انگیز طور پر بھینس نے چالیس کلو دودھ دے ڈالا اور یہ ٹوٹکا کئی بار پرنس نے استعمال کیا

گھر کی مرغی دال برابر

پرنس ایک دوپہر کچن میں گئے تو دیکھا کہ جو مرغی وہ لائے تھے وہ شیلف پر دال کے برابر پڑی تھی انہوں نے غصے میں اپنی بیگم کو کہا کہ ارے اتنی مہنگی مرغی ہے اور تم کو شرم نہیں آتی کہ دال کے برابر رکھی ہے

بندر کیا جانے ادرک کا سوا

پرنس ایک بار اپنے بھتیجے کے ساتھ چڑیا گھر گئے ، بندر کے پنجرے کے آگے کھڑے تھے اچانک انہیں خیال آیا کے جیب میں ایک ادرک پڑا ہے ، بندر کے آگے کردیا ، اس نے فوراً منہ میں ڈالا کچھ لمحے بعد برا سا منہ بنایا اور  تھوک کے چلا گیا

اینٹ کا جواب پتھر سے

پرنس ایک مرتبہ چھت پر کھڑے تھے ، انہوں نے ہمسائی کو لائن ماری لیکن جب کوئی اثر نہ ہوا تو پتھر دے مارا ، جواب میں لڑکی نے پاس پڑی اینٹ مار کر ان کا سر ہی پھوڑ ڈالا تب سے پرنس نے چھت پر جانے سے توبہ کرلی

ناک پر مکھی نا بیٹھنے دینا

ایک دن پرنس کھانا کھا رہے تھے اس دوران ایک مکھی نے ناک پر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن اس کی کوشش ناکام ہوا جاتی ، آخر تھک ہار کر  وہ برا بھلا کہتے ہوئے باہر نکل گئی

ادھار محبت کی قینچی ہے

پرنس نے ایک بار اپنے دوست سے ادھار لیا وقت پر نہ دے سکے دوست نے بہت برا بھلا کہا اور بولا کہ پیسے واپس دو ، پرنس نے پر نم آنکھوں سے اسے قینچی دے دی اور بولے کہ اس کو رکھ لو اب میری تمھاری محبت ختم ہوگئی ہے 

پرنس کی کتاب"الو کا پٹھا" سے اقتباس

Prince Sachi muchi pedia ....coming Soon

پاکستان کا قومی کھیل ۔۔۔۔۔ لائن مارنا
زیادہ استعمال ہونیوالا لفظ ۔۔۔ جانو
زبردستی کہلوایا جانیولا لفظ ۔۔۔۔ باجی
بہت ہی زیادہ تکلیف دہ لفظ ۔۔۔۔ بھائی
مردوں میں بہت مقبول لفظ ۔۔۔۔ بچی
خواتین کا من پسند لفظ ۔۔۔۔ بے غیرت

Tuesday, July 29, 2014

پرنس خواب غفلت کی نیند میں ...............


.
.
وجود اے خاوند سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
بیویاں ہوں چار جس کی بدل جاتی ہے تقدیریں

Sunday, July 27, 2014

چھپ چھپ کے نہ دیکھو ایسے چھپ چھپ کے........ زریاب شیخ


لڑکی اور ٹھرکی میں چولی دامن کا ساتھ ہے ، اس بارے میں تو کوئی نہیں جانتا کہ ٹھرک کا آغاز کب سے ہوا لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ اگر لڑکی نہ ہوتی تو کوئی ٹھرکی نہ ہوتا ، لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ مرد بڑا ٹھرکی ہوتا ہے اور خاص طور پر شادی کے بعد تو اس کی نظریں ٹکتی ہی نہیں ، میرے خیال میں کنوارہ بندہ تو لڑکیوں کو اس لئے دیکھتا ہے کہ شاید یہ میری ہمسفر بن جائے اور  شادی شدہ شاید اس لئے دیکھتا ہے کاش یہ میری ہمسفر بن جاتی، سوچ دونوں کی ایک ہی ہے لیکن انداز اپنا اپنا ہے، سائنسدان کہتے ہیں کہ اب لڑکیاں بھی ٹھرکی ہوگئی ہیں اور یہ عادت ان کو مردوں کی طرف سے ملی ہے ، بعض لڑکیاں تو مردوں کو ایسے دیکھتی ہیں کہ وہ  بے چارا پسینے پسینے ہوجاتاہے، شاعروں کے نزدیک ٹھرک پن ایک معصوم سا فعل ہے ، کوئی بات کرکے دل کو تسلی دیتا ہے تو کوئی آنکھیں ٹھنڈی کرکے خوش ہو جاتا ہے، بعض لوگوں کے نزدیک ٹھرک نقصان بھی پہنچاتی ہے ، شوہر بیوی کو کم اور ہمسائی  کی طرف نظریں زیادہ لگائے تو پھر تعلق خراب ہوجاتا ہے ، ہمارے ہاں شادی سے پہلے چونکہ نظریں لڑانے کی خوب عادت پڑ چکی ہوتی ہے تو شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد بھی یہ نشہ ختم نہیں ہوتا، رشتوں میں دراڑ کی ایک وجہ آنکھیں بھی ہوتی ہیں اگر انسان اپنی آنکھوں کو صرف اپنی بیوی کو دیکھنے کیلئے وقف کردے تو شیطان کو رشتے توڑنے میں کافی مشکل پیش آئے گی ، آپ میرے لئے بھی دعا کریں کہ ٹھرک پن کی یہ عادت چھوٹ جائے ویسے میں بہت شریف ہوں میری ہمسائی کے بقول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

پرنس کی کتاب"شرمیلے مرد" سے اقتباس

Saturday, July 26, 2014

پھول گلاب کے پیروں تلے روند ڈالے۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ




ارے جب دیکھو آئینے کے سامنے کھڑی رہتی ہو کبھی گھر کے کام بھی کرلیا کرو، تمھارے ابا مجھے بولتے ہیں کہ بیٹی کو اپنے جیسا بنا دیا ہے ، ارے پرائے گھر جائے گی تو کیا بنے گا تیرا ، سمیرا نے روز کی طرح اپنی ماں کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی اور پھر اپنے آپ کو سنوارنے لگ گئی، اچانک موبائل کی گھنٹی بجی تو اس کے چہرے پر رونق آگئی ، جب سے اس رانگ کال والے لڑکے سے اس کی باتیں ہوئی ہیں اس کا دل ہی نہیں لگ رہا تھا ، 6 ماہ سے وہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے اس کی آواز میں کیا جادو تھا ، اس نے کبھی کوئی غلط بات نہیں کی تھی ، ہمیشہ اخلاق سے پیش آتا ، دل میں اتر سا گیا تھا ، سمیرا اس سے بات کرتے کرتے ایک دم سے پریشان ہوگئی کیونکہ وہ پھر اس کو ملنے کا کہہ رہا تھا ، اس کا دل بھی اسے دیکھنے کو کر رہا تھا ، آخر اس نے وعدہ کرلیا کہ کل کالج سے جلدی نکل کر وہ اسے ملنے آئے گی ، رات بھر اس کو نیند نہ آئی ، بس اس کی آواز کانوں میں گونجتی رہی ، صبح کالج پہنچ کر اس نے اپنی لاڈلی سہیلی کو ساتھ لیا اور اس جگہ روانہ ہوگئی جہاں ملنے کا وعدہ کیا تھا ، دونوں جب وہاں پہنچے تو وہ سامنے کھڑا تھا ، وہ بہت حسین تھا ، سمیرا اور اس کی سہیلی دونوں ہی گھبرا رہے تھے پھر وہ  دونوں کو گھر کے اندر لے گیا اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا ، دونوں وہاں بیٹھی تھی اس دوران وہ شربت لے آیا اور تینوں باتیں کرنے لگے ،کچھ دیر بعد سمیرا نے کہا کہ اب چلنا چاہیئے آج کیلئے اتنا ہی کافی ہے تو اس نے کہا کہ بس شربت منگوایا ہے کچھ تو پی کر جاو ، اس طرح جانا اچھا نہیں لگتا ، سمیرا اور اس کی سہیلی شربت پینے لگے  ہنستے ہنستے ان کو ہلکے ہلکے سے چکر آنے لگے ، سمیرا نے دیکھا کہ کچھ اور لڑکے بھی وہاں  آگئے ہیں ایک دم سے وہ اٹھی لیکن چکرا سی گئی  اور دونوں صوفے پر گر گئیں، اگلے دن صبح چوکیدار نے دو لڑکیوں کو نیم برہنہ حالت میں ایک پارک کے کنارے پڑا دیکھ کر پولیس کو اطلاع دی ، دونوں کو ہسپتال لایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ دونوں مر چکی ہیں ، پولیس نے ان کے پرس سے گھر کے نمبر ٹریس کئے اور گھر والوں کو فون کیا ، سمیرا کے باپ نے فون اٹھایا ، آگے سے ایک شخص بول ریا تھا وہ کچھ دیر بولتا رہا پھر کہا کہ آپ لاش لینے کب آرہے ہیں تو سمیرا کے باپ نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے سر ، ہماری کوئی بیٹی نہیں ہے ، رانگ نمبر کہہ کرانہوں نے فون بند کردیا۔


نوٹ: یہ لاہور کا واقعہ ہے اور جب بھی میں سوچتا ہوں آنکھیں نم ہوجاتی ہیں ، کیوں ہم ان معصوم کلیوں کو پیار کے نام پر ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ، نفرت ہے ایسے لوگوں سے مجھے نفرت ہے


پرنس کی کتاب" سچی کہانیاں" سے اقتباس

اقوال فضول....... زریاب شیخ




تم میں سب سے اچھا ، نیک اور شریف انسان و٥ ہے جو لڑکیوں کو ہی نہیں ہیجڑے کو دیکھ کر بھی شرما جاتا ہو

اقوال شیریں.......زریاب شیخ




اگر آپ 25 گلاس روح افزا کے پی کر فورأ اپنی گرل فرینڈ کو دیکھیں گے تواس کی روح افزا ہو جاۓ گی اور و٥ ہمیشہ آپ کی فرمانبردار رہے گی

پرنس کے یونانی ٹوٹکے....زریاب شیخ




اگر آپ بہت کمزور ہیں تو روزانہ نہار منہ دو عدد کدو کھا لیں چند دنوں میں آپ کدو جیسے ہو جائیں گے ، لڑکیاں کدو کی جگہ گوبھی استعمال کریں، ساتھ میں اسپغول کا چھلکا ضرور کھائیں :)

تعلیم بالغاں....... زریاب شیخ




اگر آپ پڑھ لکھ کر اس مقام پر پہنچنا چاہتے ہیں کہ دنیا آپ کے اشاروں پر چلے تو ٹریفک وارڈن بن جائیں، کوئی آپ کی مرضی کے بغیر ہل بھی نہیں سکے گا

خبردار ہوشیار ، بچنا میرے یار ...... زریاب شیخ


دنیا کا سب سے خطرناک ہتھیار ایٹم بم ہے لیکن سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اس سے بھی بڑا ہتھیار صدیوں پہلے دریافت ہوچکا ہے اور و٥ لڑکی کے آنسو ہیں جس کے آگے سکندر اعظم کی بھی نہیں چلی تھی، بڑے سے بڑا پہلوان بھی ان آنسوؤں کے آگے ڈھیر ہوجاتا ہے،ایک لڑکی سے آپ تین چیزوں میں کبھی نہیں جیت سکتے، سب سے پہلی چیز صبر ہے،ایک لڑکی جب کسی مرد سے بحث کرتی ہے تو آپ جتنی مرضی کوشش
کرلیں،و٥ یہ منوا کر چھوڑے گی کہ و٥ جو کہہ رہی ہے بالکل صحیح کہہ رہی ہے،مرد بڑے سے بڑے لوگوں سے آسانی سے بحث جیت سکتا ہے لیکن ایک عورت کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی، دوسری چیز وقت ہے لڑکی ایسے وقت پر آپ سے لڑے گی جب آپ دماغی طور پر بہت تھکے ہوۓ ہونگے،شوہر کام سے تھکا ہارا گھر آتا ہے اور جیسے ہی قدم دروازے کے اندر رکھے ساتھ ہی حملہ ہوگیا، بے چارے کو سمجھ ہی نہیں آتی اور بیوی کے آگے ڈھیر ہوجاتا ہے اگر آپ سو رہے ہیں تو اسے کوئی بات یاد آجاۓ گی اور آپ کو نیند سے اٹھ کر اس کی بات سننی پڑے گی اس کے بعد آپ کی نیند تو اڑ جاۓ گی لیکن و٥ گھوڑے بیچ کر سو جاۓ گی، اور لیں جناب سب سے بڑی اور قیمتی چیز ہے آنسو، ایک ایک قطر٥ میزائل کی طرح دل پر لگتا ہے، بند٥ جتنا بھی طاقتور ہو اس بے چارے کی ایک نہیں چلتی اور شاید کبھی چلے گی بھی نہیں، اگر آپ شاندار زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو کبھی صنف نازک سے بحث نہ کریں خاموشی سے اس کی سنیں اور بس سر ہلاتے رہیں اگر آپ نے آگے سے جواب دیا تو بس پھر آپ کی خیر نہیں.
پرنس کی کتاب " خطرناک ہتھیار" سے اقتباس

عشقیہ ٹوٹکے....... زریاب شیخ


اگر آپ اپنی گرل فرینڈ پر اپنا رعب و دبدبہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہر روز اس کے ابو کو ایک مس بیل مارتے رہیں و٥ ہمیشہ آپ سے ڈر کر رہے گی

سانولی سلونی سی ہے وہ ........................ زریاب شیخ

ہاہاہاہاہا ارے پاگل ہوگیا ہے کیا، تجھے اس لڑکی میں کیا نظر آیا ،ایک ٹانگ سے معذور ہے تیرے ساتھ کھڑی ہوگی تو اچھی نہیں لگے گی ، بےوقوفی مت کر اور اس لڑکی سے شادی نہ کر یار ،، پچھتائے گا، میرا دوست بولے جا رہا تھا اور میں سنتا جا رہا تھا ، ایک دم مجھے غصہ آیا اور میں بولا اچھا کیا معذور ہونا جرم ہے ، کیا وہ اپنی مرضی سے معذور ہوئی ہے ، کیا ایک معذور لڑکی کو جینے کا حق نہیں ہے ، کیا شادی کیلئے خوبصورت ہونا لازمی ہے ، سانولی یا کالی لڑکی کا دل نہیں ہوتا ، کیا انہیں ہنسنے اور خوشی سے جینے کا کوئی حق نہیں ، تو میرا دوست بولا  یار میں کب کہہ رہا ہوں کہ جینے کا حق نہیں لیکن تیرے ساتھ وہ اچھی نہیں لگے گی ، لوگ باتیں کریں گے ، تیری اس کے ساتھ جوڑی صحیح نہیں ، میں نے اس کی باتوں کو غور سے سنا پھر بولا ، دیکھو ایک تو وہ ایم فل ہے ، پانچ وقت کی نمازی ہے ، اچھے گھرانے سے تعلق ہے ، بس معذور ہے تو اس میں ایسی کونسی بات ہے ، جب مجھے اس سے محبت ہے تو پھر دنیا جائے تیل لینے ، لوگوں کا کام ہی باتیں کرنا ہے  ،، مجھے کسی کی پروا نہیں ہے ، میرے والدین کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا اور سر ہلا کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔


پرنس کی کتاب"میرا نام محبت" سے اقتباس

Thursday, July 24, 2014

پرنس کے ٹوٹکے..... زریاب شیخ


اگر آپ کے کپڑوں پر آئس کریم گر جائے تو فوراً اتنے حصے کو زبان سے چاٹ لیں ، داغ بھی ختم ہو جائے گا اور آئس کریم بھی ضائع ہونے کا دکھ نہیں ہوگا

اقوال فضول۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ


اگر دو خواتین آپس میں جھگڑا کر رہی ہوں تو ایک بالٹی پانی ان پر پھینک دیں ، دونوں کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا

سنہری یادیں............زریاب شیخ


ایک بار ایک لڑکی کی رانگ کال آئی ، ایسی آواز میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی ، اس قدر حسین اور دلکش آواز تھی کہ دل کر رہا تھا وہ بار بار ہیلو کہے ، ابھی ان ہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ ایک دم سے مردانہ آواز آئی ، ، یار دیکھ تیرے بھائی نے نیا وائس چینجر لیا ہے ، کیا کمال کی آواز نکلتی ہے اور میں نے اس کو دل میں اچھی اچھی گالیاں دیں اور فون بند کردیا

اقوال شیریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ


اگر آپ تھوڑی سی چینی منہ میں رکھ کر کسی کو گالیاں دیں تو اس کے اثرات بہت میٹھے ہوتے ہیں اور جھگڑا بھی نہیں ہوتا

Wednesday, July 23, 2014

تم ایک لڑکی ہو ....................... زریاب شیخ

تم ایک لڑکی ہو ، یہ جملہ دنیا میں سب سے زیادہ بولا جاتا ہے ، بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ایک لڑکی کو بس یہ ہی لفظ سننے کو ملتا ہے، وہ جب جب اپنی مرضی کرتی ہے اس کو یہ ہی کہا جاتا ہے تم ایک لڑکی ہو، دنیا بھر میں لڑکی ہونا ایک جرم بن گیا ہے ۔  لڑکی نہ تو اپنی مرضی سے پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی مرتے دم تک اسے اپنی مرضی کرنے کا موقع ملتا ہے ، پیدا ہوتے ہی بس ایک ہی چیز کان میں ڈال دی جاتی ہے کہ تم ایک لڑکی ہو جس کا کام گھر سنبھالنا ہے ، چاہے پڑھ لو، چاہے نوکری کرلو چاہے جو مرضی کرلو تم پیدا ہی خدمت کیلئے ہوئی ہو، ایک لڑکی کو ماں باپ پال پوس کر ایک روبوٹ بنا دیتے ہیں جس کا کام بس صرف جی جی کرنا ہے ، اس کے احساسات ، اس کے جذبات ، اس کی خواہشات سب کی سب اس کے دل میں دب جاتی ہیں، اسلام نے عورت کو سب سے زیادہ آزادی دی ، وہ اپنی مرضی سے کسی کو پسند کر سکتی ہے ، والدین اس کی زبردستی ایسے شخص سے شادی نہیں کرواسکتے جہاں وہ نہ کرنا چاہتی ہو، اس کی عزت کرنا ہر مرد کا فرض ہے ، اس سے اخلاق سے بات کرنے کا حکم ہے لیکن اس کے برعکس لڑکی کو ہر شعبہ میں ہی کم تر سمجھا جاتا ہے ، جہاں وہ زرا سا آگے نکلنے کی کوشش کرتی ہے اس کو فوراً طعنے ملتے ہیں کہ تم تو لڑکی ہو اتنا پڑھ کر کیا کرو گی، نوکری کرکے کیا کرو گی اور اگر وہ خود کفیل ہو جائے اور اپنی مرضی کرنے لگے تو کہا جاتا ہے کہ اس کو تو پر لگ گئے ہیں چار پیسے کیا مل گئے اپنی اوقات ہی بھول گئی ہے ، عورت چاہے جتنی مرضی بری ہو ایک مرد سے بری کبھی نہیں ہو سکتی کیوں کہ عورت کی عزت کی دھجیاں ایک مرد اڑاتا ہے ، اس کا دل مرد ہی توڑتا ہے اس کو دھوکہ مرد ہی دیتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ عورت کے بغیر مرد نامکمل ہے ، معاشرے میں لڑکی کی کوئی عزت نہیں


پرنس کی کتاب"ہاں میں لڑکی ہوں" سے اقتباس

Tuesday, July 22, 2014

اقوال فضول..... زریاب شیخ


اگر آپ کسی لڑکی کو دیکھ کر شرما جاتے ہیں تو سمجھ جائیں وہ لڑکی آپ سے سیٹ نہیں ہوگی

سنہری یادیں .... زریاب شیخ


اشارے پر کھڑا تھا اچانک پیچھے ایک گاڑی آن کھڑی ہوئی اور زور زور سے ہارن دینے لگی، کچھ لمحے برداشت کے بعد جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا، اس قدر خوبصورت ہیجڑا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور اسے فوراً راستہ دے دیا

اقوال فضول..... زریاب شیخ


اگر آپ کی نظر کسی لڑکی پر پڑ جائے تو اسے تب تک دیکھتے رہیں جب تک آپ شرمندہ نہ ہو جائیں

پرنس کے ٹوٹکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر زریاب شیخ



اگر آپ کے پیٹ میں درد ہو تو  اپنے کسی دوست کے پیٹ میں زور سے مکا مار دیں ، آپ کا درد اس کو ٹرانسفر ہو جائے گا

اگر آپ کو بہت زیادہ چھینکیں آرہی ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ کو کوئی لڑکی یاد نہیں کر رہی بلکہ ناک کا چوہا تنگ کر رہا ہے فوراً ناک صاف کرلیں


اگر آپ کے منہ سے بدبو آتی ہے تو کوئی بدبو دار چیز کھائیں  صحیح ہو جائیں گے کیوںکہ بدبو کو بدبو مارتی ہے

اگر آپ نے کھانا زیادہ کھا لیا ہے اور پیٹ باہر نکل آیا ہے تو غباروں میں منہ سے ہوا بھریں آپ کا پیٹ کچھ دیر میں اندر ہو جائے گا

یہ آم اپنی فطرت میں نہ چونسا ہے نہ لنگڑا.............. زریاب شیخ


آم ایک بہترین پھل ہےاس کو پھلوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے، یہ واحد پھل ہے جس کو تمیز سے کھانے کا بالکل مزہ نہیں آتا ، ایک وقت تھا یہ خاموشی سے بک جاتا تھا لیکن اب پھل والے اونچی اونچی آوازیں لگا کر بیچتے ہیں آم لے لو ، آم لے لو  ، جس طرح انسانوں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں اسی طرح آموں کی بھی مختلف شکلیں ہوتی ہیں ، جن لوگوں کو بچپن میں انگوٹھا چوسنے کی عادت ہوتی ہے ان کا پسندیدہ آم چونسہ ہے، اکثر تو اتنا  کھاتے ہیں کہ ان کا چونسے جیسا منہ ہو جاتا ہے ،شیخ چلی کے بقول اگر آم مفت کے ہوں تو پھر کھانے کا مزہ ہی  دو بالا ہو جاتا ہے ، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چونسے جیسا منہ جھوٹ بول بول کر بھی ہو سکتا ہے جیسا رائیونڈ کے چونسے اعلیٰ  کا ہوچکا ہے، جن بچوں اور بڑوں کو  یاد کرنےمیں دقت پیش آتی ہے ان کو آم کھانے کیلئے کہا جاتا ہے اس کو کھانے سے بچے اور نوجوان  پڑھائی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور فیس بک پر لڑکیوں کے نام کم یاد کرتے ہیں، حکما کہتے ہیں آم  نظام انہضام کو درست اور فعال رکھتا ہے اس لے یہ  سیاستدانوں کا مقبول پھل ہے کیوں  کہ وہ عوام سے جتنا مرضی جھوٹ بول لیں نہ تو ان  کا پیٹ خراب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی پینٹ ڈھیلی ہوتی ہے ، نوجوانوں کو آم زیادہ کھانے سے منع کیا گیا ہے کیوں کہ اس کو بہ کثرت کھانے سے نوجوانوں کو وٹامن شی کی ضرورت پڑ جاتی ہےاور شادی کے وظیفے شروع کردیتے ہیں اور پھر جو پیسے آم کھانے پر خرچ ہوتے تھے وہ ایزی لوڈ  خرچ ہو جاتے ہیں۔



پرنس کی کتاب" مجھے آم کہتے ہیں" سے اقتباس ،   

Monday, July 14, 2014

جانو جانو کردا میں آپے ماموں ہویا...... زریاب شیخ


ملکی ترقی میں نوجوانوں کا کردار بہت معنی رکھتا ہے جس طرح مرغی کے گوشت میں ٹانگ کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے اسی طرح پڑھے لکھے نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں ، یہ بات باعث المیہ ہے کہ پاکستانی نوجوان آج کل کتابوں کی بجائے تکیے کو سینے سے لگا کر سوتے ہیں ، قلم کی جگہ موبائل نے لے لی ہے ، زبان پر اللہ کی بجائے جانو جانو کی تسبیح ہوتی ہے ، پانچ وقت کی نماز مسجد میں کب ہوتی ہے اس کا تو نہیں پتہ ہوتا لیکن محلے کی لڑکی کا پوچھ لو تو ساری تفصیل بتا دیتے ہیں کہ وہ کب اٹھتی ہے ، کب منہ دھوتی ہے ، کس رنگ کے کپڑے پہنتی ہے، کب گھر سے نکلتی ہے اور کب آتی ہے،لیکن اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ اللہ سے تعلق عاشق کا ہوتا ہے ،،، صبح، دوپہر ، شام اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اے اللہ بس میری اس سے شادی ہو جائے ، چھوٹے، چھوٹے بچے رات بھر میری ناک میں دم کریں گے ، زندگی کا مزہ آجائے گا ، حیرت کی بات ہے یہ نوجوان بس صرف دعا کرتے ہیں دوا نہیں کرتے ، نماز پڑھتے ہیں نہ محنت کرتے ہیں اور جب اس لڑکی کی کسی اور سے شادی ہو جاتی ہے تو قسمت کا رونا رو تے رہتے ہیں ، پاکستان کی لڑکیاں اللہ بھلا کرے اپنے والدین پر بوجھ نہیں بنتی، ابا جی بیلنس نہ بھی دیں ، عاشق روز ایزی لوڈ کراتا رہتا ہے ، کتابیں کھول کر سپنے دیکھتی ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ نہ صرف پڑھائی میں آگے نکل جاتی ہیں بلکہ اچھی جاب بھی مل جاتی ہے ، سوائے عشق کے پاکستانی نوجوان نسل کو کچھ نہیں آتا شاید یہ عشق اس ملک کو ہی لے ڈوبے گا ، اس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے.

ایے میرے وطن کے ٹھرکی نوجوانوں
کچھ تو شرم کرو اور دل لگا کر پڑھو

پرنس کی کتاب"مٹی پاو" سے اقتباس

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب روز مانگ...... زریاب شیخ

 وہ ہوٹل کی بیسویں منزل کی دیوار پر کھڑا نیچے دیکھ رہا تھا ، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھی ، اسے بہت ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ خود کشی کرنے جا رہا تھا، اسے آج بھی وہ دن یاد ہے جب سیما سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی تھی ، دونوں ایک دوسرے سے روز باتیں کرتے اور پھر دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوگئی، ایک دوسرے کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں ، سچا پیار کیا ہوتا ہے وہ سیما کے زندگی میں آنے کے بعد پتہ چلا ، آخرکار ان دونوں کی ضد کے آگے والدین نے ہتھیار ڈال دیئے اور ان کی شادی ہوگئی ، سیما شادی کے بعد کچھ دن خوش رہی لیکن اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے دل میں اپنے شوہر کیلئے محبت نہیں وہ جسے محبت سمجھ رہی تھی شاید وہ ایک ضد تھی لیکن اس نے اپنے دل کی بات شوہر کو نہیں بتائی ، ایک دن وہ بہت ڈپریشن میں تھی اس سے رہا نہیں گیا اور آخر کار اس نے شوہر سے کہہ دیا کہ وہ اس کے ساتھ رہنا بھی چاہتی ہے لیکن اس کا دل بھی نہیں لگتا ، دونوں اس رات آنکھوں میں آنسو لئے سو گئے ، یوں وقت گزرتا رہا اور چار سال گزر گئے ، ایک دن انہوں نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا لیکن پھر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گئے کہ نئی زندگی کیسے گزاریں گے ،اس نے سوچا کہ اگر وہ مر جائے تو شاید اس کی بیوی نئی زندگی شروع کردے شاید اس کے جانے سے بیوی کی زندگی بدل جائے ، اس خیال سے وہ گھر کے پاس ہوٹل کی چھت پر چڑھا ، پھر اس نے آنکھیں بند کرکے نیچے چھلانگ لگادی ، اس کا سر زمین سے ٹکرایا ، کچھ لمحے بعد کسی نے اسے سہارا دیا تو دیکھا کہ اس کی بیوی سر گود میں لئے بیٹھی ہے اور کہہ رہی ہے کہ آپ اچانک بیڈ سے گر پڑے ، وہ خوش تھا کہ جو کچھ ہوا خواب میں ہوا پھر اس نے اپنی بیوی کو گلے سے لگایا اور اللہ سے دعا کہ اے اللہ میں ہمت نہیں ہاروں گا ،بیوی کا دل جیتوں گا،  اپنی زندگی کو سنواروں گا، میں بزدل نہیں ہوں ۔

پرنس کی کتاب"بیڈ سے زمین تک" سے اقتباس

Sunday, July 13, 2014

اے میرے وطن کے موٹے پولیس والوں ، فٹے منہ تمھارا... زریاب شیخ

کل رات گھر جاتے ہوئے راستے میں پولیس والے نے روک لیا کہنے لگا جناب کہاں سے آرہے ہیں ، ہم بولے جناب انارکلی سے مل کر آرہے ہیں ، بیچارا سر کھجانے لگا اور بولا انارکلی بازار کی بات کر رہے ہیں ہم بولے ارے نہیں جناب ہم اپنی جان انارکلی کی بات کر رہے ہیں ، پولیس والا تھوڑی دیر ہماری طرف گھورتا رہا پھر بولا اوئے کرتا کیا ہے ، ہم بولے جناب عشق کرتے ہیں پیدائشی عاشق ہیں ، پیدا ہوتے ہی نرس کی انگلی پکڑ لی تھی ، آج تک اس کی انگلی پر ہماری انگلیوں کے نشان باقی ہیں ، پولیس والا طیش میں آگیا اور بولا میں تمھیں مراثی لگتا ہوں کیا جو سوال پوچھتا ہوں اس کا الٹ جواب دیتا ہے ، جلدی بتا کہاں سے آرہا ہے ، ہم بولے بس یو ں ہی اس کی گلی میں آوارہ پھرتے ہیں ، شام ڈھلتے ہی گھر لوٹ جاتے ہیں ، پولیس والا اب بہت شدید غصے میں تھا سیٹی مار کر اپنے باقی ساتھیوں کو بھی بلا لیا اور بولا کہ بچو اب تو تھانے ہی جائے گا ، ہم نے کہا جناب آپ تو غصہ کر گئے میں صحافی ہوں ، دفتر سے گھر جا رہا ہوں ، بے چارا پیر پٹختا رہ گیا اور ہم ہونٹوں میں انگلی دبائے گھر کی طرف روانہ ہو گئے اور سوچتے رہے کہ اب تو یہ ملک بھی عاشقوں کے لئے تنگ ہو کر رہ گیا ہے پہلے اپنی جان کے گھر کے باہر کتنے چکر لگا لیتا تھا کوئی نہیں پوچھتا تھا اب دوسرے چکر پر ہی سب گھور گھور کر دیکھتے ہیں اس دہشتگردی نے جہاں لوگوں کے دل توڑے وہاں محبت کرنے والوں کو بھی پریشان کردیا ہے ۔

پرنس کی کتاب" رشوت خور بلے" سے اقتباس

Saturday, July 12, 2014

ایسا تو ہوتا ہے پھر ایسے کاموں میں .............. زریاب شیخ


کل یوں ہوا کے ہم گھر جارہے تھے سامنے سے کالی بلی گزری ۔ ایک دم پریشان ہو گئے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے ، بلی اچانک چلتے چلتے وہاں کھڑی ہوگئی اور ہم نے کچھ سوچا نہ سمجھا اور فوراً اس کے آگے سے گزر کر حساب برابر کردیا ، وہ بلی کچھ دور جا کر ہی اللہ کو پیاری ہوگئی ، گھر سے تھوڑا دور ہی تھے کہ ایک آوارہ کتا پیچھے پڑگیا کافی دیر تک پیچھے بھاگتا رہا ایک دم سے میرے منہ سے الطاف حسین کا نام نکل گیا تو رک گیا اور سر جھکا لیا اور واپس مڑ گیا، سوچتا ہوں کہ عوام ہی نہیں بھائی سے جانور بھی بہت ڈرتے ہیں یا ہو سکتا ہے ان کا بہت احترام کرتے ہیں، خیر گھر کے پاس آکر یاد آیا کہ مرغی لانی ہے ، قریب ہی ایک دکاندار کے پاس پہنچے وہاں کافی رش تھا ، اچانک ایک خاتون کے ہاتھ سے غلطی سے ہمارا ہاتھ چھو گیا ، بہت شرمندگی محسوس کی کہ کہیں وہ برا بھلا نہ کہہ دیں لیکن زمین پھٹی نہ آسمان گرا بلکہ کہنے لگی پرنس آپ بہت شرارتی ہیں ، ہم اتنے خوش تھے کہ مرغی بننے کے بعد خیال آیا کہ بٹوہ تو دفتر کی دراز میں  ہی رہ گیا تھا ، اس کے بعد دکاندار نے اسی طرح برا بھلا کہا جس طرح آج کی عوام شیر کو کہتی ہے ، شرمندہ شرمندہ موٹر سائیکل کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ پچھلے پہیے نے دھوکہ دیدیا ہے اور پنکچر پڑا اور ہم اپنا سا منہ لئے گھر کی طرف چل پڑے ، اچانک سریلی سی ہنسی کی آواز آئی تو دیکھا ایک لڑکی اپنی سہیلی کے ساتھ جینز پہنے باتیں کرتی جا رہی تھی ، اس کی مسکراہٹ ابھی پوری طرح دل میں اتری بھی نہیں تھی کہ اچانک ہمیں لگا کہ پیر ہوا میں ہے اور ایک دم سے سر کسی چیز سے ٹکرایا پھر ہسپتال میں ہی ہوش آیا، معلوم ہوا کہ ٹھرک پن کی وجہ سے ہم چلتے چلتے گٹر میں گر گئے تھے ، اللہ سے توبہ کی کہ آئندہ جب بھی کسی لڑکی کو دیکھیں گے تو پہلے سامنے اچھی طرح دیکھ لیں گے کہیں کوئی گٹر تو موجود نہیں ۔۔۔۔

پرنس کی کتاب"منی شرارتی" سے اقتباس

Friday, July 11, 2014

راتوں کی نیند حلال کردی اس نے ................ زریاب شیخ


وہ بھی کیا دن تھے جب اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا تھا، ہاتھی کے دانت کھانے کہ اور دکھانے کہ ایک ہی ہوتے تھے ، ہر کوئی اپنا الو سیدھا نہیں کرتا تھا جس کے پاس ایک لاٹھی تھی تو اس کی صرف ایک ہی بھینس ہوا کرتی تھی، آم گھٹلیوں کے دام ملا کرتے تھے ، کھانے کے ساتھ روٹی فری ملا کرتی تھی ، ہر شخص زرداری کی طرح خوش نظر آتا تھا ، لڑکیوں کی انگریزی میرا سے زیادہ اچھی ہوا کرتی تھی، لڑکے سوائے اپنی بہن کہ ہر اس لڑکی کو باجی کہتے تھے جو انہیں بھائی کہتی تھیں، ڈاکو بھی اسی گھر میں ڈاکہ ڈالتے تھے جہاں اوپر کی کمائی کا خوب مال موجود ہوتا تھا، گوشت والا بکرے کو اتنا پانی پلاتا تھا کہ بعد میں گوشت میں پانی ملانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ,کھٹا کھانے کے باوجود کسی کے دانت کھٹے نہیں ہوتے تھے، بجلی کا بل دیکھ کر کسی پر بجلی نہیں گرتی تھی، دودھ میں صرف دودھ ہوا کرتا تھا پانی ملانے کی آپشن خریدنے والے کے پاس تھی، اس وقت جب بادل گرجتے تھے تو برستے بھی تھے ، سبزیوں کو ہوش میں لانے کیلئے پانی نہیں ڈالا جاتا تھا، دالیں اتنی اچھی ہوا کرتی تھیں کہ جلدی گل جاتی تھیں ، لوگ اتنے اچھے تھے کہ رسی جلتی تھی تو ساتھ میں بل میں ختم ہوجاتا تھا ، لوگ سچ بولتے تھے، کسی کو شرم سے پانی پانی نہیں ہونا پڑتا تھا، اس وقت عقل بڑی ہوتی تھی اور بھینس صرف دودھ دیتی تھی،لاتوں کے بھوت باتوں سے آرام کے ساتھ مان جاتے تھے ، لڑکیاں مجھ جیسے حسین انسان کو دیکھ کر نظر جھکا لیتی تھیں انگلیاں دانتوں میں نہیں دباتی تھیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں

پرنس کی کتاب"الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے" سے اقتباس

جہاں بھر میں ہمارے عشق کی تشہیر ہوجائے..... زریاب شیخ

مجھے تم سے محبت ہے، ہاں سچ مجھے تم سے بس صرف تم سے محبت ہے ، تمھاری ان سرمئی آنکھوں سے محبت ہے ، ان میں ڈوبنے کا من کرتا ہے ، سچ کہوں تو میں ان آنکھوں میں آنسو کبھی نہیں دیکھنا چاہتا ، ان میں صرف میں رہوں یہ مجھے یوں ہی دیکھتی رہیں ، جب تم گہری نشیلی آنکھوں سے مجھے دیکھتی ہو ، وقت تھم سا جاتا ہے ، اے نازنین ہمیں تمھاری ان زلفوں سے عشق ہے ، جب ہوا میں یہ لہراتی ہیں بل کھاتی ہیں ایک حسین منظر لگتا ہے ، جب تم دھوپ میں نکلتی ہو یہ تمھارے حسین بال چھاؤں بن جاتے ہیں ، ان کی بھینی بھینی خوشبو اک نشہ سا طاری کردیتی ہے ، کبھی تم نے اپنے گالوں کو دیکھا ہے ، ہمیں دیکھتے ہی یہ گلاب کی طرح لال ہو جاتے ہیں ، انار کی کھل جاتے ہیں ، تمھاری یہ ناک اس میں جو نتھنی تم نے پہنی ہے ، دل پر چھریاں چلاتی ہے ، تمھاری خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہے ، ہائے چاند بھی شرما جاتا ہے ، کبھی تم نے اپنے ہونٹوں کو دیکھا ہے جب یہ پرنس کا نام لیتے ہیں دل میں میٹھی میٹھی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، کتنا اچھا لگتا ہے جب تم ہنستی ہو ، کوئل جیسی آواز کانوں میں گھنٹیاں سی بجاتی ہیں ، جب تم گنگاتی ہو تو نشہ سا چھا جاتا ہے ، اے میری جاناں بس یوں ہی تھام کے رکھوں گا ہاتھ تمھارا ، مشکل کی ہر گھڑی میں ، خوشیوں کے ہر پل میں ، پہاڑ کی اونچائیوں پر ، کچے پکے راستوں راستوں پر ، طوفان میں ، ہر پل تمھارا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا ، ایے نازنین مجھے تم سے محبت ہے بس تم سے محبت ہے ، یہ وعدہ ہے تجھ سے ، میرا جینا مرنا بس تیرے سنگ ہے ، اپنی آخری سانسوں تک تیرا ہوں اور تیرا رہوں گا ،میری دل کی دھڑکن پر بس تیرا نام ہے اور رہے گا

ہزاروں دُکھ پڑیں سہنا محبت مَر نہیں سکتی
ہے تُم سے بَس یہی کہنا محبت مَر نہیں سکتی

پرنس کی کتاب" عاشق کا خط" سے اقتباس

Monday, July 7, 2014

اگر پیار نہیں دیتے تو شادی کیوں کرتے ہو..... زریاب شیخ


عورت کو بہت کم لوگوں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے ، پھول سی نازک کلی کو  پیار اور توجہ   آج تک اتنی زیادہ نہیں ملی ہے ، مرد کیلئے مردانگی یہ ہی کہ اپنی عورت پر رعب جما کر رکھے ، وہ بھاگ بھاگ کر اس کے کام کرے اور آگے پیچھے پھرتی رہے، اسلام میں اس کے برعکس مردوں کو عورت کی عزت کرنے کا حکم دیا گیا ، گھر والی سے مسکرا کر بات کرنے کی تلقین کی گئی لیکن گھر والی کی بجائے مردوں نے باہر والی سے مسکرا کر بات کرنا شروع کردی، گھر والی کو لائن کے اندر رہنے کا حکم دیا اور خود باہر ہر کسی پر لائن مارنے میں لگے رہے ، عورت کی کئی قسمیں ہیں کوئی گلاب ہے تو کوئی موتیا ، کوئی چنمبیلی ہے تو کوئی رات کی رانی کی طرح ہوتی ہے لیکن مرد ان سب کو  ایک ہی طرح سے ڈیل کرتا ہے ، ہمارے ہاں ایک رواج ہے کہ عورت بس صرف کام کرنے کیلئے بنی ہے اس کا کام شوہر اور گھر والوں کی خدمت کرنا ہے اور شوہر کو سکون بھی دینا ہے ، خود اس کے جذبات ، اس کی خوشی، اس کی خواہشیں اس کی ہنسی ، اس کی صحت پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ، حیرت مجھے مسلمانوں پر ہوتی ہے کہ دین کے بارے میں کوئی بات کرے تو فوراً غیرت جاگ جاتی ہے لیکن جب عورت کی بات ہو تو سب کی غیرت ہی مر جاتی ہے سونے پر سہاگہ یہ کہ اگر کوئی اپنی گھر والی کا خیال رکھے تو اسے معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے ، پیار کی ضرورت سب سے زیادہ گھر والی کو ہوتی ہے لیکن اس کا زیادہ حصہ باہر والی کو دے دیا جاتا ہے ، یہ سلسلہ صدیوں سے چلتا آرہا ہے اور آگے بھی چلتا رہے گا ، مرد نہ پہلے سدھرا تھا نہ شاید اب سدھرے گا ۔۔

پرنس کی کتاب " گھر والی دل والی " سے اقتباس

Friday, July 4, 2014

گلو گلو کردی میں اک دن بٹ ہوئی.............. زریاب شیخ

مرد کے پاس ایک ایسی چیز ہے جس سے وہ کسی بھی عورت کو خوش کرسکتا ہے ، جی ہاں آپ کا جواب درست ہوا، اس چیز کا نام  ہے زبان ، مرد کی زبان جتنی چھوٹی ہوگی اتنا ہی اسے گھر میں اور باہر فائدہ ہوگا ، کئی مردوں کی زبان 2 گز لمبی ہوتی ہے ہر کسی سے زبان لڑاتے پھرتے ہیں ، بعض مردوں کو اپنی زبان پر قابو رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے، ایسے موقعوں پر بھی پھسل جاتی ہیں جہاں پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، کچھ مردوں کی زبان پر بیوی کو دیکھتے ہی تالہ لگ جاتا ہے لیکن باہر نکلتے ہی کینچی کی طرح چلنے لگتی ہے ، اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ  مردوں کی زبان بیگم کی تعریف کرنے سے گھبراتی ہے، وہ بے چاری کچھ بھی کرلے اس کے شوہر کی زبان ٹس سے مس نہیں ہوتی لیکن اگر باہر کوئی لڑکی مل جائے تو زبان سے فوراً پھول جھڑنے لگ جاتے ہیں ، کھانے کی تعریفیں شروع ہوجاتی ہیں وہ لڑکی جب تک خوشی سے پھول کر گول گپہ نہ بن جائے زبان رکنے کا نام ہی نہیں لیتی ہے اور جب سارے پھول ختم ہو جاتے ہیں تو خالی گملے اپنی بیوی کیلئے رکھ لیتے ہیں ، ایک تحقیق کے مطابق جن مردوں کی زبان چھری کی طرح تیز ہوتی ہے وہ بہت سخت دل ہوتے ہیں ، گھر والی ہو یا باہر والی کسی سے سیدھے منہ تو کیا الٹے منہ بھی بات نہیں کرتے اور جن کی زبان میٹھی ہوتی ہے ان سے گھر والی ہی نہیں سب ہی خوش ہوتے ہیں ، اس دنیا میں کامیاب وہ ہے جو ڈنڈے سے  زیادہ  زبان کے استعمال کا فن آتا ہے ورنہ گلو بٹ تو یہاں بہت سارے موجود ہیں


پرنس کی کتاب" ڈنڈا اور گلو بٹ" سے اقتباس