Wednesday, September 24, 2014

میں تیرے پیار میں پاگل ................ زریاب شیخ

کسی اندھے نے کہا تھا کہ محبت اندھی ہوتی ہے لیکن آفرین ہے، ہمارے نوجوان اندھی محبت کیلئے بھی آنکھوں کا استعمال کرتے ہیں ، جہاں کہیں کوئی خوبصورت لڑکی نظر آ جائے اپنی آنکھوں کا اندھا دھند فائدہ اٹھاتے ہیں، کچھ لوگ تو محبت میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ کھانا پینا بھول جاتے ہیں اور اگر غلطی سے محبوبہ سے ہی شادی ہو جائے تو ماں باپ تک کو بھول جاتے ہیں، یہ محبت کیا ہے آج تک کسی کو نہیں پتہ چلا ، جس کو ملتی ہے وہ  خوشی سے پاگل ہو جاتا ہے اور جس کو نہین ملتی وہ غم میں پاگل ہو جاتا ہے یعنی ہر دو صورتوں میں عاشق کو پاگل ہی ہونا پڑتا ہے،حیران کن بات یہ ہے کہ آج کے دور میں اچھے بھلے انسان  تیزی سے محبت میں مبتلا ہورہے ہیں پہلے وقتوں میں صرف ان لوگوں کو ہی محبت ہوتی تھی جن کو کوئی کام نہیں ہوتا تھا لیکن اب محبت نوجوانوں کی زندگی کا سب سے بڑا کام بن گیا ہے ، ایک دور تھا لڑکیوں کو اتنی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی تھی کیوں کہ لڑکا جب محبت میں اندھا ہوتا تھا تو تھوڑی بہت کمائی بھی کرتا تھا لیکن آج کے اس مہنگائی کے دور میں لڑکا صرف ایس ایم ایس کرنے اور فون پر جانو جانو کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتا اور بے چاری لڑکی کو شادی کے بعد خود کو اور محبت میں اندھے محبوب کوبھی پالنا پڑتا ہے،پہلے ایک دور تھا اندھا عاشق اپنی محبوبہ کو ہاتھ لگانا معیوب سجھتا تھا لیکن اب ہاتھ نہ لگانا برا سمجھتا ہے اسی وجہ سے آج کل کی لڑکیوں سے ہاتھ ہو جاتا ہے۔

پرنس کی کتاب"میرا نام محبت" سے اقتباس

Monday, September 22, 2014

ایسا بھی ہوتا ہے ایسے کاموں میں

اوئے زاہد چیک کر ، اف استاد جی کمال کردیا آپ نے ، یہ تو وہ ہی لڑکی ہے نہ جس سے فیس بک پر کچھ مہینے پہلے آپ کی دوستی ہوئی، ابے ہاں نا بس تیرے بھائی کی میٹھی باتوں نے اس کا پتھر دل نرم کردیا، ارے استاد جی آپ کی قسمت بڑی اچھی ہے ہر مہینے کوئی نئی لڑکی آپ کی باتوں میں آجاتی ہے ، ابے زبان کا کمال ہے بس اور کچھ نہیں ، تو بھی کچھ سیکھ لے مجھ سے، ورنہ بڈھا ہو جائے گا، کیا بتاؤں استاد جی ایک لڑکی سے آج کل بات چیت ہو رہی بس دعا کرو کہ سیٹ ہوجائے، واہ واہ تو تو چھپا رستم نکلا ، اچھا دکھا تو سہی وہ نازک کلی کون ہے ، ارے استاد جی بس کوئی خاص نہیں، یہ لو دیکھ لو، بے غیرت ، بے شرم ٹھر جا تجھے چھوڑوں گا نہیں ، ارے ارے استاد کیا ہوگیا ایک دم سے ۔ اف کیوں مار رہے ہو مجھے ، گھٹیا انسان تو میری ہی بہن پر نظریں لگا رہا ہے ، دفعہ ہوجا یہاں سے ، استاد تو کون سا نیک ہے جن لڑکیوں کے دل سے تو کھیلتا ہے وہ بھی تو کسی کی بہن ہی ہوتی ہیں ، جا رہا ہوں میں ، آئندہ تو میرا استاد نہیں ، چل چل نکل یہاں سے ، شکل نہیں دکھا اب مجھے....... ارے نادیہ کیوں مسکرا رہی ہو ،،،، بس نہ پوچھ ،، ایک الو کو پھنسایا ہے میں نے ، کل بلایا ہے ایک سنسان جگہ ملنے ،، وہاں پر اس کا بھی وہ ہی حشر ہوگا جو پہلے والوں کا کیا تھا ،،،، ہا ہا ہا ہا ہا

Saturday, September 20, 2014

شادی کرلو اس سے پہلے کہ ماموں بن جاؤ..... زریاب شیخ

اللہ نے آنکھیں دیکھنے کیلئے دی ہیں اور پاکستانی نوجوان اس نعمت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ،آنکھیں نہ ہوں تو انسان کسی قابل نہیں رہتا اور آنکھیں ہو کر بھی بعض انسان  کسی کےقابل نہیں رہتے،آنکھوں میں کمال یہ ہے کہ بند کرتے ہی انسان خوابوں کی دنیا میں چلا جاتا ہے ،جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی ،  امی ابو کا ڈر بھی نہیں ہوتا ، مشاہدے میں آیا ہے کہ دنیا میں جو لوگ صنف نازک کو دیکھ کر نظریں جھکا لیتے ہیں ، آنکھ بند کرتے ہی بہت خوش نظر آتے ہیں ، کیونکہ جب کوئی نازک کلی ان کے خوابوں کی دنیا میں آجاتی ہے تو نظریں جھکانا ہی بھول جاتے ہیں،سائنس کہتی ہے کہ اچھے لوگوں کو اچھے خواب آتے ہیں اور جو میرے جیسے ہوتے ہیں وہ اپنے خواب کسی کو بتا بھی نہیں پاتے، ایک تحقیق کے مطابق عاشق اگرچہ دنیا میں محبوبہ کے بچوں کا ماموں بن جاتا ہے خوابوں کی دنیا میں وہ اپنی محبوبہ کا عاشق ہی رہتا ہے اور اس کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ دیکھ کر روتا رہتا ہے، پاکستان میں نوجوان سے عاشق بننے اور پھر ماموں بننے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا ، بعض اوقات تو لڑکی ہی لڑکے کو ماموں بنا دیتی ہے اور کسی دوسرے عاشق کے ساتھ سیٹنگ کر لیتی ہے اور بعض اوقات لڑکا اپنا مستقبل بنانے کی کوشش میں دلہا کی بجائے ماموں بن جاتا ہے ، اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ٹیکنالوجی آنے کے بعد عشق کا وائرس اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ایک وقت آئے گا ہر گلی ، ہر محلے میں عاشق کم اور ماموں زیادہ ملیں گے، نئی تحقیق کے مطابق لڑکوں کا جلدی ماموں بن جانے کی ایک وجہ لڑکی کی تیزی سے  ڈھلتی عمر بھی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ جس عمر میں لڑکا اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا ہے ، لڑکی تین بچوں کی ماں بن چکی ہوتی ہے

دنیا میں آئے ہو تو کچھ ایسا کر جاؤ اے قدر دان
ہر گلی سے بچہ بولے، ماموں جان ، ماموں جان

پاکستان میں اکثر شیطان، لگتے ہیں نیک انےواہ
ملاوٹ کرتے ہیں خوب،بولتے ہیں جھوٹ انے واہ

لڑکا ہو یا لڑکی ہو، کرتے ہیں محبت انے واہ
رات ہو یا دن ہو، کر رہے ہیں میسج  انے واہ

باپ کماتا ہے محنت کرکے، اولاد اڑاتی ہے انے واہ
بیٹی ہو جاتی ہے بوڑھی،جہیز مانگتے ہیں انے واہ

کام والی جو بھی ملی ، کالی ہوتی ہے انے واہ
گھر نظر آتی ہے کم،چھٹیاں کرتی ہے انے واہ

بس جلدی  آرہا ہے انقلاب، شور مچا ہے انے واہ
عمران خان کو دیکھ کر ،ناچتے ہیں سب انے واہ

لوگ بن چکے ہیں مفتی یہاں تو سب ہی انے واہ
تو بھی کافر میں بھی کافر سب ہی کافر انے واہ

ملک بنا تھا دین کے نام پر، چل رہا ہے انے واہ
شعیہ ہو یا سنی ہو ، کوئی مار رہا ہے انے واہ

رونا دھونا چھوڑ زریاب، ہنستا رہ بس انے واہ
نفرتوں سے کچھ نہیں ملتا، کر محبت انےواہ

Wednesday, September 17, 2014

ہنستے ہنستے یوں ہی کوئی پھنس گیا تھا۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

ہنسی دو طرح کی ہوتی ہے ایک وہ جسے دیکھ کر سب کہتے ہیں بڑی ہنسی آرہی ہے خیر ہے نا کہیں محبت تو نہیں ہو گئی اور دوسری ہنسی وہ ہوتی ہے جس کو دیکھ کر لوگ کہتے ہیں پاگل ہے بیچارہ اور سائیڈ پر ہوجاتے ہیں، ہنسی موقع محل دیکھ کر اور حکمت کے تحت آئے تو بہت اچھا ہوتا ہے ، اگر کوئی پیارا سا بچہ کسی پیاری سی لڑکی کو دیکھ کر مسکرائے تو وہ نہ ٖصرف اس پر مسکرائے گی بلکہ اس کے گال بھی انگوٹھے سے دبائے گی ، بچہ چونکہ بچہ ہوتا ہے اس لئے اس پر کوئی ہیجانی کیفیت طاری نہیں ہوتی لیکن اگر بچے کا باپ بھی اسی طرح لڑکی کو دیکھ کر مسکرائے تو یا تو لڑکی منہ بنا لے گی یا دو سنا دے گی ، باپ بے چارے پر جو کیفیت لڑکی کو دیکھ کر طاری ہوئی تھی وہ فوراً رفع ہو جائے گی، پاکستان میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر لڑکی آپ کو دیکھ کر ہنس رہی ہو تو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ واقعی آپ کو جاذب نظر سمجھ  رہی  ہے، سب سے پہلے بندہ اپنی شکل دیکھتا ہے کہ اس کا منہ تو منہ لگانے ک قابل ہی نہیں تو پھر یہ لڑکی کیوں اس کو ایسے  دیکھ رہی ہے اور اگر دل خوشی سے پھول جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لڑکی کی شکل ہی ایسی ہے کہ سب ہی اس کی مسکراہٹ پر دھوکہ کھا جاتے ہیں، ہنسنا اچھی بات ہے لیکن بلاوجہ ہنسی آئے تو فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں ، آج کل پریشانی اور ڈپریشن کا دور ہے ، لوگ بلاوجہ ہنسنے لگتے ہیں اور ساتھ والا بندہ پریشان ہوجاتا ہے کہ یہ ہنس کیوں رہا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے  کہ انسان ہنستے ہنستے اوپر چلا جاتا ہے ، میت بھی مسکرا رہی ہوتی ہے ، سب یہ ہی کہہ رہے ہوتے ہیں کہ بندہ تو اتنا نیک نہیں تھا لیکن بس اللہ کو جو منظور ، ہنستے ہنستے اوپر چلا گیا ، سب ہی موت پر رشک کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ ان کی موت بھی ہنستے ہنستے آ جائے۔ بعض لوگوں بائی ڈیفالٹ ہی مسکراتے رہتے ہیں ، پیدا ہوتے ہی چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے ، ان بے چاروں کو اپنی مسکراہٹ کی وجہ سے بہت باتیں سننی پڑتی ہیں لیکن ایسے لوگوں کی شادی والے دن مسکراہٹ دیکھنے والی ہوتی ہے، ان کی بیویاں ان کو جتنا بھی برا بھلا کہیں ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ہونے کے باوجود مسکراہٹ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ان کے بچے ماں سے مار کھا کر آتے ہیں اور باپ کو دیکھ کر ہنسنا شروع ہو جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے بچے اپنے ابا جان سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔ ( جاری ہے)

پرنس کی کتاب"ہنسی تو پھنسی" سے اقتباس

Saturday, September 13, 2014

فنگر چپس سے پکوڑے تک کی زندگی ...............زریاب شیخ

اگر انسان کو ایک بار پیار ہو تو اسے بھولا پن کہتے ہیں اگر دوسری بار ہو تو اسے شرمیلا پن کہتے ہیں اور اگر بار بار ہو تو اس کو باہر کی دنیا میں فن اور پاکستان میں کمینہ پن کہتے ہیں ، ایک تحقیق کے مطابق پیار ایک بار ہی ہوتا ہے بعد میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اس کے سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں، شوہر کو شادی کے وقت بیوی بالکل  فنگر چپس کی طرح سمارٹ اور خوبصورت لگتی ہے ، بچے ہونے کے بعد اسے پکوڑے جیسی لگنے لگتی ہے اور شوہر کو چونکہ  فنگر چپس سے محبت ہے تو  پکوڑے کو دیکھ دیکھ کر اس کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے اور وہ گھر کے پکوڑے چھوڑ کر باہر کی فنگر چپس پر للچائی نظروں سے دیکھتا ہے ، بیوی کی نظر میں شوہر کیچ اپ کی طرح ہوتا ہے جو اس کی زندگی میں زائقہ لاتا ہے ، جیسے جیسے زائقہ کم ہوتا جاتا ہے  تو بیوی  رفتہ رفتہ فنگر چپس سے پکوڑے جیسی ہوتی چلی جاتی ہے لیکن اس سارے عمل میں شوہر خود کو بری الذمہ کرکے بیوی پر اپنا خیال نہ رکھنے کا الزام لگا دیتا ہے، جس طرح کھانے بناتے وقت نمک مرچ ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے اسی طرح شادی کے بعد شوہر کو یہ بھی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو نہ صرف پیار بھری نظروں سے دیکھے بلکہ پیار سے بات بھی کرے اور پیارے لفظوں میں تعریف بھی کرے ، عورت کیلئے فنگر چپس سے پکوڑا بننا اور پکوڑے سے فنگر چپس بننا بہت آسان ہے وہ سب کچھ برادشت کر سکتی ہے لیکن اپنے شوہر کی محبت میں کمی اس سے برداشت نہیں ہوتی ، خوشگوار ازدواجی زندگی کا مزہ اس کھانے کی طرح ہے جو ہلکی آنچ میں پکا ہوا ہو جس میں بہت ذائقہ ہوتا ہے ، اسی طرح ہلکی پھلکی تعریف، پلکی پہلکی میٹھی میٹھی باتیں زندگی میں شرینی بھر دیتی ہیں ، یہ تو سائنس بھی مانتی ہے کہ گھر کے فنگر چپس باہر کے فنگر چپس سے بہترین ہوتے ہیں  اور صحت کیلئے بہت ہی اچھے ہوتے ہیں ۔۔

پرنس کی کتاب" I Love Pakora" سے اقتباس

Thursday, September 11, 2014

عورت بھی کبھی عورت ہوا کرتی تھی.................. زریاب شیخ


عورت بلاشبہ اللہ کی ایک بہترین تخلیق ہے لیکن ازل سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ یا ظلم کا شکار ہی ہوتی چلی آئی ہے ، وجود میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہی جنت سے نکلوانے کا الزام لگ گیا، جس نے بہکایا اس کی طرف کسی نے دیکھا بھی نہیں لیکن جو بہکاوے میں آگئی اسے صفائی کا موقع آج تک نہیں ملا، عورت کو زحمت سمجھا گیا ، بےوقوف کہا گیا ، گھر میں بوجھ قرار دیا گیا، معاشرے کے منفی رویے نے اس میں تبدیلیاں پیدا کرنا شروع کردیں اور اس میں  مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کا جنون بڑھتا چلا گیا ، اس نے خود کو عورت سمجھنا ہی چھوڑ دیا بلکہ وہ خود کو مرد ہی سمجھنے لگی، اللہ نے جس کو پھول کی طرح نازک بنایا جس کی آواز میں جادو بھرا ، اس کا لہجہ مردوں کی طرح سخت ہوگیا ، سوچ بھی بدل گئی اور وہ گھر سے نکل کر مرد کے مقابلے میں میدان میں آگئی اور ہر وہ کام کرنے لگی جس میں مردوں کی اجارہ داری تھی وہ یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت بہت کچھ کر سکتی ہے لیکن اس کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہوا کہ وہ اپنا آپ کہیں کھو بیٹھی ، عورت کو جب یہ کہا جاتا ہے کہ تم تو ایک عورت ہو تو اس پر شدید نفرت کا اظہار کرتی ہے ، آج ایک عورت کو یہ سن کر اچھا لگتا ہے کہ تم تو بالکل مرد بن گئی ہو اس کیلئے یہ فخر کی بات ہے لیکن اس کے برعکس کسی مرد کو یہ کہا جائے کہ تم تو عورت بن گئے ہے تو وہ بہت ناگواری کا اظہار کرتا ہے ، عورت معاشرے کے منفی رویے کی وجہ سے اپنا اصل کھوتی جارہی ہے ، عورت ایک گھر کو بہترین انداز میں چلا سکتی ہے اسے اللہ نے گھر سنبھالنے کا ہنر دیا ہے اور کوئی مرد عورت کی طرح گھر نہیں سنبھال سکتا، لیکن خود کو مرد کے مقابلے میں کھڑا کرکے اس نے گھر کا نظام ہی تہس نہس کردیا ہے  آج کی عورت خود کو مرد سمجھنے کی بجائے عورت ہی سمجھے اور خود کو صرف عورت ہی ثابت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی پھول جیسی شخصیت برقرار رہ سکتی ہے اگر آج عورت نے خود کو نہ سنبھالا تو وہ وقت دور نہیں جب مردوں کی مردوں کی جائے عورتوں سے جنگیں ہوا کریں گی جہاں نظام میں توازن خراب ہوجائے وہاں تباہی آتی ہے اور پاکستان بھی تباہی کی طرف جا رہا ہے ۔

پرنس کی کتاب'عورت بامقابلہ مرد" سے اقتباس

مرد تو مرد ہوتا ہے کیونکہ وہ مرد ہوتا ہے.......... زریاب شیخ


دنیا کا سب سے کمزور لڑکا وہ ہوتا ہے جو لڑکیوں کو ایزی لوڈ کروا کر دیتا ہے اور دنیا کی سب سے طاقتور لڑکی وہ ہوتی ہے جو کسی بھی مرد کو ایزی لوڈ کروانے پر آمادہ کرلیتی ہے، حالیہ ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے 90 فیصد مرد شادی سے پہلے غیر عورتوں سے میٹھی زبان میں بات کرتے ہیں اور شادی کے بعد بھی غیر عورتوں سے ہی میٹھی زبان میں بات کرتے ہیں باقی 10 فیصد مرد نہ گھر میں منہ کھولتے ہیں نہ گھر سے باہر ان کی زبان چلتی ہے، منہ بند رکھنے والے افراد کی زندگی بہت کامیاب گزرتی ہے کیوں کہ ان کی بیگمات کی زبان کینچی کی طرح چلتی ہے اور یہ صرف سر ہلاتے رہتے  ہیں، باقی 90 فیصد مردوں میں سے 40 فیصد اپنی زبان کی وجہ سے نہ صرف اپنی بیوی کو خوش رکھتے ہیں بلکہ باہر والی کو بھی چاند پر پہنچا دیتے ہیں ، ان کی مکھن سے بھری چکنی چپڑی باتیں سن کر بیوی بھی ان کے آگے پیچھے پھرتی ہے اور باہر والی پیچھے پیچھے پھرتی ہے لیکن ایسے لوگوں کی اکثریت نہ گھر کے رہتی ہے  نہ گھاٹ کے رہتی ہے ، باقی 50 فیصد مرد شادی کے بعد کچھ عرصہ تو بہت اچھے رہتے ہیں لیکن پھر ان کو اپنی بیوی میں دلچسپی کم ہو جاتی ہے ، صبح سے لے کر شام تک ان کی بیویاں پیار کے دو بول کیلئے ترس جاتی ہیں، ایسے لوگ باہر والیوں کے سامنے ایسے بنتے ہیں جیسے ان کی بیویاں بہت ہی ظالم ہوتی ہیں اور گھر میں اس طرح کا رویہ اپناتے ہیں کہ جیسے بالکل ہی بے حس ہیں، ان مردوں کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ بیوی بھی انسان ہے اس کا بھی دل ہے اسے بھی میٹھے میٹھے الفاظ کی ضرورت ہے اسے بھی توجہ کی ضرورت ہے اور سونے پر سہاگہ یہ ہوتا ہے کہ جب  مرد کے رویہ سے تنگ آکر یہ اپنا خیال کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو الٹا مرد یہ کہتے ہیں کہ تم تو اپنا خیال ہی نہیں رکھتی، خود پر توجہ ہی نہیں دیتی جو میں تمھاری طرف پیار سے دیکھوں ، ایسے مردون کی بیویاں جوانی میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔

پرنس کی کتاب"جوانی کا بڑھاپا" سے اقتباس

مرد تو معصوم ہوتا ہے چاہے شریف ہو یا بدمعاش.... زریاب شیخ


میاں بیوی میں تعلق اس وقت خراب ہوتا ہے جب بیوی اپنے شوہر کی سچی محبت پر یقین کر لیتی ہے اور شوہر اپنی گرل فرینڈ کی سچی محبت پر یقین کر لیتا ہے، بیوی بےچاری یہ ہی سوچتی رہتی ہے کہ اس کا شوہر بس اسی سے ہی پیار کرتا ہے جبکہ شوہر ایک آلو کی طرح ہوتا ہے جو صرف بھنڈی یعنی اپنی بیوی کے علاوہ باقی سب کے ساتھ سیٹ رہتا ہے ، مشرقی بیویاں بہت بھولی ہوتی ہیں ، اتنی بھولی ہوتی ہیں کہ اگر شوہر کسی سے بہت پیار سے بات کر رہا ہو تو سمجھتی ہیں کہ شاید اپنی بہن سے باتیں کررہا ہے، اسی بھولے پن کی وجہ سے شوہر ادھر ادھر منہ ماری کرتے  ہیں، دوسری طرف شوہر جس لڑکی کے آگے پیچھے پھر رہا ہوتا ہے وہ اسے بھی ایسا ہی بےوقوف سمجھتی ہے جیسا وہ اپنی بیوی کو سمجھتا ہے، ایک مرد جو اپنی بیوی کو کھلونا سمجھتا ہے بالکل اسی طرح دوسری لڑکی کیلئے وہ ایک کھلونا ہوتا ہے، تعلق میں خرابی کے ذمہ داروں کی اکثریت مردوں کی ہوتی ہے لیکن  معاشرے میں ہمیشہ ہی لڑکی کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے، چاہے وہ بیوی ہو یا گرل فرینڈ ہو، لوگ کہتے ہیں بیوی ہی دھیان نہیں رکھتی ہوگی، بیوی ہی خیال نہیں رکھتی ہوگی، ضرور بیوی ہی کا کوئی چکر ہوگا جو شوہر ایسا نکلا، گرل فرینڈ کو یہ طعنہ ملتا ہے کہ شادی شدہ کا گھر خراب کردیا ، پیسہ دیکھ کر ہی پھنسی ہوگی اور معصوم مرد ہمیشہ ہی باعزت بری ہوجاتا ہے، اگر دنیا کا ہر مرد صرف اور صرف اپنی بیوی سے ہی محبت کرے اور کنوارہ صرف اور صرف صبر کرے تو یہ دنیا جنت بن جائے گی،

پرنس کی کتاب" معصوم شوہر" سے اقتباس

Tuesday, September 9, 2014

کیا آپ کو پتہ ہے آپ کہ اندر بھی کوئی ہے......... زریاب شیخ

برسوں پرانی کہاوت ہے کہ ہر مرد کہ اندر ایک عورت چھپی ہوتی ہے اور وہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی وہ عورت اپنا رنگ و روپ دھار لیتی ہے ، ایسے مرد کو بالکل ایسی ہی عورت اچھی لگتی ہے جو اس کے اندر موجود ہوتی ہے ، حالیہ ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہر عورت میں بھی ایک عورت چھپی ہوتی ہے اور جب ایک مرد اور ایک عورت کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو دونوں کے اندر موجود عورتیں ایک دوسرے کا جائزہ لیتی ہیں اگر تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوں تو سمجھ لیں لڑکا اور لڑکی کا تعلق بہترین رہتا ہے اور اگر اندر کی عورتیں ایک دوسرے کو دیکھ کر منہ بنا لیں اور برا بھلا کہیں تو لڑکا اور لڑکی ہمیشہ لڑتے رہیں گے ، پاکستان میں ایسے لڑکے اور لڑکیاں بھی دیکھنے کو ملے ہیں جن کو مردوں اور عورتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، ان کا کوئی دوست نہیں ہوتا ہے بس ان کا کام ایسے لڑکے اور لڑکیوں پر تنقید کرنا ہوتا ہے جن کے دل میں ایک دوسرے کیلئے کچھ کچھ ہوتا رہتا ہے ، حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ ایسے لڑکے اور لڑکیوں میں جو عورت ہوتی ہے اس کا نام "بی جمالو" ہے اور یہ ایک بار جس کے اندر گھس جائے تو پھر اس کا اللہ ہی حافظ ہے ، اس لئے ہر وہ لڑکا اور لڑکی جو اپنی زندگی کو شادی کے بعد خوشگوار بنانا چاہتے ہیں وہ ایسے لوگوں سے بچیں جن کے اندر " بی جمالو" موجود ہے ورنہ وہ مرتے دم تک کنوارے ہی رہیں گے اور اگر کسی کا واسطہ ایسے انسان سے پڑ جائے تو پھر کسی ایسے انسان کو تلاش کریں جس کے اندر "زبیدہ آپا" موجود ہو کیونکہ صرف وہ ہی اس کا علاج کرسکتی ہیں۔
پرنس کی کتاب"آنٹی زبیدہ" سے اقتباس

سنہری باتیں....................... زریاب شیخ


سائنس کی نئی تحقیق کے مطابق دنیا کے 90 فیصد مرد ٹھرکی ہیں جبکہ 10 فیصد کو حکیم کی ضرورت ہے

Monday, September 8, 2014

اقوال فضول.................... زریاب شیخ



اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی عزت کریں اور آپ کو عزت کے ساتھ پکاریں تو اپنا نام عزت رکھ لیں تحقیق کے مطابق اگر  نام عزت رکھ کر ساتھ بٹ لگا دیں تو آپ کی عزت کو چار چاند لگ جائیں گے

Saturday, September 6, 2014

اے ابن آدم ابھی تو جانتا نہیں میں کون ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

وہ بڑا حیران تھا کہ اتنی عبادت کرنے کے باوجود جو مقام اسے ملنا چاہیئے تھا وہ ایک مٹی سے بنے انسان کو مل گیا ، اس کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو رہی تھیں نفرت اور انتقام اس میں بڑھتا جا رہا تھا اور اس نے پھر یہ نہیں سوچا کہ وہ جو کرنے جا رہا ہے اس کا انجام کیا ہوگا اور بولا میں اس مٹی کے بنے انسان کو سجدہ نہیں کروں گا اور یہ الفاظ ادا کرتے ہی ایک دم سے اس کے اندر سے ایمان نکل گیا جو علم اور حکمت اس نے سیکھی تھی وہ سب کی سب ختم ہوگئی اور اس کے اندر ایک اندھیرا سا ہوگیا ، پہلے جس نور نے اس کو اعلیٰ مقام دیا تھا اس کے تکبر نے وہ نور ختم کرکے اس کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا کردیا تھا اس کی انا نے اس کو چین نہیں لینے دیا اور وہ اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگیا، اس ہستی کے سامنے جس نے اسے بنایا جس نے اسے اتنا کچھ سکھایا جس نے اس کو ہر تکلیف میں اکیلا نہیں چھوڑا اور آج وہ محض اپنے علم کےتکبر کی وجہ سے اس ہستی کے سامنے کھڑا ہوگیا ، اس نے کہا کہ میں اس مٹی کے انسان سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے تو نے آگ سے بنایا ہے، جس پر اللہ نے جواب دیا کہ نکل جا یہاں سے تیرا کیا حق ہے کہ تو یہاں رہ کر اکڑے اور غرور کرے،نکل یہاں سے کہ تو ذلیل ہے، وہ تب بھی نہ گھبرایا کیوں کہ اس کے اندر آگ بھری تھی اور تیز ہو گئی تھی وہ غصے سے قسم کھا کر بولا کہ میں سیدھے راستے پر بیٹھ جاؤں گا اور تیرے بندوں کو چاروں طرف سے گھیر لوں گا۔ اُن پر سامنے سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی، دائیں اور بائیں سے بھی پر حملہ آور ہوں گا اور چاروں طرف سے گھیر کر ان کو اپنا ساتھی بناؤں گا، انہیں تیرے شکر گزار بندے نہ رہنے دوں گا، لیکن خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہےوہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے شیطان کے ہاتھوں لٹیں ، بندے اُس چور سے بچنے کی ذرا سی بھی کوشش کریں تو وہ خوش ہوتا ہے ، ایک نیکی کے بدلے دس کا ثواب دیتا ہے اور بندہ خوابِ غفلت سے جس وقت بھی بیدار ہو جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔ حتّیٰ کہ مرتے وقت بھی اگر اُس کی آنکھ کھُل جائے تو خدا تعالیٰ کی رحمت و مغفرت اُسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے لیکن جو سوتے سوتے ہی ہمیشہ کے لئے سو جائیں تو سمجھ لیجئے کہ اُن کی قسمت ہی سو گئی، اللہ سے دعا ہے کہ علم دے تو تکبر اور حسد کبھی نہ دے کیوں کہ ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں جو آپ کی نجات کی بجائے آپ کیلئے وبال بن جائے۔
پرنس کی کتاب"میں ہوں شیطان" سے اقتباس

دیکھو باز آجاؤ ورنہ میں........... زریاب شیخ

ہونٹ جب ہونٹ سے ملتے ہیں تو آپ سوچ رہے ہوں گے منہ بند ہو جاتا ہے میں بھی یہ ہی سوچ رہا تھا جب دو انسانوں کی سوچ ملتی ہو تو کہتے ہیں ایسے لوگوں کے درمیان تعلق بہت اچھا ہوجاتا ہے اور یہ غلط تعلق آج کے دور میں محبت کہلاتی ہے اس کے بعد دل سے دل ملتے ہیں آج تک سمجھ نہیں آتی کہ سب کے دل ایک دوسرے سے مختلف ہیں تو پھر یہ ملتے کیسے ہیں ، اس کے بعد لڑکیوں کو اچھے اچھے خیالات آتے ہین اور لڑکوں کو گندے گندے خیالات سے پریشانی ہوتی ہے اور پھر اس کی ماں بے چاری پریشان ہو جاتی ہے کہ بیٹا تو بالکل باپ جیسا ہوتا جارہا ہے ، کچھ دن تو یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے جب دماغ کے ساتھ ساتھ صحت بھی خراب ہونے لگتی ہے تو لڑکی اچانک اپنے ماں باپ سے کہہ دیتی ہے کہ مجھے کسی سے پیار ہو گیا ہے اور پھر وہ لڑکی گھر والوں کو عمران خان کی طرح لگنے لگتی ہے دوسری طرف لڑکے کے والدین اپنے بیٹے کو عمران ہاشمی سمجھ رہے ہوتے ہیں ، ایک طرف لڑکی دھرنا دیئے بیٹھی ہے تو دوسری طرف لڑکے کو اپنے ہونٹ سوکھنے کی فکر ہے، دونوں کیلئے وقت گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے ، لڑکی رات بھر سیدھی لیٹی یہ ہی سوچتی رہتی ہے کہ کب وہ دن آئے گا جب میں اپنی جان کے سینے پر سر رکھ کر لیٹوں گی اور لڑکا بستر پر الٹا لیٹا یہ سوچتا رہتا ہے کہ بس جلدی سے شادی ہو اور یہ گندے گندے خیالات ختم ہوجائیں، اس سے پہلے کہ میں مزید لکھتا ایک مسحور کن ہنسی کی آواز نے میرا ہاتھ روک دیا ، میرے ہمسائے کی کام والی چھت پر کپڑے پھیلاتے ہوئے فون پر ہنس کر کسی سے بات کر رہی تھی اور میں اس کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے لوگ POGO دیکھتے ہیں ۔۔
پرنس کی کتاب"ٹوٹی فروٹی عشق" سے اقتباس

Thursday, September 4, 2014

تم نہ ملے تو مر جائیں گے .................. زریاب شیخ

انسان کو جلد باز کہا گیا ہے اور اس کی فطرت میں بہت بےچینی ہوتی ہے ، ہر کام جلدی کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جیسے آج کا نوجوان جس لڑکی  سے دو چار دن ایس ایم ایس یا فیس بک پر باتیں کرلیتا ہے تو جلدی سے فیصلہ بھی کرلیتا ہے کہ کتنے بچے ہوں گے ، کیسی زندگی ہوگی اور جب وہ لڑکی کسی اور عاشق کے میدان میں آنے کے بعد اسے بھائی کہہ دیتی ہے تو سارا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بھائی کہنا برداشت نہیں کر پاتے اور دھمکیوں پر اتر آتے ہیں ، اگر ہم ایسے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا بہت ہی بری نظر سے جائزہ لیں تو خودکشی اور دھمکی کی سوچ ان کے گھر کے ماحول اور پرورش کے دوران ان کے اندر پیدا ہوتی ہے ،  کچھ لوگ تو لڑکیوں کے بار بار ٹھکرائے جانے پر اس قدر نادم ہوتے ہیں کہ وہ خود کو she کر لیتے ہیں اور اپنا محبوب کسی مرد کو ہی بنا لیتے ہیں جو کہ آج کل بہت عام ہوگیا ہے ، ایک لڑکے یا لڑکی کو جب گھر میں پیار اور توجہ کم ملے گی تو اس کا دل اپنوں کی بجائے غیروں کی طرف مائل ہوجاتا ہے ان کا دل کرتا ہے کوئی انہیں بھی چاہنے والا ہو ، انہیں بھی پیار کرنے والا ہو لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گھر سے ٹھکرائے جانے کے بعد باہر سے بھی دھوکہ ہو جاتا ہے اور یہ لوگ خود کو سنبھال نہیں پاتے، کوئی ان کی کیفیت کو سمجھ نہیں پاتا اور پھر یہ لوگ خود کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا دنیا میں کوئی فائدہ نہیں ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو ٹوٹ کر چاہتے ہیں ان کے والدین ہی انکار کر دیتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں ایسے موقعوں پر اکثر لوگ بالکل ہی خود کو تنہا کرلیتے ہیں اس کیفیت کے پیدا ہونے میں معاشرے کا بھی ہاتھ ہے جو ایسے لوگوں کو سپورٹ ہی نہیں کرتا الٹا اس کا مذاق اڑاتا ہے ، اسے طعنے دیتا ہے ، دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ہار بالکل پسند نہیں جو حق نہ ملے تو چھین لیتے ہیں ، جو بہت ضدی ہوتے ہیں جن کو انکار پسند نہیں ہوتا ، ایسے لوگوں کو جب پیار میں دھوکہ ہوتا ہے یا انکار کردیا جاتا ہے تو یہ پھر اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جس سے پیار کیا ہے اس کی بھی کوئی مجبوری ہے جو گھر والوں نے انکار کیا اور محبوب کی جان کے دشمن ہی بن جاتے ہیں، ایسے لوگوں کی اکثریت اپنے محبوب کو قتل کردیتی ہے ، محبت میں ناکامی اور قتل کا سلسلہ صدیوں سے ہوتا  آرہا ہے اور کب تک رہے گا کوئی نہیں جانتا ، یہ کہہ کر میں نے جیسے ہی کالج میں لیکچر ختم کیا تو دیکھا موبائل پر میسج آیا ہوا تھا کہ جان آج  کھانا باہر کھائیں گےاور ساتھ ہی بیگم کو میسج کردیا کہ میں گھر لیٹ آؤنگا ، آج کالج میں بہت کام ہے ۔

پرنس کی کتاب" Blind Flirt" سے اقتباس

بچہ تو بچہ ہوتا ہے جب تک بچہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زریاب شیخ

کچھ دن پہلے میری ملاقات ایک بنت نازک سے ہوئی ، آنکھوں میں لگا کاجل آنسو میں بہہ کر گلابی گالوں کو کالا کر رہا تھا ، دل میں اک ہوک سی اٹھی اور پاس جا کر بولے کہ اے پری زاد کیا بات ہے کیوں آنسو بہا کر پانی ضائع کر رہی ہو ، نشیلی آنکھین کیوں خراب کررہی ہو تو اس نے ایک ہچکی لی، ہم ایک دم ڈر گئے کہ کہیں یہ آخری ہچکی تو نہیں ، پھر جان میں جان آئی جب اس نے پیاری سی دلفریب آواز میں کہا کہ مجھے آپ سے پیار ہوگیا ہے لیکن آپ مجھے کوئی لفٹ ہی نہیں کراتے نہ ہی مجھے وقت دیتے ہیں بس اپنے کام میں لگے رہتے ہیں ، کچھ دیر اس کا حسین چہرہ تکتے رہنے کہ بعد میں بولا کہ ابھی تمھاری عمر ہی کیا ہے مل جائے گا کوئی اور جو تمھاری قدر کرے گا اور تمھارے آگے پیچھے پھرے گا جس کو تم اپنی انگلیوں پر نچا بھی سکو گی، اس نے آنکھیں پھاڑ کر میری طرف دیکھا اور بولی آپ میری دل جوئی کر رہے ہیں یا میرے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ، سر کھجاتے ہوئے میں بولا کہ یہ عشق یہ پیار بہت بری بلا ہے ایک بار چمڑ گئی تو جان نہیں چھوڑتی میری مانو تو اس سے دور رہو اور جہاں امی ابو کہیں وہاں ہی شادی کرلینا ، آج کل کے لڑکے ریل کے انجن کی طرح ہوتے ہیں چلتے چلتے کسی بھی وقت خراب ہوسکتے ہیں ، لڑکوں کا حال چائنہ کے موبائل جیسا ہے دیکھتے ہی پیار آتا ہے لیکن کچھ دن بعد دل کرتا ہے دیوار سے مار کر توڑ دو ، وہ ایک دم ہنس پڑی کہنے لگی آپ کو بھی کبھی عشق ہوا ، ہم مسکرائے اور بولے کوئی ایک ہو تو بتاؤں ، ابھی تو تم پر پیار آریا ہے وہ ایک دم زور سے ہنسی اور بولی آپ تو میری جان ہیں اور یہ کہہ کر میں نے اپنی 7 سالہ کزن کا ہاتھ پکڑا اور اسے چاکلیٹ دلانے بازار کی طرف روانہ ہوگیا اور یہ سوچ رہا تھا کہ ٹی وی نے آج کل کے بچوں کو وقت سے پہلے بڑا کردیا ہے اب ایک چھوٹی بچی بھی اسی طرح شرماتی ہے جیسے 18 سال کی لڑکی ہو، دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے بچوں کا بچپنا بھی تیزی سے ختم ہورہا ہے ۔

پرنس کی کتاب"بچے اب نہین ہیں کچے" سے اقتباس

Tuesday, September 2, 2014

ارے لعنت بھیجو یار اپنا کام کرو ..................... زریاب شیخ

پاکستانیوں کی اکثریت میں ایک بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے کہ جب بھی غصے ہوتے ہیں تو لعنت بھیجنا شروع کر دیتے ہیں، لعنت کا لفظ اب روز مرہ کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے،میرے فضول خیال میں اگر آج نیوٹن پاکستان میں پیدا ہوتا اور اس کے سر پر سیب گرتا تو وہ یقیناً یہ ہی کہتا کہ اف لعنت ہے اسے میرے سر پر ہی گرنا تھا اور آرام سے کھا کر چلتا بنتا ، افریقہ کے لعنتی سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق جو شخص بہت زیادہ لعنت بھیجتا ہے تو اصل میں یہ لفظ اس کے گھر میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اسے سن سن کر وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے ، جیسے اگر گھر میں رات کو اچانک گھر کی بیل بجے تو ایک دم کمرے سے آواز آئے گی ، لعنت ہے اس ٹائم کون آگیا، اگر بار بار گھنٹی بجے تو کہا جاتا ہے، ارے کوئی لعنتی دروازہ کھولے، کہاں مرے ہوئے ہیں سب ، اگر کسی لڑکے کا لڑکی پر دل آگیا ہے اور وہ کسی اور کے ساتھ سیٹ ہے تو نوجوان کہتے ہیں لعنت ہے یار ، ہماری تو قسمت میں ہی کنوارہ رہنا لکھا ہے ، اگر کوئی لڑکا بار بار کسی لڑکی کو دیکھے گا تو وہ اپنی سہیلی سے کہتی ہے بڑا ہی لعنتی لڑکا ہے میرے پیچھے ہی پڑگیا ہے ، بیٹا امتحان میں فیل ہوگیا اور باپ نے ایک دم سے کہہ دہا کہ لعنت ہے اس دن پر جب تم پیدا ہوئے ، بیٹی نے اپنی مرضی کا لڑکا پسند کرلیا تو ماں بولتی ہے لعنت ہے تجھ پر ہم سب کا منہ کالا کروائے گی ، گویا ہمارے ملک میں ایس ایم ایس بھیجنے کے بعد دوسرا بڑا کام لعنت بھینجنا رہ گیا ہے ، حتیٰ کہ اب تو سیاستدان بھی یہ لفظ خوشی سے استعمال کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ لعنت بھیجنے سے ایک تو بات میں وزن آتا ہے اور دوسرا لوگ ان کی طرف کچھ زیادہ ہی دل سے متوجہ ہوتے ہیں، اس کی خستہ اور تازہ تازہ مثال طاہر القادری صاحب ہیں جو عوام میں جوش انقلاب لانے کیلئے حکومت اور جمہوریت پر لعنت بھیجتے ہیں ان کے ایک چاہنے والے نے نام نہ ظاہر کرنے پر ہمیں بتایا کہ طاہر القادری انقلاب کرتے وقت بہت زور لگا کر لعنت بھیجتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ جلد ہی یہ انقلاب رنگ لائے گا ۔
پرنس کی کتاب" لعنت بھیجو " سے اقتباس

Monday, September 1, 2014

ہم تم کنٹینر میں بند ہوں ، انقلاب آ جائے۔۔۔ زریاب شیخ

اس دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں اچھے اور برے ، اچھے تو سب کی نظر میں اچھے ہی ہوتے ہیں ، کئی لوگ تو اتنے اچھے ہوتے ہیں کہ دنیا والوں کی زبان پر ہر وقت ان کا نام ہوتا ہے ، جیسے اچھا قصائی، اچھا گجر، اچھا نائی، اچھا پان شاپ، اچھا ملک شاپ، یہ وہ اچھے لوگ ہیں جو خاندانی طور پر اچھے ہیں چاہے وہ کتنے ہی برے کام کیوں نہ کرتے ہوں ، اسی طرح برے لوگ ہیں وہ چاہے جتنے مرضی شریف ہوں لیکن برے ہی رہتے ہیں جیسے نواز شریف، شہباز شریف ، یہ لوگ جتنے مرضی شریف ہوں لیکن دنیا کی نظر میں برے ہی رہیں گے حالانکہ ان سب کے چہروں سے شرافت ہر وقت ٹپکتی ہے، آج کل مارکیٹ میں ایک نیا براںڈ متعارف ہوا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دور سے دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں لیکن قریب جائیں تو برے لگتے ہیں جیسے عمران خان ، طاہر القادری ، ان کو ٹی وی پر دیکھیں تو لگتا ہے کوئی بہت پڑھے لکھے بندے ہیں لیکن جب قریب سے دیکھیں تو  بندے کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے اور انقلاب شدت سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ، ایسے لوگوں کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ یہ اصل میں ہیں کیا ، اس وقت ملک کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جس میں یہ تینوں خوبیاں موجود ہوں اور میرے خیال میں پاکستان کا اگلا وزیراعظم "الماس بوبی" کو ہونا چاہیئے ایک تو وہ اچھا ہے کیوں کہ اس کو دیکھ کر کچھ کچھ ہوتا ہے ، دوسرا وہ شریف بھی ہے اور وہ دور سے بھی اچھا لگتا ہے اور پاس سے تو بہت ہی اچھا لگتا ہے ،الماس بوبی اس ملک کی عوام کے دل کی آواز ہے اور میرے خیال میں ہم سب کے اندر بھی  ایک الماس بوبی موجود ہے جس کا کام صرف تالیاں بجانا اور ٹھمکے لگانا ہے چاہے اس ملک کا ستیا ناس ہی کیوں نہ ہوجائے لیکن اس کو کوئی پرواہ نہیں :)

پرنس کی کتاب" میرا چکنا پاکستان" سے اقتباس