Tuesday, September 2, 2014

ارے لعنت بھیجو یار اپنا کام کرو ..................... زریاب شیخ

پاکستانیوں کی اکثریت میں ایک بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے کہ جب بھی غصے ہوتے ہیں تو لعنت بھیجنا شروع کر دیتے ہیں، لعنت کا لفظ اب روز مرہ کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے،میرے فضول خیال میں اگر آج نیوٹن پاکستان میں پیدا ہوتا اور اس کے سر پر سیب گرتا تو وہ یقیناً یہ ہی کہتا کہ اف لعنت ہے اسے میرے سر پر ہی گرنا تھا اور آرام سے کھا کر چلتا بنتا ، افریقہ کے لعنتی سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق جو شخص بہت زیادہ لعنت بھیجتا ہے تو اصل میں یہ لفظ اس کے گھر میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اسے سن سن کر وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے ، جیسے اگر گھر میں رات کو اچانک گھر کی بیل بجے تو ایک دم کمرے سے آواز آئے گی ، لعنت ہے اس ٹائم کون آگیا، اگر بار بار گھنٹی بجے تو کہا جاتا ہے، ارے کوئی لعنتی دروازہ کھولے، کہاں مرے ہوئے ہیں سب ، اگر کسی لڑکے کا لڑکی پر دل آگیا ہے اور وہ کسی اور کے ساتھ سیٹ ہے تو نوجوان کہتے ہیں لعنت ہے یار ، ہماری تو قسمت میں ہی کنوارہ رہنا لکھا ہے ، اگر کوئی لڑکا بار بار کسی لڑکی کو دیکھے گا تو وہ اپنی سہیلی سے کہتی ہے بڑا ہی لعنتی لڑکا ہے میرے پیچھے ہی پڑگیا ہے ، بیٹا امتحان میں فیل ہوگیا اور باپ نے ایک دم سے کہہ دہا کہ لعنت ہے اس دن پر جب تم پیدا ہوئے ، بیٹی نے اپنی مرضی کا لڑکا پسند کرلیا تو ماں بولتی ہے لعنت ہے تجھ پر ہم سب کا منہ کالا کروائے گی ، گویا ہمارے ملک میں ایس ایم ایس بھیجنے کے بعد دوسرا بڑا کام لعنت بھینجنا رہ گیا ہے ، حتیٰ کہ اب تو سیاستدان بھی یہ لفظ خوشی سے استعمال کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ لعنت بھیجنے سے ایک تو بات میں وزن آتا ہے اور دوسرا لوگ ان کی طرف کچھ زیادہ ہی دل سے متوجہ ہوتے ہیں، اس کی خستہ اور تازہ تازہ مثال طاہر القادری صاحب ہیں جو عوام میں جوش انقلاب لانے کیلئے حکومت اور جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں ان کے ایک چاہنے والے نے نام نہ ظاہر کرنے پر ہمیں بتایا کہ طاہر القادری انقلاب کرتے وقت بہت زور لگا کر لعنت بھیجتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ جلد ہی یہ انقلاب رنگ لائے گا ۔
پرنس کی کتاب" لعنت بھیجو " سے اقتباس

No comments:

Post a Comment