صدیوں پرانی بات ہے کہ ایک دن نرگس اپنی بے نوری پر زارو قطار رو رہی تھی کہ اچانک چمن میں اسے ایک دیدہ ور دکھائی دیا لیکن وہ یہ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگی کہ دیدہ ور ایک نہیں تھا بلکہ لمبی لائن ہی لگ گئی تھی اور تب سے اب تک یہ ہی حال ہے ، فیس بک ہو یا موبائل ہو ، ہر جگہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی نرگس روتی ہی نظر آتی ہے کیوں کہ اب صرف دیدہ ور ہی رہ گئے ہیں کوئی دیدہ زیب مرد نہیں رہا جو اس کی زندگی میں آئے اور بات بن جائے اور اس کی یک نہ شد زندگی دو شد ہو جائے، لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے لڑکیوں میں حیرت انگیز تبدیلی آرہی ہے ، اب لڑکیاں بھی دیدہ ور سے ہی خوش ہوتی ہیں، بقول شخصے دیدہ ور اس بھنورے کی مانند ہوتا ہے جو ایک پھول سے دوسرے پھول کا رخ کرتا ہے اسے کسی ایک پھول سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور پھول بھی یہ سوچتا ہے کہ چلو مرجھانے سے پہلے پہلے بھنوروں سے ہی دل بہلا لیا جائے، پھر وقت کی تیز ہواوں نے اس کی پنکھڑیاں بکھیر ہی دینی ہیں، آج کا دور بہت نازک ہوچکا ہے لڑکیاں اور لڑکے جیسے ہی تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو انجینئر یا ڈاکٹر بننے کے بجائے رانجھا اور ہیر بن جاتے ہیں ، لڑکیوں کو جیسے ہی باہر کی ہوا لگتی ہے وہ ہواوں میں اڑنا شروع کردیتی ہیں ان بچوں کی کتابوں پر لکھا ہوتا ہے کہ کتاب بہترین ساتھی ہے اس سے پیار کیجیئے اسے ضائع ہونے سے بچایئے لیکن اس کے برعکس وہ سمجھتے ہیں محبوب بہترین ساتھی ہے اس سے پیار کیجیئے اور جی بھی کر ایزی لوڈ کراویئے، آج کے نوجوان عشق میں پڑ کر امیر سے فقیر بن جاتے ہیں اور جو امیر نہیں ہوتے وہ لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں جبکہ لڑکیاںچھوٹے ہوتے ہوئے تو رحمت ہوتی ہیں لیکن عمر بڑھتے ہی زحمت بن جاتی ہیں ، اگر دیکھا جائے تو ان میں ان لڑکے لڑکوں کا قصور نہیں ، ہمارا معاشرہ ہی ایسا بن گیا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی کسی کو اب یہ یقین نہیں رہا کہ اس کی شادی ہو گی بھی یا نہیں ، والدین جوتے مار مار کر ان کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، کوئی گھر سے دیوانہ ہوکر جنگلوں میں نکل جاتا ہے تو کوئی لڑکی دریا میں گرمی کی شدت کم کرنے کیلئے چھلانگ لگا کر گرمی اور زندگی دونوں ہی ختم کردیتی ہے ، اور اگر کوئی لڑکی یا لڑکا ہمت کرکے بھاگ کر یا چھپ کر شادی کرلیتا ہے تو اس کے گھر والے غیرت میں آکر اس کو دنیا سے چلتا کرتے ہیں ، یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا نہ یہ معاشرہ ٹھیک ہوگا اور نہ ان نوجوان بچوں کی سوچ بدلے گی کیوں کہ جن کو بچپن میں پیار نہ ملا ہو وہ بڑے ہوکر پیار کی تلاش میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں اس ملک میں پیار کی بے انتہا کمی ہے ، جہاں دہشتگردی ، قتل و غارت گری عام ہو وہاں نرگس اور دیدہ ور کا پیار کسی کو ایک آنکھ نہیں بھا سکتا
Tuesday, May 27, 2014
یہ جو محبت ہے ، ان کا ہے کام ،،،، امی امی کا لیتے ہیں جو نام
صدیوں پرانی بات ہے کہ ایک دن نرگس اپنی بے نوری پر زارو قطار رو رہی تھی کہ اچانک چمن میں اسے ایک دیدہ ور دکھائی دیا لیکن وہ یہ دیکھ کر اور زیادہ رونے لگی کہ دیدہ ور ایک نہیں تھا بلکہ لمبی لائن ہی لگ گئی تھی اور تب سے اب تک یہ ہی حال ہے ، فیس بک ہو یا موبائل ہو ، ہر جگہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی نرگس روتی ہی نظر آتی ہے کیوں کہ اب صرف دیدہ ور ہی رہ گئے ہیں کوئی دیدہ زیب مرد نہیں رہا جو اس کی زندگی میں آئے اور بات بن جائے اور اس کی یک نہ شد زندگی دو شد ہو جائے، لیکن جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے لڑکیوں میں حیرت انگیز تبدیلی آرہی ہے ، اب لڑکیاں بھی دیدہ ور سے ہی خوش ہوتی ہیں، بقول شخصے دیدہ ور اس بھنورے کی مانند ہوتا ہے جو ایک پھول سے دوسرے پھول کا رخ کرتا ہے اسے کسی ایک پھول سے کوئی غرض نہیں ہوتی اور پھول بھی یہ سوچتا ہے کہ چلو مرجھانے سے پہلے پہلے بھنوروں سے ہی دل بہلا لیا جائے، پھر وقت کی تیز ہواوں نے اس کی پنکھڑیاں بکھیر ہی دینی ہیں، آج کا دور بہت نازک ہوچکا ہے لڑکیاں اور لڑکے جیسے ہی تھوڑے بڑے ہوتے ہیں تو انجینئر یا ڈاکٹر بننے کے بجائے رانجھا اور ہیر بن جاتے ہیں ، لڑکیوں کو جیسے ہی باہر کی ہوا لگتی ہے وہ ہواوں میں اڑنا شروع کردیتی ہیں ان بچوں کی کتابوں پر لکھا ہوتا ہے کہ کتاب بہترین ساتھی ہے اس سے پیار کیجیئے اسے ضائع ہونے سے بچایئے لیکن اس کے برعکس وہ سمجھتے ہیں محبوب بہترین ساتھی ہے اس سے پیار کیجیئے اور جی بھی کر ایزی لوڈ کراویئے، آج کے نوجوان عشق میں پڑ کر امیر سے فقیر بن جاتے ہیں اور جو امیر نہیں ہوتے وہ لکیر کے فقیر بن جاتے ہیں جبکہ لڑکیاںچھوٹے ہوتے ہوئے تو رحمت ہوتی ہیں لیکن عمر بڑھتے ہی زحمت بن جاتی ہیں ، اگر دیکھا جائے تو ان میں ان لڑکے لڑکوں کا قصور نہیں ، ہمارا معاشرہ ہی ایسا بن گیا ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی کسی کو اب یہ یقین نہیں رہا کہ اس کی شادی ہو گی بھی یا نہیں ، والدین جوتے مار مار کر ان کا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، کوئی گھر سے دیوانہ ہوکر جنگلوں میں نکل جاتا ہے تو کوئی لڑکی دریا میں گرمی کی شدت کم کرنے کیلئے چھلانگ لگا کر گرمی اور زندگی دونوں ہی ختم کردیتی ہے ، اور اگر کوئی لڑکی یا لڑکا ہمت کرکے بھاگ کر یا چھپ کر شادی کرلیتا ہے تو اس کے گھر والے غیرت میں آکر اس کو دنیا سے چلتا کرتے ہیں ، یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا نہ یہ معاشرہ ٹھیک ہوگا اور نہ ان نوجوان بچوں کی سوچ بدلے گی کیوں کہ جن کو بچپن میں پیار نہ ملا ہو وہ بڑے ہوکر پیار کی تلاش میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں اس ملک میں پیار کی بے انتہا کمی ہے ، جہاں دہشتگردی ، قتل و غارت گری عام ہو وہاں نرگس اور دیدہ ور کا پیار کسی کو ایک آنکھ نہیں بھا سکتا
Monday, May 26, 2014
بےبی ڈول میں سونے دی
فرض کرلیں پاکستان ایک حسین و جمیل لڑکی ہے، پنجاب اس کا لباس ، سندھ اس کا حجاب، بلوچستان اس کی لالی اور خیبرپی کے اس کی معصومیت ہے، اب زرا سوچیں بھارت، امریکہ، روس، اسرائیل ، تحریک طالبان یہ سب غنڈے ہیں جو اس لڑکی کی عزت لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں ، اگر یہ دشمن پنجاب کو نقصان پہنچائیں گے تو لڑکی کا لباس تار تار ہوگا اور دنیا بھر میں اس لڑکی کی جگ ہنسائی ہوگی، اگر سندھ کو تار تار کردیں تو اس لڑکی کی شوخ اور چنچل ادائیں ہی ختم ہو جائیں گی ، اگر بلوچستان کو کچھ ہو جائے تو اس لڑکی کی خوبصورتی ہی ختم ہو جائے گی اور خیبر پی کے کو تباہ کردیا جائے تو اس کی معصومیت کی دھجیاں اڑ جائیں گی ، جس طرح ایک لڑکی کو اپنی عزت ، اپنی معصومیت، اپنی لالی سے محبت ہوتی ہے اسی طرح اس لڑکی کو بھی محبت ہے ، پچھلی حکومت نے تو اس لڑکی پر گلگت بلتستان کا صوبہ بنا کر ڈوپٹہ بھی رکھ دیا تھا جس سے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگ گئے، ہم سب کو مل کر اس کی عزت بچانی ہے ، اگر اس کی عزت نہیں رہی تو پھر دنیا بھر میں پاکستانیوں کی عزت ہر کوئی تار تار کرتا پھر ے گا۔
پرنس زریاب کی کتاب(میری جانو پاکستان) سے اقتباس
مرغی ہوئی تھی یا انڈہ
صدیوں سے اس بات پر بحث ہو رہی ہے کہ پہلے مرغی ہوئی تھی یا انڈہ لیکن کبھی کسی نے مرغے کے بارے میں نہیں سوچا کہ اس کی بھی کوئی حیثیت ہے ،کوئی اہمیت ہے، وہ بےچارا اپنے حقوق کیلئے کب سے لڑ رہا ہے اور لوگوں کو مرغی اور انڈے کی فکر ہے، سوچتا ہوں کے مرغے اور شوہر میں کوئی فرق نہیں جس طرح بچہ ہونے کے بعد بیوی اپنے بچے کی دیکھ بھال میں مصروف ہو جاتی ہے اور شوہر بےچارا آہوں اور سسکیوں کے ساتھ رات کو کروٹیں بدل بدل کر آخر کار سو ہی جاتا ہے اسی طرح انڈہ ہونے کے بعد مرغی بھی اکیس دن تک اس پر بیٹھی رہتی ہے ساتھ میں مرغے پر بھی نظر جمائے رکھتی ہے کہ کہیں وہ کسی دوسری مرغی سے نظریں نہ لڑا لے، وہ بے چارا بھی ایک کونے میں پڑا کوکڑوں کڑوں کرتا رہتا ہے ، سوچتا ہوں مرغے اور شوہر کی بھی کیا زندگی ہے ، جو شوہر شادی سے پہلے گلاب کے پھول لاتا تھا ، بچہ ہونے کے بعد گلاب کی جگہ روز پیمپر لاتا ہے ، مرغا بے چارا صبح اٹھ کر اذان دیتا ہے اور پھر افسردہ ہوکر پڑا رہتا ہے ، اسے وہ دن بھی یاد آتے ہیں جب وہ مرغی کے پیچھے پیچھے بھاگتا تھا ، کتنا مزہ آتا تھا ، انڈہ ہونے کے بعد سب کچھ بدل گیا ، اس لئے میری شادی شدہ خواتین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے شوہروں جبکہ مرغیوں سے التماس ہے کہ وہ اپنے مرغوں کا خیال رکھا کریں، آپ کی مہربانی.........
پرنس کی کتاب"بیوی بمقابلہ مرغی" سے اقتباس
2050کا پاکستان کیسا ہوگا
اس وقت میں ایک پارک میں بیٹھا ہوں ، ملک میں اسلامی نظام قائم ہے ، ہر طرف امن ہی امن ہے ، لڑکیاں پردے میں کالج جا رہی ہیں ، لڑکے نظریں جھکائے اپنے کام میں مصروف ہیں،اگر کسی لڑکی سے بات کرنی ہو تو بہن جی کہہ کر بلاتے ہیں ، چھوٹے بڑوںکی عزت کرتے ہیں ، بڑے چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں ، کسی کا کوئی مسلکی اختلاف نہیں ، سب سنت رسولؐ پر عمل کرنے والے ہیں ، نوجوانوں نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں ، قانون کی پاسداری کی جاتی ہے ، لوگ اشارے پر رکتے ہیں ، کسی کو ہارن بجا کر راستہ لینے کا شوق نہیں ، مساجد میں ہر نماز میں جمعہ کی طرح رش لگا ہے، کمپیوٹر کا استعمال صرف معلومات کی حد تک ہوتا ہے، ٹی وی چینلز صرف خبریں سناتے ہیں اور اصلاحی پروگرام نشر کرتے ہیں ، کسی اشتہار میں خواتین نہیں ، لوگ فارغ وقت میں ایس ایم ایس کی بجائے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، نوجوان لڑکے لڑکیاں اللہ سے محبت کرتے ہیں صرف عشق حقیقی پر ان کی توجہ ہے ، سبزی فروش ناپ تول میں کمی نہیں کرتے، کھانے پینے کی ہر اشیا سستی اور خالص ملتی ہے ، مہنگائی کا ناموں نشان نہیں ، حکومت عوام کی خدمت میں مصروف ہے ، کوئی کسی سے حسد نہیں کرتا، نوجوان علم حاصل کرکے دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں ، ہر طرف پاکستان کی تعریف ہو رہی ہے ، دنیا بھر سے لوگ یہاں آکر خود کو بہت ہی سکون میں محسوس کرتے ہیں ، بھارت، چین ، افغانستان سمیت دنیا بھر میں پاکستانیوں کیلئے کوئی ویزہ پابندی نہیں ، ان کی ہر جگہ عزت کی جاتی ہے، پاکستان دنیا بھر میں پرامن ملک کے طور پر جانا جاتا ہے ۔
نوٹ:- مصنف کا دماغ خراب ہوگیا ہے کیوں کہ آج کی نوجوان نسل کبھی بھی ایسا اچھا پاکستان دیکھنا نہیں چاہے گی
پرنس زریاب کی کتاب"ڈراونے خواب " سے اقتباس
میرا نام پاکستان، پاکستان ۔ پاکستان
میرا نام پاکستان ھے ، 14 اگست 1947 کو میں آزاد ہوا، مجھے پانے کیلئے سینکڑوں لوگوں نے قربانی دی، لڑکیوں نے کنوویں میں چھلانگ لگا کر جان دی، کتنی لڑکیوں کو ہندو اور سکھ اٹھا کر لے گئے لیکن افسوس جس طرح ماں بچے کا خیال رکھتی ہے اس طرح میرا کسی نے خیال ہی نہیں رکھا، پہلے چار ٹکڑوں میں تقسیم کرکے صوبے بنائے گئے میں سمجھا کہ اس طرح لوگ خوش رہیں گے لیکن لوگ بھی چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئے سوچا تھا اتنا ہی کافی ہے لیکن پھر مسلک کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، جس کا دل چاہتا ہے مجھ پر تھوکتا ہے ، گند پھینکتا ہے، میری صفائی کا کوئی خیال ہی نہیں کرتا ، مجھے اس لئے بنایا گیا تھا کہ لوگ آزاد ہوں گے لیکن یہاں تو سب اپنی خواہشوں اور پیسے کے غلام نکلے، لوگوں کے درمیان اتنے فاصلے ہوگئے کہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ اس کے ہمسائے نے کھانا بھی کھایا یا نہیں ، میرا دل کرتا تھا کہ ہر طرف خوشیاں ہونگی ، خوشحال ہوگی لیکن اس وقت میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب کوئی بھوک سے خودکشی کرتا ہے، جب کسی لڑکی کو اس کی غلطی پر غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے ، میں پوچھتا ہوں کہ اے نام نہاد پاکستانیوں تمھیں اس وقت غیرت نہیں آتی جب کوئی میری سرحدوں کو پامال کرتا ہے، جب مجھ پر باہر سے آکر بم برسائے جاتے ہیں ، چھوٹے چھوٹے بچوں کے خون میں لتھڑے جسم میرے سامنے پڑے ہوتے ہیں ، میں بس نام کا پاکستان ہوں اور نام کا آزاد ہوں ، دنیا میں میری عزت پامال کردی گئی، ہر کوئی مجھ کو برا بھلا کہتا ہے ، جب میں آزاد ہوا تھا تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی لیکن پرتعیش زندگی گزارنے کیلئے درخت کاٹ کاٹ کر میری لالی چھین لی گئی،اب لوگ مجھے چھوڑ چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں جانا پسند کرتے ہیں ، میں پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے اس لئے آزاد کیا گیا تھا ، اس لئے اتی قربانیاں دی گئی تھیں ، اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ میری حالت اچھی رہے تو میرا خیال رکھو ، میری قدر کرو اور زرا ان لوگوں کی بھی حالت دیکھو جو غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں ، اب بھی وقت ہے سدھر جاو ورنہ پچھتاو گے........
پرنس زریاب کی کتاب"اللہ معافی" سے اقتباس
ہندو بہت اچھےہوتے ہیں یار
مجھے بھارت کے ہندو بڑے اچھے لگتے ہیں کیوں کہ وہ بالکل اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں ، ان کے ہاں لڑکی کو آج بھی زندہ درگور کیا جاتا ہے اور چودہ سو سال پہلے بھی کیا جاتا تھا، ناچ گانا ان کے مذہب کا حصہ ہے اور سب لوگ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، ان کے مذہب میں لڑکیوں کو دیکھنے کا گناہ نہیں اس لئے ہر کوئی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے ،ماڈلز بھی کم سے کم کپڑے پہنتی ہیں کیوں کہ ان کے مذہب نے اس پر کوئی سختی نہیں کی ، ناپاک رہتے ہیں ، زہن بھی گندا ، بتوں کو پوجتے ہیں ، ہاں ایک بات ہے سادھووں ، بھکشووں کا احترام کرتے ہیں ، انگریزوں کا دن بھی مناتے ہیں اپنے دن بھی مناتے ہیں ، سود کھاتے ہیں ، سور کھاتے ہیں ، کبھی دل کیا بت کے سامنے کھڑے ہو گئے ، شراب پی لی ، اتنی اچھی قوم ہے پروا ہی نہیں جنت میں جانا ہے یا دوزخ میں جانا ہے بس یقین ہےکہ مرنے کے بعد پھر دوسرا جنم ہوگا پھر تیسرا ہوگا ، ایک بے چارے پاکستان کے مسلمان ہیں، ان کا مذہب ہے اسلام، جس میں عورت کو عزت دی گئی ، پردہ کرنے کا حکم دیا گیا، بیٹی کو رحمت قرار دیا گیا لیکن نہ ان کے سر پر ڈوپٹہ ہوتا ہے ، نہ پردہ کرتی ہیں ، جسم کی نمائش کا بے انتہا شوق ہے، بیٹی کو زحمت سمجھتے ہیں ،اس قوم کو معلوم ہے کہ سود کا استعمال اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ اعلان جنگ ہے اس کے باوجود دھڑا دھڑا دجالی فوج تیار ہو رہی ہے،شراب بھی پیتے ہیں ، عورت کو پیروں کی جوتی سمجھا جاتا ہےاور خود عورت کو بھی پیروں کی جوتی ہی بننے کا شوق ہو گیا ہے ، نوجوان داڑھی کا ہنس ہنس کر مذاق اڑاتے ہیں ، دین کا پتہ نہیں لیکن مولوی کی ایک منٹ میں ایسی تیسی کر دیتے ہیں ، نماز پڑھتے نہیں ، اللہ کا زکر کرتے نہیں ، گانے گاتے ہیں، لڑکیاں لڑکے مست نظر آتے ہیں ، اتنی اچھی قوم ہے حرام کام کرکے اللہ کا شکر ادا کرتی ہے، اللہ کا بڑا احسان ہے پاکستان آئیڈل جیت گئی ، اللہ کا شکر ہے میری فلم سپر ہٹ
ہو گئی، مذہب اسلام نے جس جس کام سے منع کیا ہے اس قوم نے قسم کھائی ہے کہ بس وہ ہی کام کرنے ہیں اور جو کام اللہ اور رسول ؐ کو پسند ہیں وہ تو بالکل نہیں کرنے، عورتوں نے ٹخنوں سے شلوار اونچی کرلی ہے جبکہ مردوں نے نیچی کرلی ہے ، پھر کہتے ہیں، اللہ نہیں سنتا ہا ہا ہا ہا ہا ہا
پرنس کی کتاب" شرم تم کو مگر نہیں آتی" سے اقتباس
ہم سب کو وہ دیکھ رہا ہے
کیمرے کی ایک آنکھ ہوتی ہے اس کو ایجاد کرنے والے نے بہت دور کی سوچ کر اس کو بنایا ہے ،اس سے آپ خوبصورت لمحات کو عکسبند کر لیتے ہیں، پھر یہ آنکھ موبائل میں آگئی ، شروع میں اس آنکھ کی بینائی کم تھی آہستہ آہستہ زیادہ ہونی شروع ہوگئی پھر اس آنکھ نے وہ کچھ عکسبند کرنا شروع کردیا جو انسان کبھی دوسروں کو نہیں بتانا چاہتا ، آہستہ آہستہ اس آنکھ کی طاقت بڑھتی گئی ، پھر لوگ دور سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اب وہ وقت آنے والا ہے جب یہ آنکھ اس قابل ہو جائے گی کہ اس سے کچھ بھی چھپا نہیں رہے گا ، پھر موبائل کے کیمرے کی آنکھ ، کمپیوٹر کے کیمرے کی آنکھ اور جگہ جگہ لگے کیمرے کی آنکھ اور آسمان پر جا بجا سیٹیلائٹ کی آنکھ سے آپ چھپ نہیں سکیں گے ، اللہ انسان کے ہزاروں عیب دوسروں سے پوشیدہ رکھتا ہے لیکن اگر یہ عیب ایک دوسرے کو پتہ لگنے لگ جائیں تو ایک بھونچال آجائے گا ، راز افشاں ہونے سے لوگ ایک دوسرے سے نفرت کریں گے ، محبت ختم ہو جائے گی، لوگ ایک دوسرے کو بلیک میل کریں گے ، آج کل اس آنکھ کو بہت اہمیت دی جارہی ہے، ہم لوگ اس آنکھ کے عادی ہوتے جارہے ہیں ، یہ ایک آنکھ ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہے ، وہ دن دور نہیں جب ہر انسان کو ایک آنکھ دیکھ رہی ہوگی،ہم اپنے گھر اپنے کمرے حتیٰ کے اپنے باتھ روم میں بھی اکیلے نہیں ہوں گے ، ان سب آنکھوں کو ایک شخص کنٹرول کررہا ہوگا، جس کی خود ایک آنکھ ہوگی ، وہ آرہا ہے .........................
پرنس زریاب کی کتاب"وہ آنیوالا ہے" سے اقتباس
مسلمان غیرت مند ہوتا ہے
جو لوگ خوش قسمتی سے مسلمان ہونے کے باوجود ماڈرن ازم کی تعریف کرتے تھکتے نہیں اور اسلام سے خائف نظر آتے ہیں وہ سب سے پہلے مولویوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ان کو دین کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ہوتا اور صبح شام داڑھی والوں کو لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ خواتین اگر پردہ کرنا چھوڑ دیں، نوجوان داڑھی مونڈھ کر عجیب و غریب بالوں کے سٹائل بنایا کریں ، لڑکی لڑکا جب چاہے ایک دوسرے سے ملیں ، شراب عام ہو اور کوئی مولوی انہیں روکنے والا نہ ہو تو یہ ملک دن دگنی ترقی کرے گا ، حیرت ہے کہ ان کے خالی دماغ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اللہ کی مرضی کے خلاف کام کرکے مسلمان کیسے ترقی کر سکتا ہے، ایک مولوی اگر کوئی غلط کام کرتا ہے تو صرف اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے تمام مولویوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے لیکن ایک داڑھی منڈھا نوجوان غلط کام کرے تو سارے داڑھی منڈھوں کو کچھ نہیں کہا جاتا ، اگر ایک لڑکی خراب ہو اور یہ کہا جائے کہ لڑکیاں تو ہوتی ہی خراب ہیں تو سب کہیں گے کہ ایسا نہیں ہے، کسی کا باپ اگر برا ہے تو یہ کہنا کہ سارے والدین ہی خراب ہوتے ہیں تو ایسی سوچ رکھنے والا پاگل ہی کہلائے گا، یہ لوگ انتہا پسندی کا نام لے کر درحقیقت اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں ،اسلام میں چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے، ڈاکو کا ایک ہاتھ ایک پاوں کاٹنے کا حکم ہے، مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے، مرد کا مرد سے تعلق پر زندہ جلانے کا حکم ہے ، نبیؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کا حکم ہے کیوں کہ اسلام ایک غیرت پسند مذہب ہے اور نبیؐ سے صرف ایک غیرت مند مسلمان ہی محبت کرتا ہے ، نبیؐ کی سنت سے محبت صرف ایک غیرت مند مسلمان ہی کرتا ہے اسی لئے ایک مسلمان کا غیرت مند ہونا ضروری ہے ، جس مسلمان میں غیرت نہیں وہ یہی چاہتا ہے کے بے حیائی ہو ، بے شرمی ہو لیکن ایک غیرت مند کبھی کسی کی بیٹی کو بے حیا نہیں دیکھنا چاہتا، اب ہم اور آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم غیرت مند ہیں یا .........................
پرنس کی کتاب"اللہ اکبر " سے اقتباس
آستین کے سانپوں سے دور رہیں ورنہ پچھتائیں گے
اگر کسی شخص کے گھر کے سیوریج کا پانی اور پینے کے پانی کا پائپ مل جائے تو گھر والوں کو کتنی تکلیف ہوگی لیکن اگر گھر والوں کی سونگھنے اور چکھنے کی حس ہی نہ ہو تو انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ پانی گندہ ہے اور جب وہ بیمار ہونگے تو ان کو ڈاکٹر بتائے گا کہ گندےپانی کی وجہ سے یہ حالت ہوئی ہے لیکن تب تک کافی دیر ہوچکی ہوگی ، ایسا ہی کچھ مسلمان کے ایمان کے ساتھ ہو رہا ہے ، ایک انسان جب وضو کرکے کھانا پکاتا ہے تو اس کے اثرات اور ہوتے ہیں اور ایک ناپاک انسان جب کھانا پکاتا ہے تو اس کے اثرات اور ہوتے ہیں ایسے ہی حرام کی کمائی اور حلال کی کمائی کے اثرات مختلف ہوتے ہیں اور یہ بات سب ہی آدمی جانتے ہیں۔۔ لیکن اس کائنات میں انسانوں کا ایک گروہ بھی ایسا ہے جو بالکل سیوریج کے گندے پانی کی طرح ہے وہ مسلمانوں کے درمیان ہی رہتے ہیں ، بالکل انہی کی نقل کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ایمان کو جو پانی کی طرح صاف ہے اسے اپنے سیریج سے بھرے شیطانی ایمان سے گندا کرتے رہتے ہیں، مسلمانوں میں موجود سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم لوگ ان کے ساتھ دوستی بھی کرتے ہیں ، ان کے گھر سے کھاتے بھی ہیں اور اکثر تو شادیاں بھی کرتے ہیں حالانکہ ان کے ساتھ نکاح جائز ہی نہیں ، جس طرح خنزیر حرام ہے حتیٰ کہ اس کی کھال اور ہڈیوں سے بنی ہر چیز حرام ہے اسی طرح اس گروہ کے ساتھ کھانا ، پینا، اٹھنا، بیٹھنا، شادی کرنا سب حرام ہے ، اس گروہ نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی کمپنیاں بنا رکھی ہیں جو مسلمانوں کو اپنے پاس نوکریاں دیتی ہیں ، سہولتیں دیتی ہیں اور پھر اپنی حرام کی کمائی سے ان کو تنخواہ دیتی ہیں ان کمپنیوں کی چیزیں لبرل مسلمان کھاتے ہیں اور پھر اس منافع سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہی تبلیغ کی جاتی ہے، یہ تو سب کو پتہ ہے کہ اگر کھانے میں غلاظت گر جائے تو پھینک دی جاتی ہے لیکن اگر ایسا ہو کہ غلاظت ہو لیکن نظر ہی نہ آئے تو سب شوق سے کھائیں گے، بس اس گروہ کی کمپنیاں بالکل ایسا ہی کر رہی ہیں ، ان کی کھانے پینے کی اشیا میں غلاظت نظر نہیں آرہی اور مسلمان نہ صرف اس کی تعریف کرتے ہیں بلکہ ہر گھر میں شوق سے شیطان ( شیزان) اور اس کمپنی کی بنی چیزیں کھائی جاتی ہیں ، یہ گروہ نبیؐ کی نبوت پر ڈاکہ ڈال رہا ہے، اس کا بانی مرزا احمق قادیانی کو اللہ نے دنیا میں نشان عبرت بنایا اور وہ خود بھی باتھ روم میں مرا تھا ، غلاظت اس کے منہ سے نکل رہی تھی اسی طرح اس کے ماننے والوں کے جسم سے بدبو آتی ہے اور چہرہ مرنے کے بعد غلیظ ہو جاتا ہے مگر افسوس آج اس ملک میں لبرل مسلمان ان قادیانیوں کی مکمل سپورٹ کر رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ بھی انسان ہیں ان کا بھی جینے کا حق ہے لیکن میرا ایمان ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ دوستی کرنیوالے ، ان کی کمپنیوں کی چیزیں کھانے والے لوگ نہ صرف دنیا میں نبیؐ کی سنت سے محروم رہیں گے بلکہ قیامت کے دن ان کو نبیؐ کا چہرہ مبارک بھی دیکھنا نصیب نہیں ہوگا، ان سے اب بھی گزارش ہے کہ قادیانیوں سے دور رہیں اپنے گھر کو شیطان کی اشیا سے بچائیں۔
پرنس کی کتاب"مرزا باتھ روم " سے اقتباس
اے ماں تجھے سلام
ماں ایک مقدس رشتہ ہے، میں جب بھی یہ الفاظ بولتا ہوں تو میری ماں خوش ہو نہ ہو میری پڑوسن مقدس بہت خوش ہوتی ہے کیوں کہ اس کو لگتا ہے جیسے میں نے اس کے رشتے کی بات کی ہے ، ماہرین کی عجیب و غریب تحقیق کے مطابق پاکستان میں ماوں کی کئی قسمیں ہیں ایک صدا بہار ماں ہے جو بےچاری ہر وقت گھر میں مصروف رہتی ہے ،قائداعظم کے فرمان کے مطابق کام کام کام اور بس کام ہی کرتی ہے، ایک ماں وہ ہے جس سے موبائل پر نوجوان رات بھر باتیں کرتے ہیں اور پیچھے سے آواز آتی ہے یہ رات کو کون سی ماں کے ساتھ باتیں کر رہا ہے ، سو جا ، بس کردے ،اس کمبخت موبائل نے تو ستیاناس ہی کردیا ہے تو تو اپنے باپ پر ہی چلا گیا ہے ، تیسری ماں ہم نے قسم کھانے کیلئے رکھی ہوئی ہے ، اکثر نوجوان طبقہ یہ بولتا نظر آتا ہے کہ ارے تجھے تیری ماں کی قسم ، بتا نہ تیرا اس لڑکی کے ساتھ کیا چکر ہے، تجھے تیری ماں کی قسم مجھے کچھ رقم ادھار دیدے ، ایک ماں ہیجڑوں کی ہوتی ہے جب بھی ان کو کوئی چھیڑتا ہے تو سب سے پہلے ان کے منہ سے یہ ہی الفاظ نکلتے ہیں " اوئی ماں" تیرا ستیاناس ہوجائے، ارے تیرا بیڑا غرق ہو جائے، ایک ہماری دھرتی ماں ہے جس سے ہم پیار کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن بالکل قدر نہیں کرتے ، بجائے اس کا خیال رکھیں ، اس کی خوبصورتی کی دیکھ بھال کریں ، بم دھماکوں ، خودکش حملوں اور گندگی کے ڈھیر سجا سجا کر ہم نے اسے بیوہ ہی بنا دیا ہے، اگر ہم اپنی ماں کے ساتھ برا سلوک کریں گے تو وہ دن دور نہیں جب دنیا ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کریگی گی
پرنس کی کتاب"ماں، امی، ممی، اماں" سے اقتباس
پاکستان کے سب سے زیادہ نیک لوگ
دنیا میں سب سے زیادہ نیک لوگ پاکستان میں رہتے ہیں ، ایک مقامی نیک تنظیم کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ میں سے تین افراد نیک ہیں، ان کی اکثریت مسجدوں کی بجائے اہم شاہراہ، دفاتر، پارک پر ہمہ وقت موجود رہتی ہے ، ان کی نشانی یہ ہے کہ یہ عین اسلام کے مطابق صرف لڑکیوں کو پہلی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن پلک جھپنا ہی بھول جاتے ہیں چونکہ پہلی نظر معاف ہے تو یہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اگر کوئی برا انسان انہیں شرمندہ کرے تو ساتھ ہی جواب دیتے ہیں کہ اللہ نے کتنا حسین چہرہ بنایا ہے ماشا اللہ پڑھ کر نظرین جھکا لیتے ہیں، فیس بک پر بھی پیاری سے بے پردہ لڑکی کی تصویر لگا کر اسے قوم کی بیٹی کا خطاب دیتے ہیں، اس کے بعد ہر طرف سے نیک لوگوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے ہر کوئی اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے ساتھ میں ماشا اللہ لکھ کر چلا جاتا ہے، دین پر گفتگو کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، یہ نیک لوگ ہر برے شخص پر تنقید کرتے ہیں گویا ان سے اچھا دنیا میں کوئی نہیں اور ہر اچھے انسان کو حسد بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کوشش یہ ہی کرتے ہیں کہ کسی طرح اسے بھی برا ہی ثابت کریں اگر ایک محفل میں ایک سے زیادہ نیک لوگ ہوں تو پھر کسی کو بھی برا ثابت کرنا اور بھی آسان ہو جاتا ہے، پاکستان میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نیک لوگ، سیاست، عدالت ، فوج میں بھی عام ہونا شروع ہو گئے ہیں، فیس بک پر بھی ان کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پران ہی نیک لوگوں کا قبضہ ہوگا ، جب اس ملک کی ہر لڑکی اور لڑکا یہ ہی چاہے گا کہ بس اس کی شادی کسی نیک سے ہی ہو، جب ہر گلی اور محلے سے آواز آئے گی میں نیک ہوں میں نیک ہوں۔
پرنس کی کتاب"ن کے بغیر نیک" سے اقتباس
اے جی ۔۔۔ او جی۔۔۔ لو جی۔۔ سنو جی
پاکستان میں تھری جی اور فور جی سروس جلد ہی شروع ہو نے والی ہےجس کے بعد سنا ہے انقلاب کا سونامی آجائے گا، مہنگائی کا جن روتا ہوا واپس بوتل میں چلا جائے گا، روٹی ایک ایس ایم ایس سے بھی زیادہ سستی ہو جائے گی ، غریب کے گھر کا چولہا کبھی ٹھنڈا نہیں ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ گیس آتی ہو، انصاف گھر کے دروازے پر ملے گا، چاہے آپ گھر پر موجود نہ بھی ہوں، ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی، جہیز میں دلہنیں فور جی موبائل بھی اب ساتھ لائیں گی، کاشتکاروں کو تو بڑا فائدہ ہوگا کیونکہ تھری جی اور فور جی کی کھاد ڈالنے کے بعد ان کی فصل پہلے سے بھی زیادہ ہری بھری ہوگی اور پھرگھر میں پیسوں کی ریل پیل شروع ہوجائے گی، سکولوں میں خواندگی کی شرح بنگلہ دیشن سے بھی بڑھ جائے گی، وزیراعلیٰ طلبا کو لیپ ٹاپ کی بجائے تھری جی اور فور جی موبائل دیں گے تاکہ وہ اپنی تعلیم پر کم اور رات کو جانو پر زیادہ توجہ دیں، کیونکہ آواز کے ساتھ اب محبوب کا حسین چہرہ بھی دیکھنے کو ملے گا، امریکہ بھی پاکستان کی عزت کرے گا اور جی جی کرکے بات کیا کرے گا ، بھارت اور افغانستان تو کبھی پاکستان کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کریں گے، ڈالر کانپتا ہوا تیزی کے ساتھ نیچے چلا جائے گا ، تھری جی اور فور جی موبائل رکھنے والوں کو پیٹرول بہت ہی سستا ملے گا، بجلی کا بل بھی کم آئے گا کیوں کہ ان کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی چھوٹ دی جائے گی، میری طرف سے آپ سب کو تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے آنے پر بہت بہت بہت بہت مبارکباد ہو
پرنس کی کتاب"بلی کو 4 جی کے خواب"سے اقتباس
صنف نازک کسی سے کم نہیں
اگر دنیا میں صنف نازک نہ ہوتی تو شاید یہ خوبصورت نہ ہوتی، گلاب کے پھول خود ہی مرجھا جاتے، انہیں پھر کون اظہار محبت کیلئے کسی کو دیتا، موتیوں کے پھولوں کے کجرے کی پھر کیا اہمیت ہوتی، عورت کے ہاتھ اور پاؤں کے حسن کو چار چاند لگا نے والے مہندی کے پھول کی قدر پھر کس نے کرنی تھی ، چاند کی چاندنی پر نہ کوئی شعر ہوتا، پائل کی چھن چھن پر نہ دھڑکنیں تیز ہوتیں، لیلیٰ کی مسکراہٹ پر مجنوں فدا نہ ہوتا، ہیر کی ہنسی سے رانجھے کو پیار نہ ہوتا، فرہاد نہ شیریں کیلئے دودھ کی نہر نکالتا، رومیو اپنی جولیٹ کیلئے خود کو نہ مارتا، پیار،عشق اور محبت کے لفظوں سے کوئی آشنا نہ ہوتا،اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کو خوبصورت بنانے کیلئے حسین تحفہ اللہ نے اس کائنات میں بھیجا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا حسن ماند پڑتا جا رہا ہے، پھول سے بھی نازک لڑکی اب پھول جیسی نہیں رہی، خود نمائی کے باعث اس پری زاد کی خوبصورتی ختم ہو رہی ہے، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورت چاہے کتنی ہی بری ہو یا کتنی ہی اچھی ہو دونوں صورتوں میں اس کی عزت ہی کرنی چاہیئے،وہ کوئی کھیلنے کی چیز ہے نہ کسی کے پیروں کی جوتی ہے کہ پرانی ہونے پر نئی آجائے، حقیقت میں مرد وہ ہی ہے جو عورت کی پر حال میں قدر کرے، اسے عزت کی نگاہ سے دیکھے، اس کا احترام کرے۔
پرنس کی کتاب"پھول اور کانٹے" سے اقتباس
گدھوں کے ساتھ معذرت کے ساتھ
گدھا دنیا کا سب سے شریف جانور ہے اور شریفوں میں اس کا بہت اعلیٰ مقام ہے، گدھے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کے سامنے آپ کچھ بھی کرلیں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا، پاکستان میں گدھے کو وقت آنے پر اکثر سیاستدان باپ بھی بنا لیتے ہیں، ایک بار میں ایک دکان پر ضروری کام کروا رہا تھا بجلی جانے کے بعد اچانک میرے منہ سے وزیر پانی و بجلی کیلئے سچے دل کے ساتھ انتہائی برے الفاظ نکل گئے جس پر میرے سامنے کھڑے گدھے نے مجھے دیکھ کر بہت برا منہ بنایا اور کئی منٹ تک احتجاجاً ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا، گدھے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کہ سر پر سینگھ نہیں ہوتے ، ماہر حیوانات المعروف پرنس کی ایک چوری کی تحقیق کے مطابق گدھوں کو گدھا اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ وہ گدھے ہوتے ہیں اور یہ انسانوں سے علم سیکھتے ہیں چونکہ اس ملک کے عوام اور گدھوں میں کوئی خاص فرق نہیں رہا اس وجہ سے گدھوں کا "IQ" لیول بہت کم ہوتا جا رہا ہے، اس ملک کے سیاستدان، بیوروکریٹ، جج سب ہی عوام اور گدھے کو ایک ہی ترازو میں تولتے ہیں ، مہنگائی کے جوتے کھانے کے باوجود عوام گدھوں کی طرح خاموش رہتے ہیں ، پرنس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گدھے کی نسل تیزی سے ختم ہورہی ہے کیونکہ عوام نے ان کی ساری خصوصیات اپنا لی ہیں اور چونکہ ایک میان میں دو گدھے نہیں رہ سکتے اس لئے گدھے بہت مایوس ہو چکے ہیں ، ماہرین کے مطابق گدھوں کو بچانے کیلئے عوام کو اپنے اندر سے گدھانہ صلاحیتوں کو ختم کرنا ہوگا اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر وہ گدھے کہ گدھے ہی رہیں گے لیکن تب تک اصلی گدھے نہیں رہیں گے
پرنس کی کتاب'' عوام اور فرینڈلی گدھے" سے اقتباس
نیکی کر لیکن سوچ کر دریا میں ڈال
میری
آنکھوں سے آنسو جاری تھے حالانکہ میں نے ایک لڑکی کی مدد کی تھی اور مدد
کسی کی بھی کی جائے بہت اچھی بات ہےلیکن جب مجھے اس لڑکی کی اصلیت کا پتہ
چلا تو دل کو بہت ٹھیس پہنچی اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگا ، ایسا تو
ہونا ہی تھا کیونکہ اندھا اعتماد اچھا نہیں ہوتا لیکن اس میں میرا اتنا
قصور نہیں ، بچپن سے ہی میرے دل میں دوسروں کیلئے
بہت درد تھا ، میری کوشش ہوتی تھی کہ جب بھی کسی کو ضرورت ہو میں اس کی
مدد کروں ، جیسے اگر کسی سے کھانا نہیں کھایا جا رہا تو میں اس کی مدد
کرتا تھا تاکہ کھانا ختم بھی ہوجائے اور مل کر کھانے کا ثواب بھی مل جائے ،
اگر کوئی اکیلا جارہا ہے تو میں اس سے لفٹ لے لیتا تھا تاکہ راستے میں ہم
باتیں کرتے ہوئے جائیں اور سفر پرلطف ہوجائے اور اگر خود اکیلا جارہا ہوتا
تو اکثر لڑکیوں کو لفٹ دے دیتا تھا تاکہ کوئی لڑکا ان کو مت چھیڑے، بس شرط
یہ رکھتا تھا کہ مجھے بھائی مت کہے، اللہ کا شکر ہے کبھی گھر میں کوئی
شکایت نہیں آئی ، میں یہ سب کچھ انسانیت کے ناتے کرتا تھا اور اس دن بھی
میں نے اسی سوچ کے ساتھ اس لڑکی کی مدد کرنی چاہی تھی ، جس طرح درد بھرے
انداز میں اس نے ایس ایم ایس کیا تھا اس کو پڑھ کر میرا دل بھر آیا تھا
اور میں نے مدد کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو 500 کا نوٹ نکلا ، اس لڑکی کا
نام عاصمہ تھا جس نے مجھ سے مدد مانگی تھی کہ اس کی امی ہسپتال میں ہیں اور
اسے 500 روپے کا ایزی لوڈ چاہیئے اور میں نے 500 روپے کا لوڈ ثواب سمجھ کر
کروا دیا لیکن جب میری ایک دوست نے بتایا کہ یہ ایک نقلی ایس ایم ایس ہے
لوگوں کو الو بنانے کیلئے کوئی کرتا ہے تو میری دل کی دھڑکن ہی رک سی گئی
500 روپے کا لوڈ میں نے ایک لڑکی کو کردیا وہ بھی نقلی نکلی وہ دن اور آج
کا دن میں نے بغیر تحقیق نیکی کرنا چھوڑ دی ہے اب میں لڑکیوں سے پہلے بات
کرتا ہوں دوستی ہونے کے بعد لوڈ کروا کر دیتا ہوں لیکن 20 روپے سے زیادہ
نہیں۔۔۔
پرنس کی کتاب" ایزی لوڈ گرلز " سے اقتباس
پرنس کی کتاب" ایزی لوڈ گرلز " سے اقتباس
اور تم اپنے رب کو کتنا ناراض کرو گے
اللہ اللہ اللہ یہ الفاظ جتنی بار بھی بولے جائیں دل کو بہت سکون ملتا ہے ،
میرے پروردگار نے کائنات میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں بنائی، جراثیم سے
لے کر بنی نو انسان سب کے سب ایک مقصد ، ایک
حکمت کے تحت وجود میں آئے ہیں اور بے شک وہ ہی سب کچھ جاننے والا ہے ، جس
مالک نے اس قدر حسین پرندے بنائے، اس قدر حسین وادیاں بنائیں جو 70 ماوں
سے بھی زیادہ اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہے اس نے امت مسلمہ کیلئے سب سے حسین
پیغمبرؐ کو بھیجا، پیارے نبیؐ پر اللہ نے اس قدر بہترین کتاب قرآن پاک
نازل کی اور یہ بھی فرمادیا کہ " آپؐ کہہ دیجیئے کہ تم میں سے کوئی اس
وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جو اپنی جان، مال، اور اولاد سے زیادہ اپنے نبیؐ
کی اطاعت نہ کرتا ہو" وہ پیغمبرؐ جو ساری ساری رات اپنی امت کی بخشش کیلئے
دعائیں کرتے رہے ، جو پردہ فرمانے سے پہلے بھی اپنی امت کا سوچتے رہے اور
افسوس صد افسوس جب آج ایک مسلمان داڑھی رکھتا ہے اپنے نبیؐ کے حکم مانتا
ہے تو اس کا تمسخر اڑایا جاتا ہے ، مسلمان بھائی اگر کسی کو اپنے نبیؐ کی
سنت پر عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے تو دوسرا مسلمان بھائی کتنی آسانی سے
کہہ دیتا ہے کہ "سنت ہے کون سا فرض ہے" آج مسلمان سر عام اللہ کے باغی بنے
ہیں ، نبیؐ کے احکامات نہیں مانتے ، سنت پر عمل کو باعث شرم سمجھتے ہیں
لیکن اس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کے ساتھ
دوستی کرتے ہیں، اس مرز احمق قادیانی کے ماننے والوں کی کمپنیوں کی بنی
چیزیں استعمال کرتے ہیں جس نے نبیؐ کی شان میں بہت ہی زیادہ گستاخیاں کیں،
کیا ہم مسلمان اتنے مجبور ہیں کہ قادیانیوں کی بنی چیزیں استعمال کریں ،
پھر یہ کہا جاتا ہے کہ عیسائیوں ، یہودیوں ، ہندووں کی چیزیں بھی تو
استعمال کرتے ہیں لیکن ایسی باتیں کرنے والوں میں اتنی عقل نہیں کہ عیسائی
خود کو عیسائی کہتے ہیں ، یہودی خود کو یہودی کہتے ہیں ، ہندو خود کو ہندو
کہتے ہیں لیکن بدبخت قادیانی خود کو قادیانی نہیں احمدی مسلمان کہتے ہیں جو
لوگ مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر اپنے جعلی اخلاق سے اپنی بہترین پراڈکٹس سے
پیارے نبیؐ کے ماننے والوں کا ایمان خرید رہے ہیں، کیا ان سے دوستی کرنا
جائز ہے کیا اس بے غیرت مرزا احمق قادیانی کے ماننے والوں کے ساتھ اٹھنا
بیٹھنا جائز ہے جس ملعون نے معاذاللہ یہ کہا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کی شبیہہ ہے ، جو لوگ شیزان اور دیگر کمپنیوں کی پراڈکٹ استعمال کرتے ہیں
اور یہ سوچتے ہیں کہ ان کی دکانوں پر تو کلمہ لکھا ہوا ہے ، ان کی دکانوں
پر تو داڑھی والا شخص بیٹھا ہے تو وہ یاد رکھے کہ اس طرح کے عمل کرنے سے
کمپنی حلال نہیں ہو جاتی، قیامت والے دن وہ نبیؐ کی شفاعت سے محروم رہیں گے
کیوں کہ اللہ کو ایسے مسلمان کی کوئی ضرورت نہیں جو نبوت کا دعویٰ کرنے
والے شخص کو ماننے والوں سے دوستی کرتا ہے اور ان کی کمپنیوں کی مزے لے لے
کر چیزیں کھاتا ہے جو زہر بن کر اس کے ایمان کو خراب کرتی ہیں ۔
پرنس کی کتاب"مرزا احمق احمق احمق احمق قادیانی" سے اقتباس
پرنس کی کتاب"مرزا احمق احمق احمق احمق قادیانی" سے اقتباس
اف خدایا یہ کیا ماجرا ہوگیا
اسلم ایس ایم ایس کرتا ہوا جا رہا تھا کہ اچانک ایک شخص اس سے ٹکرایا اور
گر پڑا ، وہ اسے اٹھانے کیلئے جھکا تو دیکھا کہ اس کی حالت کافی خراب تھی ،
اس شخص نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جیسے اسے بہت درد ہو رہی ہو، اسلم
موبائل سے ریسکیو کا نمبر ملانے لگا تو اس شخص نے ہاتھ بڑھا کر روک دیا
اور کہنے لگا کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے اور اب ریسکیو کا
نمبر ملانے کا کوئی فائدہ نہیں ، اسلم کی آنکھیں اس کی حالت دیکھ کر نم
ہو رہی تھیں وہ شخص کہنے لگا کہ اللہ نے اسے بہت دولت دی بہت شہرت دی لیکن
اس کی بے وقوفی کی وجہ سے آج ایسی حالت ہو گئی ہے کہ سڑک پر آخری سانسیں
لے رہا ہوں ، اسلم اس کی یہ بات سن کر خود بھی آبدیدہ ہوگیاا اور اس سے
پوچھا کہ ایسا کیا ہوا جو یہ دن دیکھنا پڑا، وہ شخص اپنے سانسیں سنبھالتے
ہوئے بولا کہ جب سے موبائل آیا ہے اس کی توجہ اپنے کام سے اور گھر والوں
سے بالکل ہٹ گئی تھی ، پہلے بیوی ، بچوں ، ماں باپ کے پاس بیٹھتا تھا ، ان
کے دکھ درد سنتا تھا اپنے سناتا تھا ، خوشیوں میں شریک ہوتا تھا لیکن
موبائل نے ایسا مصروف کردیا کہ پھر آہستہ آہستہ سب ہی دور ہوتے چلے گئے،
صبح اٹھ کر کلمہ پڑھنے سے پہلے فیس بک کا پیج کھول کر سب کو Good morning
کا پیغام دینا فرض سممجھتا تھا ، اسلم دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ وہ بھی
ایسا ہی کرتا ہے لیکن وہ تو ایک مڈل کلاس نوجوان ہے اور یہ شخص اتنا امیر
ہوکر بھی تنہا ہے ، اس شخص نے کہا کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر پیسے خرچ کرتا تھا
لیکن موبائل پر لڑکیوں سے باتیں کرتے کرتے ان کو ایزی لوڈ کروانے لگ گیا
اور آج مجھ سے ایسی غلطی ہوگئی کہ میں خود کو معاف نہ کرسکا اور مجھے ہارٹ
اٹیک ہو گیا ، اسلم نے اس سے پوچھا کہ ایسا کیا ہوا تو وہ بولا کہ اسے ایک
لڑکی کا میسج آیا کہ اسے رقم کی ضرورت تھی اور وہ ایزی پیسہ کے زریعے رقم
مانگ رہی تھی ، میں نے اسے رقم نہیں دی اور کچھ گھنٹوں بعد میسج آیا کہ
تمھاری وجہ سے میری ماں ہسپتال میں مر گئی اب میں بھی خودکشی کرنے جارہی
ہوں ، تمھاری عاصمہ. ............. یہ کہہ کر اس شخص نے ہچکی لی اور دم
توڑ دیا ، اسلم اس کے سینے سے لگ کر دھاڑیں مار مار کر روتا رہا کہ عاصمہ
نے تو اس کو بھی ایس ایم ایس کیا تھا لیکن اس نے بھی کوئی مدد نہیں کی اور
اچانک ہی لائٹ چلی گئی میرا ٹی وی بند ہوگیا ، میری آنکھوں سے بھی آنسو
جاری تھے کیوں کہ میرے موبائل میں بھی مرحومہ عاصمہ کا میسج تھا جس میں اس
نے مجھ سے مدد مانگی تھی۔۔۔۔
پرنس کی کتاب"ایزی لوڈ گرلز" سے اقتباس
پرنس کی کتاب"ایزی لوڈ گرلز" سے اقتباس
Sunday, May 25, 2014
کبھی کبھی ایسا خیال آتا ہے کہ شرم آجاتی ہے
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے لیکن میں بتا نہیں سکتا کیوں کہ وہ خیال ہے کسی اور کا، اسے سوچتا کوئی اور ہے یہ بھی سچ ہے کہ سوچنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن سیانے کہتے ہیں" سوچی پیا تے بندہ گیا" مگر انسان جتنا مرضی طاقتور ہو جائے وہ " اچھے" خیال اور سوچ کو نہیں روک سکتا اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو سائنسدان کہتے ہیں انسان کی حالت اس شخص جیسی ہوسکتی ہے جس کو شدید حاجت ہو لیکن باتھ روم میں کوئی اور گھس جائے پھر باہر نکلنے سے انکار کردے ، اس لئے اپنے خیالات اور سوچ کے آگے پل نہیں باندھنے چاہیئں بلکہ ان کو کھلا چھوڑ دینا چاہئیے لیکن شرط یہ ہے کہ " اچھے" خیالات ہی ہوں، آج کل کی نوجوان نسل تو خیالوں میں ہی ڈوبی نظر آتی ہے کسی کو کیترینہ کیف کے صاف شفاف خیال آتے ہیں تو کوئی اپنی ہمسائی کی مسکراہٹ کو خیالوں میں ریوائنڈ کرکے مسکراتا رہتا ہے ، پیارے پیارے خیالات کی وجہ سے ان کی شکلیں پھیکے خربوزے جیسی ہو جاتی ہیں ، قائداعظم کے فرمان کے بالکل الٹ آج کا نوجوان خیال ، خیال اور صرف خیال پر ہی اپنا تن ، من اور دھنا دھن قربان کر رہا ہے جبکہ لڑکیاں مردوں کی جگہ لڑکیوں کے ہی شانہ بشانہ کام میں مصروف نظر آتی ہیں ، سائنسدان کہتے ہیں کہ لڑکیاں جب کچھ بن جاتی ہیں تو ان کے خیالات مینار پاکستان سے بھی اونچے ہو جاتے ہیں اور پھر وہ برے خیالات والے لڑکے کو بالکل ہی لفٹ نہیں کراتیں ، توازن بگڑنے کی وجہ سے لڑکے برے خیالات میں ہی کھوئے کھوئے اپنی زندگی خراب کر بیٹھتے ہیں اور لڑکیاں اچھے خیالات سوچ سوچ کر اپنے بال سفید کرلیتی ہیں اور جب اچھے خیال آنا بند ہو جاتے ہیں تو اس وقت انہیں برے خیالات والا جیون ساتھی بھی میسر نہیں ہوتا ، اس لئے میری آج کی نئی نسل سے گزارش ہے کہ وہ جیسا مرضی خیال سوچیں جیسے ہی دماغ خراب ہونے لگے تو فوراً سر پر پانی ڈال دیں اور اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو والدہ سے کہیں صبح ، دوپہر، شام دو جوتے سر پر ماریں اس طرح اچھے خیالات اور اچھی سوچ تو آئے گی لیکن آپ کو اپنی منزل سے بھٹکنے نہیں دے گی۔۔
پرنس کی کتاب"کوئی سوچے نہ سوچے، سانوں کی" سے اقتباس
Subscribe to:
Posts (Atom)