کچھ دن پہلے میری ملاقات ایک بنت نازک سے ہوئی ، آنکھوں میں لگا کاجل آنسو میں بہہ کر گلابی گالوں کو کالا کر رہا تھا ، دل میں اک ہوک سی اٹھی اور پاس جا کر بولے کہ اے پری زاد کیا بات ہے کیوں آنسو بہا کر پانی ضائع کر رہی ہو ، نشیلی آنکھین کیوں خراب کررہی ہو تو اس نے ایک ہچکی لی، ہم ایک دم ڈر گئے کہ کہیں یہ آخری ہچکی تو نہیں ، پھر جان میں جان آئی جب اس نے پیاری سی دلفریب آواز میں کہا کہ مجھے آپ سے پیار ہوگیا ہے لیکن آپ مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں کراتے نہ ہی مجھے وقت دیتے ہیں بس اپنے کام میں لگے رہتے ہیں ، کچھ دیر اس کا حسین چہرہ تکتے رہنے کہ بعد میں بولا کہ ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے مل جائے گا کوئی اور جو تمھاری قدر کرے گا اور تمھارے آگے پیچھے پھرے گا جس کو تم اپنی انگلیوں پر نچا بھی سکو گی، اس نے آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی آپ میری دل جوئی کر رہے ہیں یا میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ، سر کھجاتے ہوئے میں بولا کہ یہ عشق یہ پیار بہت بری بلا ہے ایک بار چمڑ گئی تو جان نہیں چھوڑتی میری مانو تو اس سے دور رہو اور جہاں امی ابو کہیں وہاں ہی شادی کرلینا ، آج کل کے لڑکے ریل کے انجن کی طرح ہوتے ہیں چلتے چلتے کسی بھی وقت خراب ہوسکتے ہیں ، لڑکوں کا حال چائنہ کے موبائل جیسا ہے دیکھتے ہی پیار آتا ہے لیکن کچھ دن بعد دل کرتا ہے دیوار سے مار کر توڑ دو ، وہ ایک دم ہنس پڑی کہنے لگی آپ کو بھی کبھی عشق ہوا ، ہم مسکرائے اور بولے کوئی ایک ہو تو بتاؤں ، ابھی تو تم پر پیار آریا ہے وہ ایک دم زور سے ہنسی اور بولی آپ تو میری جان ہیں اور یہ کہہ کر میں نے اپنی 7 سالہ کزن کا ہاتھ پکڑا اور اسے چاکلیٹ دلانے بازار کی طرف روانہ ہوگیا اور یہ سوچ رہا تھا کہ ٹی وی نے آج کل کے بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کردیا ہے اب ایک چھوٹی بچی بھی اسی طرح شرماتی ہے جیسے 18 سال کی لڑکی ہو، دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے بچوں کا بچپنا بھی تیزی سے ختم ہورہا ہے ۔
پرنس کی کتاب"بچے اب نہین ہیں کچے" سے اقتباس
پرنس کی کتاب"بچے اب نہین ہیں کچے" سے اقتباس
No comments:
Post a Comment