Tuesday, November 11, 2014

جان تو جان ہوتی ہے کس نے کہا وبال جان ہوتی ہے........... زریاب شیخ


جان ایک بہت ہی خوبصورت لفظ ہے ، جس طرح کھانے میں نمک کے بغیر سارا کھانا بے کار ہے اسی طرح لفظ جان کے بغیر محبت بھی بے معنی سی ہو جاتی ہے ، جان کی اصل میں دو قسمیں تھیں لیکن بعد میں اس میں ملاوٹ کرکے کئی قسمیں بنا دی گئیں، ایک تو صرف جان ہے اور دوسری وبال جان ہے ، جان کا لفظ محبت میں مزید زور دینے کیلئے بہت آزمودہ ہے ، اس کے ساتھ  سابقہ اور لاحقہ کا استعمال نہ ہو تو یہ ایک انتہائی خطرناک لفظ بن جاتا ہے ، وہ چاہے کسی مرد کو کہیں یا عورت کو ایک دم سے اُس کی جان نکل جاتی ہے ، آج کل سب سے زیادہ یہ ہی لفظ استعمال ہو رہا ہے، شریف لوگ اس کا استعمال اچھے طریقے سے کرتے ہیں جیسے بھائی جان، امی جان، ابو جان وغیرہ وغیرہ ، اس کے بعد اگر الفاظ لگائے جائیں تو جان تمنا، جان بہاراں، جان من ، جان جگر بن جاتا ہے، جان اگر بہت اچھی ہو تو اس پر جان بھی قربان کرنے کا دل کرتا ہے اور اگر جان ہی وبال جان بن جائے تو جان نکالنے کا دل کرتا ہے، کسی نے سچ کہا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے، بعض اوقات جان جان زیادہ کرنے سے اپنی جان کو بھی خطرہ ہو جاتا ہے، پاکستان میں ایک المیہ یہ ہے کہ نوجوان شادی سے پہلے جس کو جان جان کہتے ہیں شادی کہ بعد اسی کو وبال جان کہنا شروع کردیتے ہیں ، یہ تو سب مانتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اس لئے آج کا نوجوان اگر اللہ کا شکر ادا کرے اور اپنی ہونے والی جان کو جان سے زیادہ پیار کرے تو وہ جان ہمیشہ جان سے زیادہ عزیز رہے گی کبھی وبال جان نہیں بنے گی۔
۔
پرنس کی کتاب"وبال جان" سے اقتباس

No comments:

Post a Comment